ایک نجی ٹیلی ویژن چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات کے بعد ایجنسیوں نے حریم شاہ سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ تحقیقات کا آغاز وزرا سمیت دیگر اہم شخصیات کے ساتھ ویڈیوزاور آڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد کیا گیا۔ جو لوگ حریم شاہ سے ناواقف ہیں انہیں یہ خبر سن کر ایسا لگا ہو گا جیسے حریم شاہ کے پاس شاید کوئی “ایٹمی راز” ہیں کہ وزیراعظم نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی سے کام لیا ہے۔ جب کہ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ حریم شاہ ٹک ٹاک سٹار ہیں۔
حریم شاہ اور صندل خٹک بہت ہی کم وقت میں ٹک ٹاک پر مشہور ہوئی ہیں۔ دونوں لڑکیوں نے اس مقصد کے لیے منفرد راستہ چنا۔ انہوں نے سیاست دانوں کے ساتھ سیلفیاں، ویڈیوز اور آڈیوز بنائیں اور پھر ان کو ایک ایک کر کے ریلیز کرنا شروع کر دیا۔ اتفاق سے ان ویڈیوز میں پی ٹی آئی کے سیاست دان زیادہ تر جلوہ افروز دکھائی دیتے ہیں۔ ان ویڈیوز نے فیاض الحسن چوہان، جہانگیر ترین، شیخ رشید اور وزیراعظم عمران خان کی شہرت کو بھی چار چاند لگائے ہیں۔
سیاست دان خبروں میں رہنے اور شہرت کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ حریم شاہ نے صلے کی پرواہ اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہو کر یہ فریضہ سر انجام دیا۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم نے ممنونِ ہونے کے بجائے انہی کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔ بھلا حریم شاہ کے خلاف تحقیقات سے کیا ملے گا۔ ہماری ذاتی تحقیق کے مطابق حسن، شباب اور لڑکی مرد کی کمزوری ہے اور وزرا بھی اسی مردانہ کمزوری کی وجہ سے حریم شاہ کی باتوں میں آ کر ان کے ساتھ ویڈیوز بنوا لیتے ہوں گے، جو اب وائرل ہو گئی ہیں تو ان کو پریشانی لاحق ہے۔
اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کبھی تو وہ مبشرلقمان (جو حکیم لقمان سے کسی طور کم نہیں) کے ذاتی جہاز میں ویڈیوز بناتی دکھائی دیتی ہیں تو کبھی دفتر خارجہ تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔ وزیراعظم کی نشست پر براجمان ہو کر بھی انہوں نے ایک ویڈیو بنا ڈالی۔ ظاہر ہے تحقیقات کا جواز تو بنتا ہے۔ ایسے حالات میں حریم شاہ کی پریشانی بھی جائز ہے، یہ بھی سنا گیا ہے کہ حریم شاہ کو اپنی سلامتی کے حوالے سے خطرات کا سامنا ہے اور انہوں نے کینیڈا میں پناہ کی درخواست دی ہے۔
تاہم حریم شاہ کے لیے ہمارا مفت مشورہ یہی ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ تحقیقات کے حوالے سے حکم پر پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ تحقیقات کا حکم تو ساہیوال میں کار پر فائرنگ کے واقعے پر بھی دیا گیا تھا جس میں چار افراد مارے گئے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ آج تک کسی کو علم نہیں ہو سکا۔ چیف جسٹس اور پرائم منسٹر کے مشترکہ فنڈ میں ڈیم بنانے کے لیے اربوں روپے اکٹھے کیے گئے تھے۔ نہ ڈیم کی خبر ہے نہ ان پیسوں کی۔ الیکشن کے بعد حکومت سازی کے مرحلے میں جہانگیر ترین کے جہاز کا بڑا چرچا رہا تھا۔ جو ممبر اس جہاز کی سیر کرتا تھا وہ ہم خیال ہو جاتا تھا۔ اس راز سے پردہ اٹھنا بھی ابھی باقی ہے۔
علیمہ خان کی سلائی مشین اور اربوں کے اثاثے کا کیس بھی کبھی میڈیا کی زینت بنا تھا پھر حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا۔ خود خان صاحب سے بھی بنی گالہ محل کے حوالے سے تحقیقات کی گئی تھیں کہ ایکڑوں پر پھیلی اتنی بڑی جائیداد کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔
ایان علی پر کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس بنا تھا۔ آخر وہ بھی تو واش ہو گیا تھا۔ ایسی تحقیقات سے تو آصف زرداری اور نواز شریف بھی نہ بچ سکے۔ آصف زرداری کو پہلے تقریباً گیارہ سال تک جیل میں رکھا گیا تھا بالآخر انہیں رہا کرنا پڑا تھا اور پھر شاید کفارے کے طور پر انہیں ملک کا صدر بنا دیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے ایک بار پھر انہیں گرفتار کیا تھا مگر چند مہینوں کے بعد چھوڑ دیا۔ نواز شریف کے خلاف تو تحقیقات کا ایک طویل سلسلہ تھا جو جیمز بانڈ کی کسی فلم سے کسی طور کم نہیں تھا۔ اس کا بھی کیا نتیجہ نکلا۔ بات پانامہ سے اقامہ تک پہنچی۔ نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر بھی تحقیقات کی گئیں۔ آج وہ لندن میں ہیں۔
لہٰذا حریم شاہ! گھبرانا نہیں ہے۔ جب بڑے بڑے معاملات پر تحقیقات سے کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا تو آپ کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے جن سیاست دانوں کے ساتھ ویڈیوز بنائی ہیں وہ ان کی رضا مندی سے ہی بنائی ہیں۔ کسی نے آپ کو جہاز تک پہنچایا تو آپ نے وہاں ویڈیو شوٹ کی۔ کسی نے دفتر خارجہ تک رسائی دی تو آپ وہاں ویڈیو بنا سکیں۔ اب ویڈیو بن گئی ہے تو شکوہ کیسا؟ اس معاملے میں عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ قدم بڑھائیں اور تازہ ویڈیو اپ لوڈ کریں۔ عنایت ہو گی۔