مصنف: ڈاکٹر خالد سہیل۔ ۔ ۔ ثنا بتول درانی ثنا بتول کا خط۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کی تحریر اور اپنے موضوع نفسیات پہ گرفت نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ آپ کا ہر کالم میرے لیے سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔ مجھے خود بھی کافی حد تک انسانی نفسیات اور رویوں کو پڑھنے، سمجھنے اور سلجھانے کی کافی دلچسپی ہے۔ انسانی تعلق جو ایک مرد اور عورت کے درمیان محبت، ریلیشن شپ یا شادی کا ہے ایک ایسا موضوع ہے جو مجھے اپیل کرتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تعلق بنتے ہوئے کافی وقت لیتا ہے لیکن جب اسے توڑا جاتا ہے تو عموماً ایک تلخی کے ساتھ ختم کیا جاتا ہے جیسے اس میں کبھی محبت اور مٹھاس نہ …
مرد کبھی بوڑھا نہیں ہو تا ”ہائے۔ اچھا سچی مگر کیسے؟ “ تم ڈاکٹر ہو یار میرا مسئلہ حل کرو۔ میرے آس پاس تو سب عورتیں جوان ہیں اور ان کے شیریں لبو ں پہ شوہر کے بڑھاپے کی داستاں لطیفوں میں رنگین تتلیو ں کی طرح اڑتی پھرتی ہے؟ ڈاکٹر لبنی مرزا اور میں ”لڑکیو ں کی باتیں“ کر رہے تھے۔ وہ باتیں جن کو سننے کے لئے ترسے مرد کان لگائے، پتنگو ں کی مانند بھْو بھْو کرتے مل جاتے ہیں۔ لبنی نے مجھے ایک جملے میں میڈیکل سمجھا دی۔ اس نے کہا ”یہ جو کچھ دیواروں پہ لکھا ہو تا ہے۔ میڈیکل سائنس اس کے بالکل برعکس ہے“ بس یہ سننا تھا کہ میری ”ڈاخٹری“ جاگ گئی۔ …
خلیل الرحمن قمر صاحب کے ڈرامے ”میرے پاس تم ہو“ کے چند ہی اقساط دیکھ چکا ہوں اور انشاءاللہ آخری قسط تک دیکھنے کی نیت رکھتا ہوں۔ میں کافی عرصے سے قمر صاحب کے مکالمے کا مداح ہوں اور میں ہی کیا جنھوں نے بھی ان کا ڈرامہ دیکھا تو واہ واہ کرتا ہی رہ گیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قمر صاحب کو عمومی شہرت ڈرامہ ”میرے پاس تم ہو“ کے نشر ہوجانے کے بعد ہی ملی۔ کیونکہ اس کے بعد ان کے بہت سارے انٹرویوز ہوئے۔ وہ انٹرویوز اس دفعہ نہ صرف بہت زیادہ دیکھے گئے بلکہ سوشل میڈیا پہ باقاعدہ شیئر بھی ہوتے رہے۔ جیسے ان کے ڈرامے کے ڈائیلاگ سحرانگیز ہوتے ہیں بالکل اسی…
اگر ہم بات کریں عورت ذات کے بارے میں تو ویسے تو عورت چار حرف ادا کرنے میں بہت آسان ہے لیکن اس کی زندگی اتنی ہی مشکلات میں گزرتی اور صرف مشکل ہی نہیں بلکہ بہت مشکل بنا دی گئی ہے کیوں کی عورت ذات پیدا ہوتے ہی اسے گھر کے کام سکھانے اور کرنے کا ٹھیکہ لگا دییا جاتا ہے اور ہنستی کھیلتی پری جیسی پیاری لڑکی کو ان کاموں میں لگا دیا جاتا ہے۔ اور دیکھتے دیکتھے اس کے تھوڑے سے خوبصورت بچپن کو گھر کی چار دیواری میں قید کردیا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں تو یہ مشہور ہے اور اسے ہماری ثقافت سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہیں گھر کے کاموں میں لگا دییا …
ناشتے سے فارغ ہو کر چائے کا کپ ابھی اٹھا کر لبوں سے لگایا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کوفت سے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر دروازے پر دیکھا تو ہمسائے میں آباد انور بھائی کھڑے تھے۔ جی انور بھائی خیر سے۔ باجی ایک کپ چائے ہو جائے۔ ساتھ میں ایک مسئلہ بھی ڈسکس کرنا ہے۔ ان کے لہجے کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے۔ صرف اتنا ہی کہہ پائی کہ آپ چلیں۔ میں آتی ہوں۔ ( انور بھائی کے گھر میں میری مرضی کی چائے نہیں بنتی) ۔ اور آنکھیں پوری طرح کھولنے کے لیے چائے پینا اشد ضروری تھا۔ اس لیے اپنی چائے کے کپ سے مکمل انصاف کرنا لازم تھا۔ میرے نزدیک چائے پینا…
ہفتے کی رات ایک آن ایئر ڈرامہ سیریل ”میرے پاس تم ہو“ میں دو ٹکے کی لڑکی والا مکالمہ سنا۔ عورت کو حقیر، بے وفا، اور مرد سے کمتر سمجھنے والوں نے اس مکالمے کا نہ صرف خوب لطف اٹھایا بلکہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شیئر بھی کیا۔ جن لوگوں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا، ان کے لئے بتا دوں کہ یہ ایک مثلث پر مبنی کہانی ہے جس میں شوہر کی تمام تر محبت کے باوجود بیوی اسے چھوڑ کر ایک دولت مند مرد کا انتخاب کر لیتی ہے۔ اسی بیوی کو ”دو ٹکے کی لڑکی“ کہا گیا ہے۔ ڈرامے کی کہانی سے قطع نظر میرا سوال یہ ہے کہ لڑکی کو ”دو ٹکے“ کی بننے پر کیا چیز مجبور کرتی ہے؟ ایسی ک…
Social Plugin