ثروت رضوی
ملک میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض اور ان کا حل۔ کیا نفسیاتی ماہرین کی مدد لینا ہی مسئلے کا حل ہے؟
کیا آپ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں۔ کیا آپ کو کسی نفسیاتی معالج کی ضرورت ہے؟ کیا ڈپریشن یا کسی اور صدمے یا پریشانی سے باہر آنے کے لیے بھی کسی معالج کے پاس جانا فائدہ مند ہوسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ نہ ہی جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔ جسمانی بیماری کا علاج کروانا تو انسان کی ضرورت سمجھی جاتی ہے تاہم ذہنی مسائل اور ان کا حل آج بھی معاشرے میں قابل اعتنا نہیں گردانے جاتے۔ بیسویں صدی کے اس عشرے میں بھی جہاں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے ہمارے ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو سائیکلوجسٹ یا سائیکیٹرسٹ کے پاس جانے کو وقت اور پیسے کا زیاں سمجھتی ہے
وفاقی وزیر صحت کی جانب سے پارلیمنٹرینز کے سوالات کے قومی اسمبلی میں جوابات جمع کراتے ہوئے یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہمارے ملک میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام کوئی مینٹل ہیلتھ ہوسپٹل یا انسٹیٹیوٹ نہیں۔ پمز، پولی کلینک اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ری ہیبیلیٹیشن سینٹرز جو ملک کے بڑے ہسپتالوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان میں سے صرف پمز ہوسپٹل میں شعبہ نفسیات ہے۔ اس بات کا دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان تمام بڑے ہسپتالوں میں اب تک اس شعبے کو اہمیت دی ہی نہیں گئی۔
جبکہ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محض پمز ہوسپٹل میں سن دوہزار سترہ میں تیس ہزار سے زائد مریض رپورٹ کیے گئے جو کہ ملک کی کل آبادی کو دیکھتے ہوئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کی بڑی تعداد کسی ہسپتال تک رسائی کی استطاعت ہی نہیں رکھتی۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کا یہ موقف کہ ملک میں ذہنی امراض کی شدت دیگر امراض سے بدرجہ کم ہے۔ تو یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا جب اس تعداد میں اضافہ ہوجائے گا تو اس جانب توجہ دی جائے گی؟ بقول شاعر
مرجائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ خود بھی یا تو اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ ان کو یا ان کے قریبی کسی انسان کو کوئی ذہنی مرض لاحق ہوسکتا ہے اور اگر لاحق ہے بھی تو اس کا علاج بھی ہونا چاہیے۔ اور اگر مارے باندھے اس بات کو تسلیم بھی کرلیں کہ ان کو کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو بھی کسی معالج کی مدد لینا سراسر پیسے کا زیاں خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں ہم لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کسی بھی انسان کو جیسے نزلہ، بخار یا کھانسی جیسی بیماریاں لوحق ہوجاتی ہیں اسی طرح کوئی ذہنی بیمار ی بھی ہوسکتی ہے جس کا علاج کسی بھی دوسری جسمانی بیماری کی طرح کرانا بے حد ضروری ہے۔
اس ضمن میں یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس صورت میں جب ملک میں اعصابی انتشار یا نفسیاتی مسائل سے نمنٹنے کے لیے معالج کے پاس جانا وقت اور پیسے کا زیاں سمجھا جاتا ہو تو ایسے میں ہر انسان کو انفرادی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں بھی کرنی چاہئیں۔ جیسے کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی سے یا اگر ہو سکے تو کچھ وقت کے لیے ماحول میں تبدیلی۔ اچھے دوستوں سے ملاقات کرنا، موسیقی سننا، جو بات دل کو پریشان کررہی ہو اور کسی سے کہ نہ سکتے ہوں اس کو لکھ کے جلا دینا ایسی بہت سی ترکیبیں ہیں جن کو استعمال کرکے انسان ٹینشن اور ڈپریشن سے دور رہ سکتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً چالیس فیصد افراد نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے اور ان خواتین میں بھی بڑی تعداد گھریلو خواتین کی ہے جن کا مرکز نگاہ صرف ان کا گھر اور بچے ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا سے ان کا تعلق ذاتی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ ایسی خواتین کا ملنا جلنا بھی زیادہ تر اپنی جیسی خواتین سے ہوتا ہے جن کی باتیں اور سوچیں بھی انھیں کی طرح ایک خاص محور میں گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس صورت میں خواتین کو کہیں سے بھی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں ملتا جس سے اچھی بھلی خاتون میں مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو نے لگتی۔ کچھ نہیں تو ڈپریشن جسے آج کے زمانے میں معمولی مرض یا نئے زمانے کی بیماری سمجھا جاتا ہے، اس کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم ڈپریشن کا شکار خواتین کو کچھ مفید مشورے ضرور دینا چاہیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ اپنا سب سے بہتر علاج انسان خود کرسکتا ہے خاص کر ڈپریشن جیسے امراض کا۔
اور جب تک آپ خود نہ چاہیں آپ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ یہ بات تو سمجھ لیتے ہیں کہ ان کو ڈپریشن کا عارضہ لاحق ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے باہر کیسے آنا مگر اس سلسلے میں کوئی شعوری کوشش کرنے پر خود کو راضی نہیں کرپاتے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام جو کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ انسان خود ترسی کا شکار نہ بنے بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کرے۔ ماحول تبدیل کرے، اچھے مثبت لوگوں سے ملے اور مایوسی کی باتوں اور سوچوں سے دور رہنے کی کوشش کرے۔ جب تک آپ خود کو نہیں سنبھالیں گے کوئی دوسرا آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
اس سب کے بعد اگر آپ کو پھر بھی لگتا ہے کہ آپ کو کسی معالج کی ضرورت ہے تو پھر ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جب آپ کسی ماہر نفسیات کے پاس جائیں تو یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ وہاں جاکے جھوٹ کا سہارا نہ لیں ورنہ ماہر نفسیات بھی آپ کی مدد نہیں کرسکے گا۔ اکثر لوگ جب کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو اپنی بیماری کے بارے میں صاف طور پر نہیں بتا پاتے یا جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ کی ماہر نفیسات تک پہنچنے کی ساری جدوجہد صفر ہوجاتی ہے۔
نفسیاتی ماہر آپ کو اچھے مشہورے دے سکتا ہے آپ کے ذہن کی الجھی گرہوں کو کھول سکتا ہے لیکن ی صرف اسی وقت ممکن ہے جب سائیکولوجسٹ کے پاس جاتے ہوئے مکمل ایمانداری اور بھروسے کے ساتھ اس کے ساتھ تمام باتیں شیئر کریں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ کی یہ کوشش بھی بے سود ہوجائے گی۔ دوسری اہم بات یہ کہ نفسیاتی معالج کے مشہورے صرف سننے نہیں ہوتے بلکہ ان پر بعد میں بھی کچھ عرصے تک عمل کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ دوچار روز میں ہی ڈاکٹر کی کہی باتوں کو بھول جاتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم کو تو ماہر نفسیات کے پاس جاکر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا بھئی۔ تو جناب فائدہ اٹھانے کے لیے خود بھی تھوڑی محنت کرنا ہوگی اگر محنت کرسکتے ہیں تو۔ ان تمام باتوں پر عمل کریں اورزندگی کو خوشگوار بنالیں۔