وکی جمائما کا کزن ہے۔ یہ لطیفہ نہیں۔ یہ آج کل میڈیا، چلا چلا کر خود کو لبرل بتانے والے حضرات اور قدامت پسند مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے پسندیدہ مفتی کفایت اللہ کے الفاظ ہیں۔ ویڈیو انٹرنیٹ پر با آسانی دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ وسیم بادامی کے شو میں خود اعتراف کیا کہ تحقیق ابھی کروں گا، مگر جمائما، عمران اور وکی یہ ایک ہی سازش کے مہرے ہیں۔ کچھ یہ مفہوم تھا حضرت کا۔
جمائما کون ہے؟ ایک خاتون تمہارے مذہب، تمہارے کلچر کو اپنانے آتی ہے لیکن اسے زندگی بھر اپنی اپنی رائے کے مطابق مذہبی و ثقافتی کسوٹی پہ پرکھنے والے ہم ہوتے کون ہیں؟ ہم سیاسی چپقلش کو لے کر اس قدر تنگ نظر ہو گئے ہیں کہ کبھی اس کو یہودی بنا دیتے ہیں، کبھی اس رئیسہ پر ٹائلز چوری کا الزام لگا دیتے ہیں، کبھی اس کی کردار کشی کرتے ہیں اور جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تو اسے کسی بڑی عالمی سازش کا اہم کردار تصور کر لیتے ہیں۔ مذہب کا تمغہ کبھی کسی کو صرف حسب نسب کی بدولت گدی نشین بنا دیتا ہے اور کبھی کسی کے مذہب کو کلنک بنا کر ساری زندگی اس پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔
یہ محترم مولوی حضرات آج کل ان افراد کے ہی چہیتے بنے دکھائی دیتے ہیں جو ان کے سب سے زیادہ ناقد ہیں۔ کہیں تو حمد اللہ جیسے بد زبان حضرت کو سلام پیش کیے جاتے ہیں تو کہیں مفتی کفایت اللہ کو ہیرو کہہ کر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسند چاہے وہ مذہب کے لبادے میں ہوں یا مذہب بیزار، دونوں ہی کے نظریات کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں اور دونوں طرف دال کالی ہے۔
جو مولوی خواتین کو دھرنے میں شرکت کی اجازت نہ دے، جو میڈیا کے ڈر سے خواتین رپورٹرز کو اجازت دے مگر شرط ہو کہ سر ڈھکا جائے، یہ سخت گیر ہوئے یا جسے آپ نے خطاب دے رکھا ہے طالبان خان۔ جب ان کو ملک کا اقتدار مل گیا تو پھر کیا ہو گا؟ سوات کا حال کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔
ایک جانب الزام کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے مذہبی شدت پسند عوامل تھے۔ یعنی عورت سے اتنی نفرت کہ اس کا وجود برداشت نہیں اور دوسری جانب بلاول صاحب کی منافقت کی حد کہ اسٹیج پر بغل میں کھڑے ہیں مگر مولانا کو توہین مذہب اور گستاخ کو سزا اور دین کی حفاظت کے نام پر اشتعال دلاتا دیکھتے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔ اور منافقت کسے کہتے ہیں؟ جو مولوی عورت کی اتنی ہی عزت کرتا ہے کہ طیش میں آکر دلیل کو اس کی شلوار تک لے جائے وہ رہبر کیسے ہو سکتا ہے۔
وکی لیکس 2010 کی سب سے مشہور خبر تھی۔ یہ مفتی صاحب، جو 9 سال قبل کی خبر کی تحقیق نہیں کر سکتے اور اپنی طرف سے بڑی دلیری کے ساتھ جھوٹ گھڑ رہے ہیں وہ 1500 سال قبل آئے دین کے بارے میں کیا تحقیق کرتے ہوں گے؟ صبح سے شام تک یہ مدرسوں میں، منبر پہ، تقاریر میں ایسے ہی بے بنیاد جھوٹ گھڑتے ہیں اور صرف اور صرف نفرتیں پھیلاتے ہیں۔
مدرسے کے طالبعلم کو کیوں ایک اسکول کالج کے بچے سے پیچھے تصور کیا جاتا ہے؟ کیونکہ بیشتر مدرسوں میں سالہا سال اسے ایک مخصوص، انتہا پسند ماحول میں رکھ کر دنیا سے نفرت اور فلاں فلاں کو واجب القتل قرار بتایا جاتا یے۔ یہ طالبعلم کتنے معصوم ہیں اس کا اندازہ ان کی دھرنے کے دوران تفریحات سے لگا لیجیے۔ لیکن یہ کتنے تشدد پسند اور نفرت سے بھرے ہیں اس کا اندازہ ان کی گفتگو سے ہوتا ہے کہ کسی کو ایجنڈا نہیں پتہ، کسی کو مطالبہ بھی نہیں پتہ بس وہ اشارے کے منتظر ہیں پھر وہ سامنے کون ہے یہ نہیں دیکھیں گے۔ انہیں یہ نہیں پتہ کہ سیلنڈر ساتھ لے کر گھومنا خطرناک ہے، بارش سے بچنے کے لئے پلاسٹک لپیٹ کے سونا جان لیوا ہوسکتا ہے۔ نہیں، انہیں صرف مرو یا مار دو، یہی بتایا گیا ہے۔
لاکھ برائیاں ہوں گی، بے انتہا کوتاہیاں ہیں، ٹیم کھوٹے سکوں اور خوشامدیوں سے بھری پڑی ہے، جب دیکھوں کہ ٹی وی پر فردوس عاشق اعوان یا شوکت بسرا جیسے لوگ حکومت کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں تو دل کٹتا ہے مگر آج انتخابات ہوں تو آج پھر تحریک انصاف کو ووٹ دوں گی۔ عمران خان نے کم از کم ان مذہب فروشوں کی دکان جو اجاڑی ہے یہ ملکی خدمت عشروں سے کسی نے نہ کی۔ یہ جنونی بلیک میلر سمجھتے تھے کہ سڑکوں پر آ کر ہر دفعہ بلیک میل کر لیں گے مگر خادم رضوی کے بعد جو حشر مولانا کا ہوا اس سے دونوں مکاتب فکر کے بلیک میلر سوچ رکھنے والوں کو پیغام مل گیا کہ ہر بار مذہب کارڈ نہیں چل پاتا۔ بے نقاب تو وہ بھی ہوئے ہیں جو خود کو کہتے لبرل، ترقی پسند اور روشن خیال ہیں مگر جا کر پھران کے ساتھ اسٹیج بانٹ لیتے ہیں جو آج بھی مدرسہ ریفارمز میں آڑ ہیں، جو خواتین کی شرکت یا نمائندگی کو غیر اہم سمجھتے ہیں، جو گستاخ، گستاخی اور توہین کے نام پر لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔
جب یہ سطور شائع ہوں تو ممکن ہے دھرنا اپنے اختتام کی جانب گامزن ہو یا ختم بھی ہو چکا ہو۔ اس دھرنے نے اپنے اہداف تو یقینا حاصل نہیں کرنے مگر ایک تاریخی کام اس کی بدولت ہو گیا۔ مذہبی جنونی اور مذہب بیزار دونوں طرف کے پردے کھل گئے اور اندر حمام میں سب ایک جیسے ہی پائے گئے۔ ذہنی بیمار، عورت بیزار۔
ایک معاشرہ ہے منافقین کا۔ یہاں پانچ وقت ہر سو اللہ کی کبریائی کا اعلان ہوتا ہے۔ شہر ہو یا گاؤں ہر طرف زیادہ تر خواتین خود کو ڈھانپ کر چلتی نظر آتی ہیں۔ ہر طرف داڈھی سجائے، سر ڈھانپے، ٹخنے دکھاتے حضرات آرام سے نظر آ جاتے ہیں۔ مگر یہاں کچرا کنڈی سے مسلے، کچلے، دھتکارے پھول ملتے ہیں۔ یتیم کی کفالت پر حسب نسب کا معاملہ آ جاتا ہے اور مذہب۔ صبح شام فروخت ہوتا ہے۔ ذرا نظر گھمائیں۔ چوری کی بجلی سے شہر کا شہر روشن ہے۔