سائنسدان اور ماہر حیاتیات حضرت علامہ روپرٹ شلدریق اپنی کتاب “سائنس سٹ فری” میں لکھتے ہیں کہ آج کچھ سائنسدانوں کی تنگ نظری کی وجہ سے سائنس نے بھی ایک مذہب کی شکل اختیار کر لی ہے. جس طرح ہمارے مذھبی پیشوا اور ان کے مقلدین بغیر سوچے سمجھے یا تحقیق و تفتیش کئے صدیوں پرانے مذہبی عقائد کو مقدس مانتے اور ان میں کسی ترمیم یا تبدیلی کو گناہ سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح یہ سائنسدان بھی کچھ سائنسی بیانات یا مفروضات پر تقدس کا جامہ چڑھا کر انہیں سینے سے لگائے ہوئے ہیں. نئی دریافتوں، مشاہدوں، یا تجربوں سے حاصل ہونے والے حقائق ان سائنسی عقائد کی نفی کریں تو وہ ان حقائق پر تحفظ عقائد سائنس کا پردہ ڈال کر انھیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں. علامہ شلدریق نے ایسے دس سائنسی عقائد کی نشاندہی کی ہے.
اس کائنات کی ہر شئے جاندار ہو یا بےجان میکانکی یعنی مشین ہے. کتا بلی ہی نہیں حضرت انسان بھی محض ایک مشین ہے. اس کی کھوپڑی میں موجود دماغ خلقی پروگرام سے چلنے والا ایک حیاتیاتی کمپوٹر ہے.
تمام مادہ بے شعور ہے. انسانی شعور بھی محض فریب نظر ہے جو کہ دماغ کی مادی یا کیمیائی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے.
اس کائنات میں مادے اور توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے یعنی ان کی مقدار میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. البتہ بگ بانگ، جب تمام مادہ اور توانائی اچانک نمودار ہوئی، اس اصول سے مستثنیٰ ہے.
قدرت کے تمام قوانین روزاول سے متعین ہیں. وہ آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے وہ کائنات کی پیدائش کے وقت تھے اور ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے.
قدرت بے مقصد ہے. ارتقا کی نہ تو کوئی سمت ہے اور نہ ہی منزل. دوسرے لفظوں میں یہ ساری کائنات ایک سگ آوارہ کی طرح خلا میں گھوم پھر رہی ہے.
تمام حیاتیاتی ورثہ مادی ہے جوکہ جینیاتی مادے یعنی ڈی این اے کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے.
ذہن جاندار کی کھوپڑی میں مقید رہتا ہے اور یہ دماغ کی کیمیائی سرگرمیوں کے سوا کچھ نہیں. نیز جب آپ کسی چیز مثلا” درخت، دریا، یا پہاڑ کو دیکھتے ہیں تو آپ اسے اپنی کھوپڑی سے باہر نہیں دیکھتے بلکہ اس کے عکس کو اپنے دماغ میں دیکھتے ہیں.
ہر جاندار کے دماغ میں مادی ٹریس ہیں جہاں اس کی یادیں یا یادداشتیں محفوظ رہتی ہیں. مرنے کے بعد دماغ کی ساتھ اس کی یادداشتیں بھی مٹی میں مل کر فنا ہو جاتی ہیں.
اشراق ذہن یا خیال رسانی ایک واہمہ یا فریب نظر کے سوا کچھ نہیں.
بیمار کو صرف اور صرف میکانکی دوائیں صحتیاب کرتی ہیں. باقی ہر دوا، دعا، یا تدبیر بیکار ہے.
علامہ شلدریق کے بقول مادہ پرستی کے فلسفے یا نظریے کی جان یہی دس سائنسی عقائد ہیں. مختصر لفظوں میں مادہ پرستوں کا ایمان ہے کہ اس کائنات کی ہر شئے حتیٰ کہ انسان کا ذہن بھی بس مادہ ہے. موت کے ساتھ ہی ذہن اور شعور بھی باقی جسم کے ساتھ مٹی میں مل کر فنا ہو جاتے ہیں. کچھ بھی باقی نہیں بچتا. مادہ پرستوں کی اس ایمانیات کا آغاز انسویں صدی کے نصف آخر میں ہوا اور گزشتہ صدی میں عروج. بہت کم سائنسدان جانتے ہیں کہ یہ “سائنسی عقائد” حقائق نہیں، محض مفروضات ہیں. لہذا ان پر سوال اٹھانا گناہ نہیں بلکہ ہر سائنسدان کا فرض ہے. آگے چل کر علامہ شلدریق ان سائنسی عقائد کو سوالات کی شکل دے کر سائنسدانوں کے روبرو پیش کر دیتے ہیں.
کیا قدرت محض میکانکی یا مشین ہے؟
کیا کائنات میں مادہ اور توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے؟
کیا قوانین قدرت متعین ہیں اور ان میں تخیر و تبدل ممکن نہیں؟
کیا مادہ بے شعور ہے؟
کیا قدرت کا کوئی مقصد نہیں؟
کیا تمام حیاتیاتی ورثہ مادی ہے؟
کیا ہماری یادداشتیں مادی ٹریسوں کی صورت میں دماغ میں محفوظ ہیں؟
کیا ذہن دماغ کے اندر مقید ہے؟
کیا خیال رسانی محض فریب نظر ہے؟
کیا بیمار کو میکانکی دواؤں کے علاوہ کوئی چیز صحتیاب نہیں کر سکتی؟
کتاب کے باقی ابواب میں علامہ شلدریق نے مشاہدات، تجربات، اور سائنسی حقائق کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ مادہ پرستوں کی طرف مزید سوالات اچھال دئیے ہیں. ان کا موقف ہے کہ قدرت کے میکانکی ہونے کا نظریہ سائنسی نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے جسے ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا. نیز بگ بانگ نظریے کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہماری کائنات ایک مشین کی بجائے ایک ذی روح شے لگتی ہے جو مسلسل نشونما پا رہی اور بڑھ رہی ہے. مزید براں جدید علم کائنات کے مطابق ہماری کائنات 96% تاریک مادے اور تاریک توانائی پر مشتمل ہے. نیز کائنات کے مسلسل پھیلنے کے کے نتیجے میں نہ صرف تاریک توانائی بلکہ عام مادے اور توانائی کی مقدار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے. قوانین قدرت کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ کائنات اور اس میں موجود ہر شئے کی طرح یہ بھی ارتقا پذیر ہیں. انھیں قوانین کی بجائے قدرت کی خصلتیں یا عادات کہنا بہتر ہے اور یہ بدل سکتی ہیں.
اس کتاب میں سب سے زیادہ دلچسپ بحث یادداشتوں، ذہن، اور شعور پر ہوئی ہے. مادہ پرستوں کے نزدیک اس کائنات کی حقیقت بس مادہ ہے. ہمارا ذہن اور شعور مادی دماغ کی کیمیائی سرگرمیوں کے سوا کچھ نہیں. جس طرح چیزوں کا عکس ہمارے دماغ میں بنتا ہے اسی طرح ہماری یادداشتیں بھی ہمارے دماغ میں موجود ٹریکوں پر محفوظ ہوتی ہیں. جسمانی موت کے ساتھ ہی ہماری یادداشتیں، ذہن، اور شعور ختم ہو جاتے ہیں. روپرٹ شلدریق کے بقول جب ہم آسمان، سمندر، پہاڑ، یا کسی فلک بوس عمارت کو دیکھتے ہیں تو ہم ان چیزوں کو اپنے دماغ میں نہیں بلکہ وہیں دیکھتے ہیں جہاں وہ موجود ہوتی ہیں. اسی طرح ہماری یادداشتیں بھی ہمارے دماغ میں نہیں بلکہ باہر محفوظ ہوتی ہیں. سائنسدان 30 سال اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود دماغ میں وہ ٹریک تلاش نہیں کر سکے جہاں ان کے بقول یادداشتیں محفوظ ہوتی ہیں. نیز دماغ میں ہر وقت کیمیائی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں. اس وجہ سے وہاں یاد داشتوں کا محفوظ ہونا ممکن نہیں. اکثر اوقات لوگ کسی حادثے میں اپنی یادداشتیں کھو دیتے ہیں. لیکن کچھ مدت بعد ان کی یادادشتیں واپس آ جاتی ہیں. اگر وہ دماغ میں محفوظ ہوتیں تو ان کے واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا. کچھ ایسا ہی معاملہ ذہن اور شعور کا ہے. ہمارا ذہن محض دماغ، جو کہ کھوپڑی میں مقید ہے، تک محدود نہیں بلکہ زمان و مکان کی بیکراں وسعتوں تک اس کی رسائی ہے حتیٰ کہ یہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے. ذہن اور شعور کے دماغ کے ساتھ تعلق کو سجھنے کے لئے ٹیلی ویژن سیٹ کی مثال کافی ہو گی. جس دیہاتی نے کبھی ٹیلی ویژن نہیں دیکھا وہ پہلی بار ٹیلی ویژن پر چلنے والی فلم یا کھیل کو دیکھ کر یہی سمجھے گا کہ یہ سب کچھ ٹیلی ویژن سیٹ کے اندر ہو رہا ہے. ٹیلی ویژن سے واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ ٹیلی ویژن سیٹ تو محض ایک رسیور ہے۔ فلم تو ٹیلی ویژن سٹیشن سے نشر ہو رہی ہے اور کھیل بھی سینکڑوں ہزاروں میل دور کسی اور شہر یا ملک میں کھیلا جا رہا ہے. دماغ بھی ٹیلی ویژن سیٹ کی طرح محض ایک رسیور ہے. چونکہ شعور غیر مادی ہے یہ مادی جسم کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں حیات جادوانی کا حصول ممکن ہے.