ہم پوری ایمانداری اورصدق دل سے اعتراف کررہے ہیں کہ ان دنوں میں ہم احساس کمتری کاشکارہوچکے ہیں۔ پہلا خیال یہ تھا کہ شاید یہ احساس صرف ہمارے اندر جاگزیں ہے مگر تھوڑے سے مشاہدہ نے ثابت کردیا کہ اس احساس کا شکارہروہ شخص ہے جو اپنے شعبہ کے ماہر مگر ”حقیقی تخلیق کار“ ہے مگر اسے چاپلوسی نہیں آتی یا پھر وہ اپنے شعبہ کے ”بڑوں“ کے آگے پیچھے پھرنے کو عبادت تصور نہیں کرتا یا پھر اپنے متعلقہ کسی بھی شعبہ کے لوگوں کی خوشامد نہیں کرتا۔
ہمارا احساس کمتری یہ ہے کہ ہمارے شعبہ میں ایسے ایسے لوگوں کو پذیرائی مل رہی ہے جن کا دور دور سے شعبہ صحافت سے واسطہ تعلق نہیں۔ ایک صحافی کون ہوتاہے؟ یہ سوال جب اپنے آپ سے کرتے ہیں تو جواب آتا ہے کہ جو کسی بھی واقعہ کو خبر کی شکل دینے کا اہل ہو۔ جو خبر تلاش کرنے اورخبربنانے کا ہنرجانتا ہے۔ ایک لکھاری اورصحافی میں کیا فرق ہے؟ یہ دوسرا سوال ہمارے اندر سے اٹھا۔ صحافی وہ جو خبر بنانے میں مہارت رکھتاہو اورمعاشرہ کی ہرسیدھی الٹی تصویر پر اس کی نظر ہو اور وہ ان الٹی سیدھی تصویروں کو خبر کی شکل میں پیش کرسکے اس کے لئے ضروری ہوتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر محض خبر ہی تخلیق کرے اسے مضمون یا کالم کی شکل دینے سے گریز کرے۔
ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ کسی بھی واقعہ یا سانحہ کی ایف آئی آر آپ کے سامنے آئے تو اسے من وعن شائع کریں اس پر تبصرہ سے گریز کریں اگرآپ کو تبصرے کاشوق ہے تو اس خبر کو خراب کرنے کی بجائے الگ سے اپنا تبصرہ شائع کریں۔ خیر بات دور تلک نکل گئی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ فی زمانہ جس قسم کی پھپھوندیاں سامنے آرہی ہیں ا ن کے سامنے ہم واقعی احساس کمتری کا شکار ہیں کہ انہیں جس قدر پذیرا ئی بخشی جاتی ہے اس کا عشر عشیرہم نہیں؟
وجہ؟ محض اتنی کہ خواہ مخواہ کی چاپلوسی آتی نہیں۔ لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے کاہنر نہیں آتا۔ سیاسی ڈیروں کاطواف اور وڈیروں کی کاسہ لیسی ہمارا کام نہیں۔ ہم نے جس کام کے لئے قلم اٹھایا وہ ایمانداری سے کررہے ہیں؟ خیر یہ تو ہمارا احساس کمتری ہے۔
ہمارے جاننے والوں میں سے ایک عالم دین بھی ہیں جن کے حوالے سے کم ازکم ہماری ناقص معلومات یہ ہیں کہ وہ لاتفرقو کا حقیقی درس دے رہے ہیں۔ امت واحدہ بنانے کے حکم کی تعمیل میں انہوں نے اپنا آپ بھی تج دیا ہے۔
سٹیج پر ہوں یا پھر نجی محفل میں۔ ان کا طرز عمل ہمیشہ یکساں رہتاہے۔ شیعہ۔ سنی۔ دیوبندی۔ وہابی۔ اہل حدیث۔ گویا ہرفرقہ کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن انہیں بھی کل مایوس دیکھا۔ ملاقات کے دوران پہلے جیسی گرم جوشی بھی نہ تھی۔ ان کی طویل خاموشی بارے سوال کیاتو نمناک آنکھوں کے ساتھ بولے ”دراصل میں احساس کمتری کاشکارہوگیاہوں“ ہم نے حیرانی سے پوچھا ”حضور! آپ توہمیشہ امید دلاتے رہتے ہیں۔ آپ خود بھی مایوسی اور احساس کمتری کاشکارکیسے ہوگئے؟ ”
جوابا بولے“ دراصل میں نے فلاں فلاں عالم دین کو دیکھا ہے انہیں خوب پذیرائی بخشی جاتی ہے؟ وجہ محض اتنی ہے کہ وہ ایک مخصوص مسلک کو کافر۔ دوسرے کو مشرک تیسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں؟ بس اسی بدولت انہی جیسے لوگوں نے انہیں ہیرو اور اپنا امام تصورکررکھا ہے۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ اسی قسم کے فتوؤں کی وجہ سے ہی آج پاکستان بے حال اورامت مسلمہ زبوں حالی کاشکار ہے۔ پھر میں نے فلاں کو دیکھا۔ سرکار کے چرنوں میں گرے ہوئے یہ حضرت۔ اف اللہ۔ ۔ سوچتاہوں کیا آج کے معاشرے کو امن کے حقیقی پرچارک افراد کی ضرورت نہیں یا پھر میں وہی طرز عمل اختیارکرلوں۔
کچھ ہی دنوں قبل ایک بزرگ ماہر تعلیم سے ملاقات ہوئی ان کے شکوے شکایات کچھ ویسی ہی تھیں جس کا اظہار ہم نے ایک عالم دین کی زبانی کرچکے ہیں۔ یہ ماہرتعلیم حقیقی معنوں اورجذبہ خدمت کے تحت خلوص نیت سے بچوں کو تعلیم دیتے رہے اورآج بھی یہ کام جاری رکھا ہوا ہے لیکن وہ پوچھتے ہیں کہ وہ تو اپناکام ایمانداری سے اور عبادت سمجھ کر کرتے ہیں لیکن فی زمانہ اسے ہی اچھا استاد تصورکرلیاگیا ہے جس کی ٹیوشن فیس زیادہ ہو۔ وہ ادارہ قابل تکریم سمجھاجاتاہے جو داخلہ فیس اورماہانہ فیس کے نام پر والدین کی جیب خالی کردے اورپھر خوبصورت وردیوں کی آڑ میں لوگوں کو اپنی جانب راغب کرکے دراصل بچوں کی گھر یلو تربیت کا بھی بیڑہ غرق کردے۔
ان صاحب کا گلہ ہے کہ ہم تو تعلیم اورتربیت کو ساتھ لے کر چلنے والے لوگ ہیں لیکن آج کل کھلی تعلیمی دکانوں نے تربیت کا تو بالکل ہی بیڑہ غرق کردیا لیکن والدین ہیں کہ انہی جانب کھچے چلے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ انہیں تربیت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کوگٹ بٹ کرتے انگریز تو بناناچاہتے ہیں لیکن اچھا انسان نہیں۔
یہ صرف دوچار افرادیا کسی بھی شعبہ سے وابستہ حقیقی اورمخلص لوگوں کا شکوہ نہیں جیسا کہ ہم ابتدا عرض کرچکے ہیں کہ یہ شکوہ۔ شکایت ہرشعبہ کے ہراس شخص کو ہے جو اپنے شعبہ سے خلوص نیت کے ساتھ جڑا ہے لیکن اسے یہ دکھ بھی رہتاہے کہ اس کا خلوص اور وفا بھی معاشرہ کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ”دکھاوا“ زیادہ پراثر ہوچکا ہے ایسے ہی لوگ خواہ مخواہ احساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہم خود سے سوال کرتے رہے کہ معاشرہ واقعی اس حد تک بگاڑکاشکار ہوچکا کہ اسے اچھے برے اورخلوص وفا کی ضرورت نہیں رہی۔
لیکن پھر ایک بزرگ کاقول سامنے آیا کہ جوہری ہمیشہ ہیرے کی تلاش میں رہتا ہے اورچاہے اسے پاتال میں اترناپڑے یا پھر سنگلاخ پہاڑوں کو پاٹنا پڑے وہ ضرور یہ حاصل کرکے رہتا ہے۔ شاید انہی جوہریوں کی وجہ سے معاشرہ کی اچھائیاں باقی ہیں۔ سوال کاجواب مل چکا ہے۔ لیکن پھر ایک سوال سامنے آکھڑا ہے کہ کیا معاشرہ کے قلیل لوگ ہی اچھائی کے طلب گار ہیں۔ خلوص کی چاہت ہے محض چند لوگوں کو ہے؟ اندر سے جواب آتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے کہ تلاش والے ظاہری نمودو نمائش سے وقتی طورپر متاثر ہوکر اس کی طرف چل ضرور پڑتے ہیں لیکن وہاں سے خالی سپیاں ہی ملتی ہیں تو وہ پھر تلاش کے سمندر میں کود کر ہیرا ضرور تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید ابھی تلاش والوں کی آنکھ ظاہری چکاچوند کے باعث پوری طرح کھل نہیں سکیں۔