اسلام آباد، جنوری انیس سو اٹھانوے کی یخ بستہ صبح، وہ برہنہ پا گلی گلی پھر رہا تھا۔ صرف شلوار میں ملبوس، قمیص یا بنیان جیسی کوئی چیز اس کے بدن پر نہیں تھی۔۔ بڑھی ہوئی داڑھی، بکھرے ہوئے بال اور جسم اس قدر میلا کہ لگتا ہے برسوں سے نہایا نہیں۔ وہ سارا وقت گلیوں میں یوںھی مارا مارا پھرتا رہتا۔
مارگلہ کی پہاڑیوں یہ برف پڑ جانے کے بعد خنکی اور بھی بڑھ گئی تھی۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر گیا۔ ایسا سن کے ٹھنڈ کچھ اور بھی زیادہ لگتی۔ گیس ہیٹر سوائے سونے کے، تقریباً تمام وقت ہی جلتا رہتا۔ تب گیس لوڈ شیڈنگ یا زیادہ بل آ جانے جیسی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی تھی۔ سو گھروں کے اندر سردی کا زور نہیں چلتا تھا لیکن باہر نکلنا عذاب لگتا تھا۔ اس عذاب کو بخوشی جھیلتے تھے کیوں کہ اسکول، کالج اور دفتر موسم کی سختی کو عذر نہیں مانتے۔
ہم سویٹر، کوٹ، موزوں اور اونی ٹوپی سے خود کو مکمل ڈھانپ کر گھر سے نکلتے اور ایک وہ تھا جسے موسم کی شدت کچھ کہتی ہی نہیں تھی۔ وہ منہ اندھیرے ننگے پاؤں گھر سے نکل آتا۔ سارا دن یہاں وہاں پھرتا رہتا اور رات گئے اپنے گھر واپس لوٹ جاتا۔ اسے نہ کھانے پینے کا ہوش تھا،اور نا ہی لباس کی فکر تھی۔ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تو اسے دیکھتے ہوئے دبی دبی سرگوشیاں کرتے، ان کی باتوں میں حیرت، تمسخر، اور تاسف سبھی کچھ ہوتا۔ وہ سب لوگوں کوخاموشی سے بس دیکھتا رہتا مگر کبھی کسی سے کچھ نہ کہتا۔ ہاں جب کسی کو سگرِٹ پیتے دیکھتا تو لپک کے اس کے پاس پہنچ جاتا اور کہتا “چھیگلت؟” مل جاتا تو سلگا کے آگے بڑھ جاتا اور نہ ملتا تو پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔ جب تک سگرِٹ مل نہ جائے۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر، بس ایک سگرِٹ ہی تو تھا، جس کی اسے طلب تھی۔ اہل محلہ اس عادت سے واقف تھے تو وہ اس کے کہے بغیر ہی اسے سگرِٹ تھما دیتے، ورنہ وہ ’’چھیگلت چھیگلت‘‘ کی رٹ لگائے رکھتا۔
گلیوں میں بے مقصد گھومتا، سگرِٹ کی لت میں مبتلا، ہوش و خرد سے بے گانہ یہ شخص، ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ چند سال پہلے وہ انتہائی ذہین اور خوب صورت جوان تھا۔ اس کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، مگر خواب اونچے تھے۔ وہ ہونہار طالب علم تھا اور اسے یقین تھا کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پہ، وہ ایک دن ضرور اپنا خواب سچ کر دکھائے گا۔ اس کا سارا تعلیمی سفر اسکالر شپ کے ساتھ طے ہوا تھا۔ شام میں وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے میں کچھ مدد ہو، اور رات گئے پڑھا کرتا۔
یونیورسٹی ختم ہونے میں بس کچھ ماہ رہتے تھے وہ خوش تھا کہ وہ جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا۔ اسی اثنا میں والد کو اچانک فالج کا اٹیک ہو گیا اور وہ بستر پہ پڑ گئے۔ ذہنی اور معاشی طور پر یہ ایک بڑا دھچکا تھا، اب اس کو مزید محنت کرنا تھی اور اس نے جان توڑ محنت کی۔ صرف شام کی ٹیوشن لینے کے بجائے اب وہ اپنی کلاسز ختم ہونے کے بعد سے لے کر رات تک مختلف جگہوں پر ٹیوشن پڑھانے لگا۔ کسی نہ کسی طرح گھر کے اخراجات اور والد کا علاج چلتا رہا۔ ان سب ذمہ داریوں کے باوجود اس نے پڑھائی کو نظر انداز نہیں ہونے دیا، وہ لگن اور ان تھک محنت سے پڑھائی کرتا رہا۔
وہ ہر تعلیمی میدان میں اول رہا تھا اور یونیورسٹی میں بھی اس نے اپنے شعبے میں ٹاپ کیا۔ جب اسے گولڈ میڈل پہنایا جا رہا تھا، تو فرط انبساط سے اس کی آنکھیں نم تھیں۔ آج اس کی زندگی کا بہت بڑا دن تھا، منزل بہت قریب تھی۔ اب وہ گھر کا خرچ بہتر طور پر چلا سکے گا، ابو کو علاج کی اچھی سہولتیں میسر ہوں گی اور جگہ جگہ ٹیوشن پڑھانے کہ مشقت سے بھی بچ جائے گا۔ کئی سوچیں تھیں جو اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ وہ خوش تھا، بے انتہا خوش۔
اپنا سا سی وی تیار کر کے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے روانہ ہو گیا۔ کئی دفاتر میں سی وی ڈراپ کیا، ملازمت کے اشتہارات با قاعدگی سے دیکھتا اور انٹرویو کے لیے جاتا مگر کہیں سے کوئی کال نہ آئی۔ اسی تگ و دو میں چھے ماہ گزر گئے، ٹیوشن کا سلسلہ جاری رہا مگر نوکری کی کوئی امید نظر نہ آتی۔ اس کا جوش و ولولہ پھیکا پڑتا جا رہا تھا۔ ایک دن ابو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تب اس کو رہی سہی امید بھی دم توڑتی محسوس ہوئی۔ اس نے کسی نہ کسی طرح ہمت بندھائے رکھی اور خود کو یہ تسلی دیتا رہا کہیں نہ کہیں کوئی اچھی نوکری ضرور مل جائے گی مگر نوکری نہ ملنا تھی سو نہ ملی۔
نوکری ملتی بھی کیسے اس کے پاس ڈگری تھی، قابلیت تھی، مگر نوکری حاصل کرنے کے لیے نہ تو سفارش تھی اور نہ ہی پیسا۔ چار ماہ اور گزر گئے، وہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ گھر کی ذمہ داری، ابو کی وفات اور معاشی پریشانیاں اس کے لیے شدید ذہنی دھچکے تھے۔ اس نے خود کو کمرے میں محصور کر لیا، وہ جس نے کبھی سگرِٹ چھوا تک نہ تھا، اب دن میں کئی ڈبیاں خالی کر دیتا۔ کبھی وہ دھیمی دھیمی سرگوشیوں میں خود سے باتیں کرتا، تو کبھی زور زور سے چیختا چلاتا۔ ایک دن اس نے اپنی تمام اسناد، میڈل اور سی وی نکالے، دھیرے دھیرے ان پہ ہاتھ پھیرا، ایک ایک چیز کو بڑی حسرت سے دیکھتا رہا۔ پھر اچانک اونچے اونچے قہقہے لگا کے ہنسنے لگا اور پھر دھاڑیں مار مار کے رونے لگا۔ جنون کی سی حالت میں اپنے بال نوچ ڈالے، قمیص پھاڑ دی اور زور زور سے چیخنے چلانے لگا، آخر تھک ہار کے کونے میں بیٹھ گیا۔ یہ اس کے ہوش و خرد کا آخری دن تھا۔
اس دن کے بعد جس نے بھی اسے دیکھا عقل و شعور سے بے گانہ، گلیوں میں پھرتے ہوئے بس سگرِٹ مانگتے ہی دیکھا۔ کہتے ہیں گھریلو حالات اور نوکری نہ ملنے نے اس کے ذہن پہ برا اثر ڈالا تھا اتنا کہ وہ ذہنی مریض بن گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے اپنی اہلیت کی نا قدری برداشت نہ ہوئی تھی۔ شان دار تعلیمی رِکارڈ اور زبردست صلاحیتوں کا مالک ہونے کے باوجود وہ بے روزگار تھا، اس کا وہ خواب جو اس کی زندگی کا مقصد تھا، چکنا چور ہو گیا تھا اور اسے یہ کم مائگی قبول نہ تھی۔
میں وہ گلیاں وہ شہر پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔ شاید آج بھی وہ ننگے پاؤں، برہنہ سینہ لیے ہر چیز سے بے نیاز انھی گلیوں میں گھوم رہا ہو۔ اس کا دماغ جو ہر فکر سے آزاد ہو گیا تھا، آج بھی ویسا بے فکر ہو۔ آج بھی وہ ذی شعور لوگوں کو یہ پیغام دیتا ہو کہ ’’دیکھو، مجھے غور سے دیکھو کہ میں ایک مثال ہوں، اپنے ہی جیسے کئی اور لوگوں کی جن کی خدا داد صلاحیتوں اور استعداد کو کچل دیا جاتا ہے اور ان کے خواب چھین لیے جاتے ہیں۔ میں ان سب کا نمایندہ ہوں اور سسٹم کے منہ پر ایک بھرپور تمانچہ ہوں‘‘۔