خلیل الرحمن قمر صاحب کے ڈرامے ”میرے پاس تم ہو“ کے چند ہی اقساط دیکھ چکا ہوں اور انشاءاللہ آخری قسط تک دیکھنے کی نیت رکھتا ہوں۔ میں کافی عرصے سے قمر صاحب کے مکالمے کا مداح ہوں اور میں ہی کیا جنھوں نے بھی ان کا ڈرامہ دیکھا تو واہ واہ کرتا ہی رہ گیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قمر صاحب کو عمومی شہرت ڈرامہ ”میرے پاس تم ہو“ کے نشر ہوجانے کے بعد ہی ملی۔ کیونکہ اس کے بعد ان کے بہت سارے انٹرویوز ہوئے۔ وہ انٹرویوز اس دفعہ نہ صرف بہت زیادہ دیکھے گئے بلکہ سوشل میڈیا پہ باقاعدہ شیئر بھی ہوتے رہے۔
جیسے ان کے ڈرامے کے ڈائیلاگ سحرانگیز ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ان کی باتوں میں بھی جادو ہے۔ جب سے ڈرامہ ”میرے پاس تم ہو“ ٹی وی پر چلنا شروع ہوا ہے تو تب سے ہی ان کے عورت کے حوالے سے نظریہ پر اعتراضات بھی اٹھنا شروع ہوئے ہیں حتیٰ کہ کئی بار تو ان کا ایک ایک ڈائیلاگ اٹھا کر تنقید کی گئی۔ اور پھر انھیں مختلف انٹرویوز میں اپنے اور اپنے کام کے اوپر اٹھنے والے اعتراضات اور تنقید کا جواب بھی دینا پڑا۔
قمر صاحب کا عورت کے بارے میں شاید اپنا ہی ایک یونیک نظریہ ہے اور ان کے نزدیک عورت کی اپنی ہی ایک تعریف ہے۔ ان کے ہاں اگرکوئی بھی عورت وفا اور حیا کے صفات سے عاری ہو تو وہ عورت نہیں کہلائی جاسکتی۔ اور انھوں نے مرد کی بھی اپنی ہی ایک تعریف رکھی ہی، ان کے مطابق غیرت سے خالی کوئی شخص مرد کہلانے کے مستحق نہیں۔ اب قمر صاحب عام آدمی تو ہیں نہیں کہ ان کی بات سن کر نظرانداز کردی جائے۔ انھوں نے تو بہت سارے اعتراضات کے جواب میں مرد اور عورت کی دوٹوک الفاظ میں تعریف کرکے بات ختم کردی ہے۔ لیکن کیا بات واقعی ختم ہوگئی؟ ہاں بات تو شاید ختم ہوگئی ہے لیکن بہت سارے نئے سوالات کھل گئے ہیں اور اب ان کے جوابات ڈھونڈنا بھی انتہائی اہم ہے۔ لیکن اب جواب ڈھونڈیں بھی تو کہاں ڈھونڈیں؟
سوالات، جیسے کہ! قمر صاحب کے ہاں وفا اور حیا کی تعریف کیا ہے؟ اور وفا اور حیا کی تعریف کون کرے؟ مذہب، معاشرہ؟ یا کوئی اور؟
مرد ہونے کے لئے صرف غیرت کی شرط کیوں؟ کیا مرد کے خلیے میں وفا اور حیا کے جینز کی کوئی حیثیت نہیں؟ اور غیرت کی تعریف کیا ہے؟ غیرت کی تعریف کرنا تو اس لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور اب تو تعریف کرنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے کیونکہ قمر صاحب نے اسے مرد ہونے کا بنیادی جز قرار دیا ہے۔ اور ان تینوں صفات یا جزئیات کی تعریف اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی عورت خود کو بے وفا یا بے حیا نہیں کہتی، بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بے وفائی اور بے حیائی کی وجہ بھی کسی مرد یا اس کی غیرت کو قرار دیتی ہے۔ اور اسی طرح بہت سے کام جنہیں عقلمند جہل و بے وقوفی سمجھتے ہیں اکثر مرد حضرات وہی افعال غیرت کے نام پر نہ صرف کرتے ہیں بلکہ بار بار دہرا کر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر کسی عورت میں وفا نہیں، لیکن حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہے یا یا اگر کوئی عورت وفا کا پیکر ہے لیکن حیا میں مار کھا گئی ہو تو ایسے کیس میں کیا کیا جائے؟ اور بعض جگہ تو حیا اور وفا ایک دوسرے کی ضد بن کر ابھرتے ہیں تو وہاں کیا کیا جائے؟ اور کہیں اگر خدانخواستہ کسی مرد کی غیرت مجبوری یا ضرورت کی بوتل میں قید ہو کر رہ جائے تو کیا وہ شخص بھی مرد ہونے کی اہلیت کھو دیتا ہے؟ اور آخری سوال کہ وفا، حیا اور غیرت ہونے یا نہ ہونے کا ٹسٹ کیسے ہوگا اور اس کا اپٹیمم لیول کیا ہوگا، غیرت، حیا اور وفا کو کون سے یونٹ میں ماپا جائے گا؟
ہاں جی ایک اور ضروری سوال! وہ یہ کہ اگر کوئی بندہ، مرد یا عورت، وفا، حیا اور غیرت کے پیمانے پر پورے نہ اترے اور عورت عورت نا کہلائے اور مرد مرد نا کہلایا جاسکے، تو پھر وہ کیا کہلائیں گے، انھیں کس نام سے پکارا جائے گا۔ ان کے لئے اصطلاحات کے استعمال میں بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
میں خود کو یہ کہنے کا اہل نہیں سمجھتا کہ خلیل الرحمٰن قمر صاحب کے مرد و عورت کے تعریف کو غلط قرار دے سکوں، بس میری نظر میں یہ تعریف کافی مختصر اور نامکمل ہے۔