ہمارا جسم اربوں خلیوں سے مِل کر بنا ہے، اور جیسا کہ آپ نے میٹرک یا انٹر کی بیالوجی میں پڑھا ہی ہوگا کہ خُلیہ یا سیل کسی بھی جاندار کے جسم کی بنیادی اکائی ہے۔ بنیادی اکائی سے مراد یہ ہے کہ یہ خلیہ زندگی کے تمام تر افعال جیسا کہ افزائش، بڑھوتری، جنیاتی مادے کی فعال موجودگی اور آئندہ نسلوں میں منتقلی شامل ہیں، بخوبی انجام دیتا ہے۔
ہمارے جسم میں ہزاروں اقسام کے خلیات موجود ہوتے ہیں جو طرح طرح کے امور کی انجام دہی کی ذمہ دار نبھاتے ہیں، مثلاً دماغ کے خلیات پورے جسم کے خلیات کی حرکات و افعال کو کنٹرول کرتے ہیں، دل کے خلیات دھڑکتے ہوئے پورے جسم میں خون کی سپلائی قائم رکھتے ہیں، خون میں شامل سُرخ خلیات آکسیجن کی ترسیل کو یقینی بناتے ہیں، سفید خلیات جراثیم سے ہماری حفاظت کرتے ہیں اور آج کل زبان زد خاص و عام پلیٹ لیٹس کسی زخم لگنے کی صورت میں خون کے زیاں کو روکتے ہیں۔
ایک جیسے خلیات مِل کر بافت یا ٹشو بناتے جو ایک ہی قسم کے کام کرتے ہیں، مختلف بافتیں آپس میں مِل کر ہمارے جسم کے عضو بناتی ہیں اور مختلف اعضاء باہم مربوط ہوکے نظام تشکیل دیتے ہیں جیسے نظامِ انہضام (یا ڈائی جیسٹیو سسٹم) نہایت محنت سے ہمارے کھائے ہوئے کھانے کو ہضم کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ اس پورے نظام میں بیسیوں قسم کے خلیات، بافتیں اور اعضاء شامل ہیں جو مربوط انداز میں اپنے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔
بادی النظر ان اعضاء میں لاکھوں کروڑوں خُلیات میں سے ہزاروں روزانہ مرتے ہیں اور نئے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر سرسری طور پر دیکھا جائے تو اربوں خلیات میں کسی ایک خلیہ کی اہمیت کچھ کم سی محسوس ہوتی ہے، اور واقعۃً کچھ خاص ہے بھی نہیں۔ لیکن اگر ایک بھی خلیہ اپنے نظام سے بغاوت پر آمادہ ہوکر آزادانہ طور پر اپنی افزائش میں مصروف ہوجائے تو اس کے دور رس اثرات سرطان یا کینسر کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
کینسر کی شروعات اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے جسم کا ایک خلیہ حبیب جالب مرحوم کے اشعار
ایسے دستور کو۔ صبح بے نور کو۔ میں نہیں جانتا۔ میں نہیں مانتا
گنگناتے ہوئے، بے ہنگم اور بے قابو انداز میں اپنی افزائش شروع کردیتا ہے۔
یہ ننھی منی بغاوت اس قدر معمولی اور ناقابلِ تفریق ہوتی ہے کہ اس کے پڑوسی خلیات کے علاووہ کسی کو بھی اس تبدیلی کا اندازہ نہیں ہوپاتا ہے۔ ہمارا یہ ننھا منا باغی خاموشی سے تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنی تعداد بڑھانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں کسی سیاسی باغی گروپ کی طرح یہ خلیات بھی آپس میں ملکر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا جسم کے دیگر صحتمند خلیات کے ساتھ میل جول اور لین دین (خوراک اور آکسیجن کے علاوہ) نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
مگر جیسے ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو یہ اپنے اڑوس پڑوس کے خلیات اور بافتوں پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ ابھی تک یہ اپنی قلیل تعداد کی وجہ سے اپنے ماحول سے خوراک وغیرہ لینے پر مجبور تھے مگر ان کی گنتی میں اضافہ کے بعد یہ ہمارے جسم کو یہ باور کرواتے ہیں کہ یہ ایک نیا عضو ہیں اور دھوکہ سے اپنے لئے خون کی الگ سپلائی کا انتظام کروا لیتے ہیں۔ اس عمل کو میڈیکل سائنس میں اینجیو جیجینیسس کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں یہ کینسر والے خلیات جو کے اب گِلٹی یا ٹیومر کی شکل میں آچکے ہوتے ہیں، ہمارے جسم کو اپنے آپ کو بطور ایک نئی بافت یا عضوہونے کا دھوکہ دے کر خون کی سپلائی کے لئے ایک نئی شریان بنوا لیتے ہیں۔
اینجیو جینیسس بالکل ایسا ہی ہے کہ باغیوں یا ڈاکوؤں کا کوئی گروہ آپ کے شہر کی پڑوس میں سرکاری زمین پر قبضہ کر تے ہوئے اپنے قبضے کو پرائیویٹ ہاؤسنگ سکیم کہہ کر آپ کے شہر کی انتظامیہ سے شہر سے اپنے علاقے تک سڑک، پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کے کنکشن حاصل کرلے۔ اینجیو جینیسس کی کامیابی اس بغاوت کو، جو کہ ابھی تک مقامی اور غیر ضرر رساں تھی، کو مزید پر پُرزے نکالنے کے مواقع فراہم کرتی ہے، خوراک اور آکسیجن کی تازہ اور وافر سپلائی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نوٹ کریں کہ خون کی شریانیں اور رگیں ہمارے جسم کی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں۔ خون کی بذریعہ شریان فراہمی درحقیقت ٹیومر کو نہ صرف تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع دیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصوں میں کینسر کے پھیلاؤ کے اسباب بھی مہیا کردیتی ہے۔
کسی بھی کینسر کی زندگی میں چند نہایت اہم مواقع آتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تو بذاتِ خود ایک خلیے کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی ہے جو کینسر کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے جنیاتی مادے میں کینسر کی روک تھام کے لئے کئی حفاظتی اقدامات موجود ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات دو طرح کی جینز کی شکل میں ہوتے ہیں، پہلی وہ والی جینز جو کہ خلیہ کی تقسیم کرواتی ہیں ان جینز کو ہمارے جسم میں بلا ضرورت استعمال میں نہیں لایا جاتا، وقت پر ان کو آن کیا جاتا ہے اور کام مکمل ہوتے ہی ان کو دوبارہ سے آف کردیا جاتا ہے، ان جینز کو پروٹو آنکو جینز کہا جاتا ہے۔
جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارے جسم میں ایسی جینز بھی پائی جاتی ہیں جو کے کسی خلیہ کی تقسیم کے عمل کو روکنے یا سست کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں، یہ ٹیومر سپریسر جینز کہلاتی ہیں۔ ان دونوں جینز کو آپ بلالترتیب ایکسیلیٹر اور بریک سمجھ لیں جو کسی بھی صحتمند خلیہ کی تقسیم و افزائش کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ کینسر خلیات کی بے تحاشا افزائش کا نام ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو بریک ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے یا پھر ایکسیلیٹر بہت تیز ہوگیا ہے اور بعینہ ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔
ان جینز میں لکھے ہوئے احکامات میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کمی بیشی یا خرابی کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کمی بیشی یا خرابی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں جیسا کہ ماحولیاتی آلودگی، مختلف کیمیائی مادے (سیگرٹ کا دھواں ) ، تعابکاری، اور غیر صحتمندانہ طرزِ زندگی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل کسی بھی صحتمند خلیہ کے جنیاتی مادے میں موجود کینسر سے بچاؤ کے احکامات کت کو تبدیل یا ناکارہ بنا دیتے ہیں اور اس کا نتیجہ بقول خالد جاوید جان صاحب
میں باغی ہوں۔ میں باغی ہوں۔
کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسرا اہم موقع خون کی سپلائی کے لئے شریان کا قیام ہے۔ شیریان سے پہلے تک کینسر والے خلیات اپنے اردگرد موجود دیگر صحتمند خلیات کی طرح خوراک اورآکسیجن حاصل کرتے تھے جس کے سبب ان کی افزائش کی رفتار بھی حاصل ہونے والی خوراک کی مقدار کے اوپر منحصر تھی لیکن اب اپنے لئے خاص طور پر خون کی سپلائی حاصل کرلینے کے بعد ان کی افزائش میں کئی گنا اضافہ ہونے لگتا ہے۔ تعداد بڑھنے کی وجہ سے کینسر کے خلیات جو کہ ابھی تک گلٹی یا ٹیومرکی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، اب ٹیومر سے تھوڑی تھوڑی تعداد میں الگ ہو کر خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیلنے لگتے ہیں۔
یہاں کینسر اور ٹیومر کی تعریف کرنا مناسب رہے گا، یہ جان لیجیے کہ کینسرز کی غالب اکثریت کا آغاز ٹیومر کی شکل میں ہوتا ہے (خون کے بعض کینسرز کو چھوڑ کر) ، لیکن ٹیومر اس وقت تک کنیسر کی شکل اختیار نہیں کرتا جب تک کہ اس کے خلیات جسم میں پھیلنا نہ شروع کردیں۔ اس واقعہ کو میٹاسٹے سس کا نام دیا جاتا ہے اور یہ کسی بھی کینسر کی زندگی میں تیسرا اہم واقعہ ہوتا ہے۔
اچھا آپ انسانی جسم کے مدافعتی نظام سے تو واقف ہوں گے ہی جو کہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والے جراثیم و دیگر ضرر رساں اجسام و اشیاء سے بچاؤ اور آئندہ کے لئے ان کے تدارک کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کینسر تو ہمارے جسم کے ہی خلیات ہیں ان کا مدافعتی نظام سے کیا واسطہ تو جناب یہ جان لیجیے کہ اس نظام کے تحت ہمارے پورے جسم میں جگہ جگہ حفاظتی چوکیاں اور ناکے قائم ہوتے ہیں جنہیں لمنف نوڈز کہا جاتا ہے۔ لمنف نوڈز ہمارے جسم میں سفر کرنے والی کسی بھی ضرر ر رساں چیز کو
’ کاکے گڈی سائڈ تے لا‘
کہہ کر روک لیتے ہیں اور اپنی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بھی ضرر رساں شے ان سے نظر بچا کر ہمارے پورے جسم میں نہ پھیل سکے۔
کینسر کے پھیلاؤ کے دوران کینسر کے خلیات کا پہلا واسطہ ان کے اردگرد موجود لمنف نوڈز سے پڑتا ہے۔ لمنف نوڈز اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی کینسر کے خلیہ کو آگے جانے کی اجازت اور موقع نہ مل سکے۔ کینسر کے پھیلاؤ کی کوشش کے دوران اگرچہ سینکڑوں نہیں تو ہزاروں کینسر کے خلیات ان چوکیوں اور ناکوں پر ’انکاؤنٹر‘ کا شکار ہوجاتے ہیں، مگر آپ کو علم ہے کہ پیچھے ان کے ٹیومر میں روزانہ ہزارہا نئے کینسر کے خلیات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اور جب تک کہ ان کے اصل ٹھکانے کا صفایا نہیں ہوجاتا کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں ناکامی ہو کر رہنی ہے، کیونکہ ان لمنف نوڈز کی اپنی ایک استعداد ہوتی ہے جبکہ انہیں ہر آنے والے دن، گزشتہ دن کے مقابلے میں زیادہ کینسر کے خلیات کو روکنا پڑ رہا ہوتا ہے۔
جیسے ہی کینسر کے خلیات کی تعداد ان لمنف نوڈز کی استعداد سے بڑھ جاتی ہے تو نتیجتاً یہ لمنف نوڈز ہی کینسر کے پھیلاؤ کے ابتدائی شکار بنتے ہیں اور سوجھنے لگتے ہیں۔ لمنف نوڈز میں کامیابی میٹاسٹے سس یا کینسر کے پھیلاؤ کے عمل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے اور تشخیص کے دوران ڈاکٹرز کینسر کے اردگرد موجود لمنف نوڈز کی سوجن کو ہی کینسر کے پھیلاؤ کے پیمانے کے طور پر لیتے ہیں کہ جتنے زیادہ لمنف نوڈز سوجن کا شکار ہوں گے اتنا زیادہ کینسر کا پھیلاؤ ہو چکا ہوگا۔
رفتہ رفتہ کینسر کے خلیات ہمارے جسم کے دیگر اعضاء میں پہنچنے لگتے ہیں اور اپنے لئے سازگار حالات دیکھتے ہوئے ثانوی یا سیکنڈری کینسرز بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ یہ ثانوی کینسرز جس عضو میں بھی داخل ہوتے ہیں اس کے کام میں مداخلت کرنا شروع کردیتے ہیں اور آخری مرحلے میں مریض کے جسم میں مکمل انارکی پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بالآخر بقول میرتقی میر
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے، آخر کام تمام کیا