ہفتے کی رات ایک آن ایئر ڈرامہ سیریل ”میرے پاس تم ہو“ میں دو ٹکے کی لڑکی والا مکالمہ سنا۔ عورت کو حقیر، بے وفا، اور مرد سے کمتر سمجھنے والوں نے اس مکالمے کا نہ صرف خوب لطف اٹھایا بلکہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شیئر بھی کیا۔ جن لوگوں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا، ان کے لئے بتا دوں کہ یہ ایک مثلث پر مبنی کہانی ہے جس میں شوہر کی تمام تر محبت کے باوجود بیوی اسے چھوڑ کر ایک دولت مند مرد کا انتخاب کر لیتی ہے۔ اسی بیوی کو ”دو ٹکے کی لڑکی“ کہا گیا ہے۔
ڈرامے کی کہانی سے قطع نظر میرا سوال یہ ہے کہ لڑکی کو ”دو ٹکے“ کی بننے پر کیا چیز مجبور کرتی ہے؟ ایسی کیا وجہ ہوتی ہے کہ شوہر کی گہری محبت و چاہت کے باوجود وہ زیادہ مضبوط مالی حیثیت کے مرد کا ہاتھ تھام کر چل دیتی ہے؟ کئی واقعات میں ممتا بھی اسکے قدم نہیں روک پاتی اور وہ اپنی اولاد تک کو چھوڑ دیتی ہے۔ وہ آرام و آسائش، محفوظ تر مستقبل، یا کسی جذباتی ضرورت کی خاطر صرف امید کا دامن تھامے ایک ایسی وادی میں قدم رکھ دیتی ہے جو پُر خار بھی ہو سکتی ہے۔
ان سب سوالات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ عورت ایک انسان ہے۔ اور ہر انسان کی فطرتاً مادی ضروریات و خواہشات ہوتی ہیں۔ یہ صرف پیسے سے پوری ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات میں عورت کو پیسے کی لالچی، بے وفا، اور مادہ پرست کہہ کر دشنا م طرازی اور لعن طعن کی جاتی ہے۔ بلکہ لوگ اسے بدکار اور فاحشہ تک کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن کیا عورت کو گالی دے کر، لعن طعن کر کے ہمارے معاشرتی اور ازدواجی مسائل حل ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ اس وجہ کو سمجھتے ہیں جو عورت کو دوسرے مرد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر د یتی ہے؟ کتنے لوگوں کو وہ خلا نظر آتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے وہ اپنا گھر تک داؤ پہ لگا دیتی ہے؟ کتنے افراد مرد کی اُن کمزوریوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو عورت کو بیزار کر دیتی ہیں۔ کتنے لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ:
محبت سے شکم کی بھوک اور مادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں
عورت بھی خوشی اور خوشحالی پہ اتنا ہی حق رکھتی ہے جتنا مرد
عورت کو خوش رکھنا اور مادی خواہشات پوری کرنا مرد کے فرائض میں شامل ہے
خوب سے خوب تر کی تلاش میں عورت بھی نکل سکتی ہے، صرف مرد نہیں
عورت صرف اس وجہ سے محرومیوں کی چکی میں پسنے کی پابند نہیں کہ اس کا شوہر غریب اور کم مایہ ہے
صرف عورت ہی گھر اور خاندان کا شیرازہ قائم رکھنے کی ذمہ دار نہیں
جو مرد اپنی بیوی کو مادی خوشی دینے میں ناکام ہو جا ئے، وہ اس پر اپنا حق بھی کھو دیتا ہے۔ عورت پر شوہر سے وفاداری کا فرض عائد کرنے والوں کو مرد کے فرائض کیوں نظر نہیں آتے؟ شادی اس لئے نہیں کی جاتی ہے کہ بعد میں عورت فقیروں جیسی زندگی گذارے؟ یہاں تو کنگلوں کو بھی مجازی خدا بلکہ چار چار بیویوں کا شوہر بننے کا شوق ہے۔ اور ماشاء اللہ، شرم و حیا، کردار، ایثار، وفا، اور شادی کو قائم رکھنے کا فرض صرف عورت پر عائد کر د یا گیا ہے۔ مرد چاہے غریب، بے مایہ، بدصورت، اور عورت کی خوشی کے لوازمات فراہم کرنے سے قاصر ہی ہو مگر عورت ستی ساوتری بنی اسکے کھونٹے سے بندھی تمام عمر گذار دے۔ اپنی خواہشات کا گلا دباتی اور محرومیوں کا زہر پیتی رہے لیکن حرفِ شکایت زبان پہ نہ لائے۔
اس بات پر تو کوئی دو رائے نہیں کہ مادی خواہشات پیسے سے پوری ہوتی ہیں، محبت سے نہیں۔ جو مرد محبت میں پورا لیکن جیب سے خالی ہو، اس کے ساتھ عورت کب تک سمجھوتہ کر کے رہے؟ شوہر سے طلاق لے کر کسی اور سے شادی کا سوچنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اتنا بڑا قدم اٹھانے کی بہت ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ ہم یہ دیکھنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے کہ اسے گھر، شوہر، اور بچے تک چھوڑنے پر کس بات نے مجبور کیا؟ جو مرد کسی بیٹی، بہن، بیوی، اور ماں کا ”نصیب پھوڑنے“ کا باعث بنتا ہے، اس کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟ بیٹیوں کے بارے میں یہ جاہلانہ بات بھی کی جاتی ہے کہ ہم تمہیں نصیب نہیں خرید کر دے سکتے۔ جیسے نصیب تو صرف عورت کا ہوتا ہے۔
محرومی اور نارسائی کا احساس کتنا اذیت ناک ہوتا ہے، یہ تو وہی عورت جانتی ہے جو اپنی پسندیدہ چیزوں کو صرف دیکھتی ہو، انہیں لے کر دینے کی استطاعت اس کا شوہر نہ رکھتا ہو۔ یہی اندرونی خلا جب حد سے بڑھ جائے تو اسے پورا کرنے کے لئے کوئی دوسرا مرد آ جا تا ہے۔ محرومیاں جب عورت کے احساسات کچلنے لگتی ہیں تو وہ گھر اور ممتا تک کو خیرباد کہہ دینے پر رضامند ہو جا تی ہے۔
یہاں تو مرد، عورت کو چھوڑے تو عورت ذمہ دار؛ اور عورت، مرد کو چھوڑے تو بھی عورت ہی ذمہ دار۔ جب تک ہم مرد کا احتساب نہ کریں اور عورت کے خلاف تعصبات کو ترک نہ کریں گے، تب تک ہمارے ہاں ”دو دو ٹکے کی لڑکیاں“ موجود رہیں گی بلکہ ا ن کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ کیا مرد ذمہ دار نہیں کہ عورت اسے چھوڑ کر ”دو ٹکے“ کی بن کر چلی جائے، صرف پیسے کی خاطر؟ ایسی عورت جاتے جاتے مرد کو بھی ”دو ٹکے“ کا کر جا تی ہے۔ عورت جب کسی اور کی خاطر شوہر کو لات مار کر چلی جاتی ہے تو وہ تنہا ذمہ دار نہیں ہوتی۔ عورت اسی مرد کو چھوڑتی ہے جو ساتھ رہنے کے قابل نہ ہو۔ پھر چاہے اسے تنکے کا ہی سہارا ملے، وہ اسی کو کافی سمجھ لیتی ہے۔
عورتیں امیر مرد سے کیوں شادی کرتی ہیں، چاہے وہ بڈھا، بدصورت، آوارہ، بداخلاق ہی ہو، کیونکہ اُسے مالی تحفظ ملتا ہے۔ مرد بھلے محبت میں کمی کر دے لیکن عورت کی مادی خواہشات کو نظرانداز نہ کرے۔ مرد خود کو اس مقام پر لے کر آئے جہاں کوئی لڑکی اسے چھوڑنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ اس مادہ پرستی کے دور میں خوشگوار ازدواجی تعلقات کا یہی تقاضہ ہے۔ محبت کا مقابلہ جب دولت سے ہو تو اکثر کامیابی دولت کو ہی ملتی ہے۔