محبت کی ایک کہانی، بڑی پرانی

 
امی کے گھر میں قدم دھرتے ہی رانی تیزی سے ان کی طرف لپکی۔ امی لان کے کپڑے اور ایمان کی ضرورت کی چیزیں خریدنے مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔
”ارے لڑکی! یہ کیا بے صبرا پن ہے؛ دم تو لینے دو۔ گھر میں داخل ہوئی نہیں اور محترمہ ہیں آ پہنچیں، چیل کی طرح جھٹپا مارنے کو۔ یہ بھی خیال نہیں، ماں گرمی میں تھکی ہاری آئی ہے، پہلے دو گلاس ٹھنڈا پانی ہی پلا دوں۔ “
موسم کی تپش نے امی کا مزاج پہلے ہی گرم کر رکھا تھا، ایسے میں رانی کا ندیدہ پن انھیں مزید سلگا گیا۔ رانی کو یکا یک اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے شرمندگی سے امی کا ہاتھ پکڑ لیا،
’’معاف کر دیں امی! میں ابھی پانی بلکہ شربت لے کر آتی ہوں‘‘۔
شربت پی کے امی کے رگِ جاں میں سکون اترا تو ان کے مزاج کی برہمی میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گئی۔ اس لیے انھوں نے قدرے دھیمے لہجے میں مخاطب کیا۔
”ایمان کہاں ہے؟ اسے بھی بلا لو، پھر تم دونوں اپنی اپنی پسند کے کپڑے منتخب کر لینا اور ایمان بھی دیکھ لیں کہ ساری چیزیں مکمل ہو گئیں۔“
”ایمان تو سو رہی ہے امی!“
’’اچھا چلو! اسے اٹھنے دو۔ تم کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھ جاو‘‘۔
امی نے ہاتھوں سے اپنے بال سمیٹ کر جوڑے کی شکل دیتے ہوئے کہا، تو وہ تخت پر ان کے مقابل آ کر بیٹھی۔ اسی اثنا میں ایمان بھی آنکھیں مسلتے ہوئے آ گئی۔
’’امی کب آئیں، کتنا حبس اور گرمی ہے تھک گئی ہوں گی، شربت لاوں آپ کے لیے؟“
اس کے لہجے میں امی کے لیے فکر ہی فکر تھی۔ اس نے جتاتی ہوئی نظروں سے رانی کو دیکھا، تو وہ ایک بار پھر نظریں چرانے پر مجبور ہو گئی۔
’’نہیں بیٹا! شربت پی لیا میں نے خوش رہو۔ آو! بیٹھو! ذرا یہ کپڑے دیکھ لو اور اپنی ساری چیزیں بھی۔ پھر عصر ہو جائے گی طیبہ اور ان کے ابو بھی آ جائیں گے۔ رانی آپ آٹا گوندھ کر سالن کی تیاری شروع کر دینا اور ایمان اپنی ساری پیکنگ کر لو اور ایک بات کا خاص خیال رکھنا اور ہوسٹل میں دل لگا کر پڑھنا اور اپنے کام سے کام رکھنا۔ اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کرنا۔ ہمیں تم سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں‘‘۔
امی نے ہدایات دیتے ہوئے سائیڈ پر پڑے شاپر اٹھا کر مختلف پرنٹ اور رنگوں کے سوٹ اور ایمان کا سامان تخت پر رکھے۔
’’امی یہ کیا لے آئیں، سارے ہی پرنٹ آؤٹ آف فیشن ہیں۔ آج کل تو گل احمد، جے ڈاٹ والے لان سوٹ چل رہے ہیں۔ جتنی ایگزیبیشن کی کوریج ٹی وی پر دکھا رہے ہیں اور مارننگ شوز میں بھی ساری ہوسٹس وہی پہن کر آ رہی ہیں۔“
’’توبہ ہے رانی آپی! ہم کوئی ٹی وی پر تھوڑی کام کرتے ہیں۔ اپنی اوقات سے زیادہ باتیں کر رہی ہو اور نہ ہی کسی پوش ایریا میں رہتے ہیں۔ برانڈڈ چیزیں اعلی طبقوں اور مال دار پارٹیوں کے لیے ہیں۔ امی اتنے شوق سے گھوم پھر کر ہمارے لیے کپڑے لائی ہیں۔ آپ یوں ان کا دل نہ توڑیں۔“
”تم چپ کرو۔ تمھیں کچھ پتا ہوتا نہیں ہے، ایسے عام پرنٹڈ کپڑے پہنیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہیں۔ امی کو بھی فیشن کا پتا نہیں چلتا اس لیے تو کہتی ہوں کہ یا تو ہمیں پیسے دیں یا ساتھ لے جائیں۔‘‘
’’ہاں! تمھیں دے دوں پیسے اڑانے کے لیے۔ تم کماو تو درد ہو نا! پیسے اڑانے کا سوچو، جمع کرنے کا تو خیال نہیں ہے۔ ہمیشہ سکھایا ہے کہ اپنے سے نیچے دیکھنے کی عادت ڈالو۔ ارے ایسے لوگ بھی ہیں، جنھیں تن ڈھاپننے تک کپڑا میسر نہیں مگر مہا رانی صاحبہ کی ڈِمانڈ ہی ختم نہیں ہوتی۔ اپنی چھوٹی بہن سے کچھ عقل ادھار لے لو، وہی کھاتی ہے جو تم کھاتی ہو اور اسی گھر میں پلی بڑھی ہے کس قدر صالح، شکر گذار اور قناعت پسند بچی ہے میری۔ ایسی اولادیں دعا لیتی ہیں، ماں باپ کی۔ والدین کی تابع فرمان۔ سیکھو بیٹا اور اپنے حال میں خوش رہنے کی عادت ڈالو۔ دولت نہیں سکون اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔
رانی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور ایمان سب سے چھوٹی آخر میں دو جڑواں بھائی بھی تھے۔ رانی کے والد کھیتی باڑی کرتے تھے۔ وہ محنتی، ذہین، سمجھ دار اور ایمان دار آدمی تھے، لہذا پوری ایمان داری سے محنت کر کے انھوں نے اپنا چھوٹا سا ذاتی مکان لیا۔
رانی کی امی گھر میں سلائی مشین کا کام کرتی تھیں۔ دونوں میاں بیوی اپنے گھرانے کی خوش حالی دیکھ کر رب تعالی کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے۔ انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بھی شکر، صبر اور برداشت کے جذبوں کو اولین درجے پر رکھا اور بچوں نے ان کی تربیت کا مان رکھا۔ بظاہر رانی کے۔ جانے کیوں وہ قناعت پسند نہ تھی۔ گو کہ امی ابو اپنے بچوں کی ہر جائز خواہش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے لیکن پھر بھی رانی خوش اور پر سکون نہ رہتی۔
شمیم بیگم رانی کی طبیعت کا جذباتی پن دیکھ کر ہولتی اور کڑھتی رہتیں، کہ نہ جانے آگے کیسا گھر بار ملے اور اپنے رب سے ان کے حق میں دعائیں کرتی رہتیں اور بھلا ماں کی دعائیں کب رائیگاں جاتی ہیں۔
ایمان ہوسٹل میں پہلے کچھ دنوں میں پریشان سی رہنے لگی تھی؛ اسے اپنا گھر شدت سے یاد آنے لگتا۔ اس کا دل کرتا کہ ابھی گھر واپس چلی جاوں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیوں اور کلاس فیلو سے گھل مل گئی۔ رفتہ رفتہ اس کے طور طریقوں اور رہنے سہنے میں بھی بدلاو آنے لگ گیا تھا۔ جسے سب نے مثبت پہلو کے طور پر محسوس کیا، مگر ایمان کی دوستی بری لڑکیوں سے ہو گئی تھی۔ برے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنے سے ایمان پر بھی برے اثرات ہو گئے تھے۔
ڈیپارٹمنٹ سے واپس آتے ہی دوستوں کے ساتھ پورا پورا دن گھومنے میں گذار دیتی۔ دھیرے دھیرے وقت بہتا گیا۔ کب اور کیسے اسے کچھ اندازہ نہ ہوا اور وہ علی کے ہتھے چڑھ گئی۔ علی کا تعلق نشہ آور اشیا بیچنے والے گروہ سے تھا۔
تب ایمان ہر ہفتے گھر جانے کی بجائے علی کے پاس جانے لگی۔ علی نے مکان کرائے پر لیا ہوا تھا۔ وہ مکان پر لڑکیوں کو لایا کرتا تھا۔ ایک رات ایمان نے فیصلہ کیا، کہ آج میں رات بھی علی کے مکان پر بسر کروں گی۔ رات کو علی ایمان کو چھت پر لے گیا، چھت پر ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم کو گدگدا رہے تھے۔ ایمان نے چند لمحے سر جھکائے خاموش کھڑے علی کو دیکھا اور پھر اس کے پاس جا کر لپٹ گئی۔ علی کہنے لگا، ’’ایمان، ہر عورت ہر مرد کا اک آئڈیل ہوتا ہے اور میری آئڈیل تم ہو۔ لیکن میں اس بات سے واقف نہیں ہوں کہ تمھارا آئڈیل میں ہوں کہ نہیں‘‘۔
علی نے سر جھکا کر ایمان کی آنکھوں میں جھانکا، ایمان کی آنکھوں کے گوشے نم تھے۔
’’علی ان مقدس ساعتوں میں، میں تم سے ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گی۔ تم واقعی میرے آئڈیل ہو‘‘۔
رات بھر دونوں نے محبت میں گذارے۔ ایمان اگلے دن گھر جانے کی بجائے ہوسٹل چلی گئی۔ وقت تیزی سے گذرتا چلا گیا۔ ایمان کی طبیعت مضمحل رہنے لگی تھی۔ اسے اپنے اندر بدلاؤ محسوس ہوا۔ جب اسے پتا چلا کہ اسے حمل ٹھیر گیا ہے، تو علی نے ایمان کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ اب علی نے ایمان کے ذریعے ہوسٹل میں نشہ آور ادویات فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔
اس دوران ایمان کو پتا چلا کہ ہوسٹل میں چیکنگ ہونے والی ہے، تو اس نے خود کشی کرنے کی کوشش کی، مگر وہ نا کام ہوئی، کیوں کہ اس لمحے وہاں میڈم آ گئی تھیں۔ ایمان کے والدین کو بلایا گیا۔ ساری صورت احوال جان کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ایمان کو بیٹی ماننے سے انکار کر کے چلے گئے۔ ایمان کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایمان خود کشی کرتے بچا لی گئی، لیکن یہ ذلت سہہ نہ سکی اور دم توڑ دیا۔
دوسری طرف رانی جو بگڑی بیٹی تھی، پھپھو کے گھر گذارے گئے، چند دنوں نے اس کی زندگی بدل ڈالی، وہ جان گئی کہ جو شخص کسی کو عزت نہیں دے سکتا، وہ احساس نامی جذبے سے نا آشنا ہو، وہ محبت جیسے نرم و لطیف پودے کی آب یاری کیسے کر سکتا ہے۔ اسے پھپھو کے بیٹے عمر سے محبت ہو گئی تھی۔ محبت نے ایسا جادو کیا کہ اس کی شخصیت ہی بدل کے رہ گئی۔
’’عمر میں جان گئی کہ اصل خوشیاں محبت کی دین ہوتی ہیں، بے جان چیزوں میں دم کہاں کہ وہ کسی کا خیال رکھ سکیں میں جان گئی ہوں عمر، کہ تمھاری بے لوث اور بے پناہ محبت کے آگے ہر شے ہیچ ہے۔ میں جان گئی ہوں، کہ باقی سب مایا ہے۔ سب کچھ مایا ہے‘‘۔
پیچھے کھڑا عمر، رانی کی خود کلامی سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور حیرت سے رانی کو تکے جا رہا تھا، اتنا خوب اقرار میرے وہم میں بھی نہ تھا، اس کا دل چاہا، کہ وہ بھنگڑا ڈالنے لگے۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔
’’نہیں ابھی نہیں‘‘۔
اس نے خود کلامی کی تو رانی چونک گئی۔ عمر کو پیچھے کھڑا دیکھ کر حیرت سے تکنے لگی۔
’’سنو اب اور نہیں۔ میں اب اور برداشت نہیں کر سکتا، نہ تمھارے آنسو اور نہ تمھاری دوری۔ میں جا رہا ہوں سب سے کہنے، کہ فوراً میری شادی کی تیاریاں شروع کر دیں‘‘۔