ناشتے سے فارغ ہو کر چائے کا کپ ابھی اٹھا کر لبوں سے لگایا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کوفت سے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر دروازے پر دیکھا تو ہمسائے میں آباد انور بھائی کھڑے تھے۔
جی انور بھائی خیر سے۔
باجی ایک کپ چائے ہو جائے۔ ساتھ میں ایک مسئلہ بھی ڈسکس کرنا ہے۔ ان کے لہجے کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے۔ صرف اتنا ہی کہہ پائی کہ آپ چلیں۔ میں آتی ہوں۔ ( انور بھائی کے گھر میں میری مرضی کی چائے نہیں بنتی) ۔ اور آنکھیں پوری طرح کھولنے کے لیے چائے پینا اشد ضروری تھا۔
اس لیے اپنی چائے کے کپ سے مکمل انصاف کرنا لازم تھا۔
میرے نزدیک چائے پینا رومانس سے کم نہیں اور خاص طور پر اگر وہ میری چکافی ہے تو سمجھ لیں کہ سمجھوتہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ خیر کپ ختم کیا، چادر اوڑھ کر ان کے گھر کو ہو لی۔ جہاں ان کے کزن سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ کیا ہوا۔ باجی ایک مسئلے میں پڑ گئے ہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔
آپ مسئلہ بتائیں اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ( ہائے۔ زبوں حالی اور کسمپرسی میں مسائل، آفات ؤ بلات ہر طرف سے حملہ آور ہو جاتے ہیں ) ۔ مسئلہ سامنے آنے پر پہلے تو میں نے دونوں کو جی بھر کر سنائیں اور پھر اپنی بساط کے مطابق رائے دی۔
پہلے مسئلہ پڑھ لیں۔
والدین کی وفات کے بعد بن بیاہی بہنیں شاید بھیا بھابھی پر بوجھ بن جاتی ہیں اور پھر بوجھ اتارا جاتا ہے اور ناپسندیدہ بوجھ اتارنے کے لیے جگہ نہیں دیکھی جاتی۔ بہن سب سے بڑے بھائی کے پاس تھی۔ سارا دن بھیا بھابھی کی خدمت۔ گھر کے کام مگر خواتین کی اکثریت بھابیاں بن کر شاید کبھی خوش نہیں ہوتیں۔
اوپر سے والدین نے بیٹی کو تعلیم بھی نہیں دلوائی تھی اور گھر کے کاموں کے علاؤہ ہنر بھی کوئی نہیں۔ والدین آگے پیچھے فوت ہوئے تو زندگی اور رشتوں کی حقیقت کھلی۔ بھابھی صاحبہ نے ارد گرد رشتے کے لیے بات کی تو جو پہلا رشتہ آیا۔ اسے غنیمت نہیں نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے ہاں کر دی گئی۔ دلہا والوں نے غیر متوقع طور پر جہیز کی ڈیمانڈ بھی نہیں کی۔
بھائی۔ بھابھی کو ”لڑکے“ کی پوری اصلیت پتہ تھی مگر انہوں نے پھر بھی اسی جگہ شادی کرنا مناسب سمجھا شادی کے بعد لڑکی کے ساتھ آسمان سے گری کجھور میں اٹکی والا معاملہ ہو گیا۔ شوہر صاحب اذیت پسند تھے اور بیوی کو مارنا پیٹنا اور اٹھتے بیٹھتے گالی دینا ”فرض مردانگی“ سمجھتے تھے۔ ( گالی ہمیشہ زنانہ ہی کیوں ہوتی ہے۔ اسے مردانہ بھی ہونا چاہیے۔ خاص طور پر لواطت کے عام ہونے کے بعد) ۔
موصوف ڈھائی سال ذہنی اور جسمانی اذیت دینے کے بعد اسی گھر واپس چھوڑ آئے جہاں سے لائے تھے۔ ساتھ میں بول آئے کہ طلاق دے رہا ہوں۔ ڈھائی سال ہو گئے ایک بچہ نہ دے سکی۔ اب بڑے بھائی صاحب کا موقف ہے کہ چھوٹا بھائی بہن کی ذمہ داری اٹھائے جو اس رشتے پر راضی نہیں تھا۔ اور جو میرے سامنے بیٹھا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ باجی میں کیا کروں۔ آپ میرے مسائل سے واقف ہیں۔
میں نے پوچھا کہ ابھی دو ڈھائی سال ہوئے ہیں۔ اتنی جلدی فیصلہ نہیں لیتے۔ خامی ہے تو علاج کروائیں۔ اچھی گائنی گالوجسٹ نہیں مل رہی تو میں ریفرنس دے دیتی ہوں۔ مگر جب اگلی بات انہوں نے بتائی۔ اس پر میرا غصے میں آنا بنتا تھا نا۔ کیونکہ میں نا انصافی اور ظلم کرنے والوں اور سہنے والے دونوں کے ہی خلاف ہوں۔ خاص طور پر رشتوں میں، جو انسان کی واحد پناہ گاہ ہوتی ہے۔
اب میرے بے دید ہونے کی وجہ بھی پڑھ لیجیے۔
داماد موصوف۔ کی یہ تیسری شادی تھی۔ اس سے پہلے دو خواتین یا اسے خود چھوڑ گئی تھیں یا اس نے طلاق دے دی۔ اس پر گھر والوں نے معلومات لینا مناسب نہ سمجھا۔ ( لاعلمی میں دھوکہ کھانا الگ بات ہے مگر جانتے بوجھتے اپنی لاوارث بہنوں کی زندگی سے کھیلنے والے ایسے بھائی یقیناً لعنت ملامت کے مستحق ہیں ) اور موصوف اب چوتھی شادی کرنے والے ہیں۔
میرے والد وید حکیم سید محمد صدیق ہاشمی۔ اللہ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔ کہا کرتے تھے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بانجھ پن کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر ان کی تحریر قرشی یا کونسل کے مجلے میں آئی ہوئی ہے۔ ان کی وفات، اگست دو ہزار سات سے کوئی بیس۔ پچیس سال پہلے۔ ) ۔
اب میرے اندر کا پازیٹو بندہ جاگ گیا۔ باتیں تو سنا چکی تھی کہ آپ پہلے ہی زیادتی کر چکے ہیں۔ اب اس پر مزید ظلم مت کیجئے۔ کیونکہ relationship میں جب Level of torture ۔ Level of pleasure کے مقابلے میں زیادہ ہو جائے تو تعلق ختم ہونے کا دکھ زیادہ نہیں ہوتا۔ شکر ادا کریں کہ اس بے حس اور ظالم انسان سے جان چھوٹ رہی ہے۔
بڑا بھائی پاس نہیں رکھنا چاہتا۔ نہ رکھے۔ پہلے کون سا اسے سکھ دے دیا ہے کہ اب اسے پھولوں کے ہار پہنائے گا۔ آپ اسے اپنے پاس لے آئیں۔ رزاق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنے حصے کا رزق ساتھ لے کر آئے گی۔ آپ کی یا میری یا کسی کی کیا اوقات ہے کسی کو کچھ کھلانے یا دینے کی۔ ہم سب جو بھی کرتے ہیں اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے کرتے ہیں۔
آپ بھائی ہیں۔ سب سے پہلے اس کا اعتماد بحال کریں۔ اسے پیار دیں۔ طلاق کے بعد اس کی عدت پوری کروائیں اور اس دوران اس کے ساتھ ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے گھر میں اوپر والے حصے میں اسے رکھیں۔ اس نے درد سہا نہیں ہے بلکہ درد نگلا ہے۔ اس کے حصے میں ”خصی مرد“ آیا۔ جو چار چھوڑ آٹھ شادیاں کر لے، ایک چیونٹی کا بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتا، لکھوا لیں مجھ سے۔
آپ اپنی بہن کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ زیادہ سے زیادہ وہ آپ سے یا آپ کی بیوی سے لڑے گی، جو نگلتی رہی وہ اگلے گی مگر اسے تنہا مت کیجئے۔ اسے عزت یا محبت کے لیے گھر سے باہر نہ جانا پڑے۔ وہ اسے گھر سے ملے۔ آپ سے ملے۔ آپ کی بیوی سے ملے۔ ایسے رشتوں میں طلاق بوجھ نہیں ہوتی۔ بلکہ شکر ادا کریں کہ گندے بندے سے جان چھوٹ گئی۔ کچھ گندے قسم کے مرد نکاح کے نام پر عورت کے جسم سے کھیلتے ہیں۔ اسے اپنی نسل بڑھانی ہے تو پہلے اپنا طبی معائنہ کروا کر علاج کروائے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کی سمجھ میں بات آ گئی۔ انور بھائی سے کہا ہے کہ ان کی مسلسل کونسلنگ کریں۔ بلکہ وہ آ جائے تو آشیانہ روڈ پر موجود فیکڑی میں ملازمت کے لئے بھی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے بھی نہ یہ شادی اس نے اپنی مرضی سے کی اور نہ طلاق اپنی مرضی سے لے رہی ہے۔ وہ مسلسل مردوں پہلے بھائی اور پھر شوہر کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ لیکن شاید پہلا ظلم باپ نے کیا۔ نہ تعلیم دلوائی اور نہ کوئی ہنر۔
اپنی سوچ اور فکر کے مطابق جتنا سمجھا سکتی تھی سمجھایا۔ ضمیر جگانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک نصیب کرے۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا کہ اگر آپ کے بہنوئی کے سدھرنے کے چانس ہیں تو گلشن راوی لاہور میں تھانے میں بلا کر سمجھا دیتے ہیں کہ ڈنڈا پیر ہے ایسوں کا۔ مگر ان کے بقول۔ اس کی ہمشیرہ صاحبہ ان کے چوتھے نکاح کی تیاریاں شروع کر چکی ہیں۔
( رشتوں میں ظلم کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے کیسز سامنے آئے ہیں۔ کسی اگلے کالم میں ان پر بات ہو گی)
اب یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ۔ جب وہ رشتہ لے کر چوتھے خاندان میں گئے ہوں گے تو کیا وہ بھی شاہدہ کے بھیا بھابھی کی طرح خاموش رہیں گے کہ ہمیں کیا۔ وہ عورتیں ہی دو ٹکے کی ہوں گی۔ جبکہ دو ٹکے کے یہ خصی مرد۔ جب چاہتے ہیں۔ عورتوں کو بے توقیر کر دیتے ہیں۔ لاعلمی میں ہونے والی شادیوں کی میں بات نہیں کروں گی مگر گھر والے کیسے جانتے بوجھتے اپنی بیٹیوں کو ایسی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں؟ یا آخر کب تک وہ ایسا کریں گے؟ یا پھر جب وہ گھروں سے بھاگ جاتی ہیں تو غیرت جاگ جاتی ہے اور وہ قتل کر دی جاتی ہے۔ آشنا کے ساتھ۔ جبکہ آشنا کی راہ ہموار کرنے میں رشتوں میں موجود سرد مہری اور لاتعلقی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے مگر کیا عملی طور پر کچھ کیا نہیں جا سکتا؟ ہمارے معاشرے میں ایسا ظلم ہو رہا ہے۔ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ تاہم شاید ہم ایسے مظالم کا راستہ کسی حد تک سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بیٹیوں کو تعلیم۔ شعور اور کوئی ہنر سیکھا دیں۔ معاشی کمزوری ہی کے باعث وہ سہتی ہے۔ اسے پتہ ہو کہ اپنے لیے روٹی کما سکتی ہوں تو پھر ایسی بہن بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ خدارا اپنی بیٹیوں کو بوجھ مت سمجھیں اور نہ ہی ایسے مردوں کے ساتھ ان کی شادی کریں جو تین چار شادیاں کر کے بھی لاولد ہی ہوں۔