اگر ہم بات کریں عورت ذات کے بارے میں تو ویسے تو عورت چار حرف ادا کرنے میں بہت آسان ہے لیکن اس کی زندگی اتنی ہی مشکلات میں گزرتی اور صرف مشکل ہی نہیں بلکہ بہت مشکل بنا دی گئی ہے کیوں کی عورت ذات پیدا ہوتے ہی اسے گھر کے کام سکھانے اور کرنے کا ٹھیکہ لگا دییا جاتا ہے اور ہنستی کھیلتی پری جیسی پیاری لڑکی کو ان کاموں میں لگا دیا جاتا ہے۔
اور دیکھتے دیکتھے اس کے تھوڑے سے خوبصورت بچپن کو گھر کی چار دیواری میں قید کردیا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں تو یہ مشہور ہے اور اسے ہماری ثقافت سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہیں گھر کے کاموں میں لگا دییا جاتا ہے کیوں وہ اسی کام کے لیے ہی تو پیدا ہوتی ہے۔ بچپن ہی سے اس کی گردن میں پھانسی کا پھندا لگا کر یہ کہتے ہوئے جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ اب اس کی رسی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
پہلا امتحان اس کا بیٹی کی شکل میں لیاجاتا ہے کہ اس کو گھر کے کاموں میں لگا کر پڑھائی جیسی نعمت سے دور رکھ کر چولہا چلانے میں لگا کر اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ کیوں کے اگر وہ پڑھ لکھ لے گی تو شاید وہ گھر کے کام نا کرے اور بس تعلیم کے شعبے میں ہی لگی رہے گی۔ فرض کرو اگر اس نے تعلیم حاصل کر بھی لی تو یہ کہا جاتا ہے کہ بس یی ٹیچر ہی بن جائے کیوں کے اسی کو ہمارے معاشرے میں ایک مہذب کام سمجھا جاتا ہے اور گھر والے تو کم باہر اور قریبی لوگو کو ں مسئلے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے اگر وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود لینا چاہے۔
پھر اگلی باری ہوتی ہے اس کے شادی کرنے کی کیوں کے اب وہ جوان ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اسے ادھر اُدھر بھیجنے میں لگ جاتے ہیں امی اپنے رشتہ داروں میں کرنے کی خواہشمند ہوتی اور باپ اپنے جیسوں کی طرف اور یہ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ ایک بار لڑکی سے بھی پوچھ لیا جائے کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی مرضی معنی بھی نہیں رکھتی کیوں کہ یہ توعورت ذات ہے اپنے فیصلے کیسے کرے گی یہ تو کمسن ہے اسے عقل کہاں اور یہی باتیں کہ کرٹال دیا جاتاہے۔
جب کہ ان کو ایک ہی بات کرنا آتی ہے کہ بس ہم نے یہ اپنے بال تو دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ پھر اسی طرح اسے رخصت کر کے ایسی جگہ بھیج دیا جاتا ہے جہاں نا تو عورت کی قدر ہوتی ہے نہ اس کی کوئی بات سنی جاتی ہے۔
پھر ایک اور امتحان شروع ہو جاتا ہے ایک ننھی سی پری کا ایک بیوی کی صورت میں اور یہ امتحان پھر مرنے تک چلتا رہتا ہے۔ کیوں کی اس کی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں ایک اچھی اور باکمال بیوی بننے لگ جاتی اور ملتا کچھ بھی نہیں ہے اور مرد کی مرضی کے مطابق اسے بن سنور کے رہنا پڑتا ہے۔ اس کی اگر اجازت ہو تو بات کرنی ہے اگر نہ ہو تو سانس لینا بھی جائز نہیں۔
کیا ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دونوں کو اتنی اجازت دی جائے کہ ایک عورت اپنے لئے اتنا فیصلہ تو کر سکے کہ اس کو کون سی چیز اپنے لیے پسند کرنی ہے۔ کیوں کہ نو مہینے جس بچے کو اس نے اپنی جسم میں رکھا اسے اپنی مرضی کی تربیت دے سکے کیا ہمارا معاشرہ اسے اتنی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اس کی تربیت اپنی مرضی سے کرے۔ کیا معاشرے کی سننا ضروری ہے؟ کیا عورت اتنی بھی با اختیار نہیں ہو سکتی؟
پیدائش سے قبر تک اس کی زندگی کو زنجیر میں باندھے رہنے کا کیا مقصد جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کو پڑھانا پورے معاشرے کو پڑھانے کے برابر ہے۔