مردانہ تسلط والی سوسائٹی

 
ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ جناب یہ میل ڈومینینٹ سوسائٹی ہے۔ آخر یہ میل ڈومینینٹ سوسائٹی ہے کیا بلا؟ ہمیشہ سے یہی کہا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں یہ کہنا درست تھا۔ لیکن کیا اب بھی ایسا کہنا درست ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہیں جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرتی نظام بھی کئی پہلووں سے تبدیل ہوا۔ سوچ کے زاوئے بدلے لوگوں کے رویے، ان کے دیکھنے، سوچنے اورسمجھنے کے انداز میں غیر معمولی تبدیلیاں آئیں اور خاص کر جینڈر ڈفرینسیز کے حوالے سے کئی مثبت تبدیلیاں منظر عام پر آئیں۔
پہلے ہماری سوسائٹی ہر لحاظ سے ایک میل ڈومینینٹ سوسائٹی ہی تھی ہر طرف مردوں کا تسلط تھا اور بہت حد تک خواتین بذات خود بھی گھرداری تک محدود رہتی تھیں۔ کیونکہ بچپن سے ان کی تربیت ہی قدامت پسند روایات کے عین مطابق کی جاتی تھی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں (گو کہ اب بھی بہت سوں کا یہی ماننا ہے ) عام تاثر پایا جاتا تھا کہ لڑکیوں نے آگے جا کر (شوہر) کا گھر سنبھالنا ہے بچے پالنے ہیں اور بس۔ اس لئے ان کی تربیت انہیں بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ جب کہ مرد حضرات کے لئے کرائٹیریا کافی مختلف تھا اور اس غیر ترقی یافتہ دور میں بھی مردوں کے پاس آگے جانے کے ترقی کرنے کے مواقع موجود تھے۔
اس قدامت پسند دور کی ایک بہت نمایاں آواز عصمت چغتائی جو اس دور میں بھی بغاوت پسند اور ہر نا انصافی پر ”کیوں“ کرنے والی اور اپنا حق حاصل کرنے والوں میں سے تھیں، لکھتی ہیں کہ بچپن میں جب اپنے بھائیوں کو بڑی شان سے گھڑ سواری کرتے دیکھتی تو میں بھی ضد کرتی لیکن اماں یہ کہہ کر چپ کروا دیتیں کہ لڑکیاں گھڑ سواری نہیں کیا کرتیں تم سلائی بنائی اور کھانا بنانا سیکھو۔ خیر یہ تو ایک چھوٹی سی مثال تھی۔ اس طرح کی انگنت بے تکی باتیں ہیں کچھ کو بدل دیا گیا ہے اور کچھ اب بھی غور طلب ہیں۔
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ خواتین نے تعلیم اور پھر اعلی تعلیم میں آگے آنا شروع کیا۔ اس کے بعد باری آئی ملازمت کی۔ پہلے صرف لڑکوں کی تعلیم ضروری سمجھی جاتی تھی کہ آگے چل کے انہیں اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہوتی تھی۔ لڑکیوں کا ان پڑھ رہنا یا واجبی سی تعلیم تک محدود رہنا کچھ عجیب خیال نہ کیا جاتا تھا۔ مرد پڑھ لکھ کر ملازمت حاصل کرتا اور گھر چلاتا تھا اور عورت گھر سنبھالتی تھی۔ انفرادی شناخت صرف اور صرف مرد کو حاصل تھی۔
عورت کی شناخت عموما اس کے باپ بھائی شوہر یا بیٹے سے ہوا کرتی تھی۔ جبکہ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ آپ کے والد صاحب افسر تھے آپ کا بھائی انجینئر اور آپ کا شوہر ڈاکٹر ہے، لیکن آپ خود کیا ہیں؟ یہی وہ اہم سوال ہے جس نے نا صرف عام آدمی کی سوچ بدلی بلکہ رفتہ رفتہ اس معاشرے کو بہت حد تک تبدیل کیا۔ آج لڑکیاں ناصرف پڑھ لکھ کر نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اپنی پہچان حاصل کرنا ان کے لیے لازم و ملزوم ہو گیا ہے۔
آج خواتین مرد حضرات کے شانہ بشانہ پوری دلجمعی سے زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں سرگرم عمل ہیں۔ مردوں کی طرح مہینے کے پورے 26 ورکنگ ڈیز (حمل اور مخصوص ایام میں آرام کی ضرورت اور اپنے اس قدرتی نظام سے جڑی جسمانی تبدیلیوں میں کسی بھی قسم کی رعائیت مانگے بغیر) پوری مستعدی سے کام کرتی ہیں۔ ہر جگہ نہ صحیح لیکن کئی جگہ موجودہ دور میں مرد معاشی ذمہ داریاں نبھانے میں اکیلا نہیں، کیوں کہ آج کی پڑھی لکھی ترقی یافتہ خود مختار عورت معاشی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مرد کے ساتھ کھڑی ہے۔ مانا کہ ہر عورت خودمختار نہیں کیوں کہ آج بھی ہماری خواتین کی کثیر تعداد ملازمت نہیں کرتی۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تعداد میں دن بہ دن کمی ہو رہی ہے اور خود مختار خواتین کی تعداد میں اضافہ۔
جسمانی ساخت کے اعتبار سے ظاہر ہے دونوں میں فرق ہے۔ لیکن ذہنی صلاحیتوں میں خواتین کو مردوں سے کم سمجھنا ان کی توہین ہے کیوں کہ علم اور عقل کسی کی میراث نہیں ہے جناب، یہ بات ہمیں تسلیم کرنی ہی ہو گی۔ عورت آپ کی ساتھی ہے غلام ہرگز نہیں ہے یہ سمجھ لیجیے۔ عورت باپ، بھا ئی اور شوہر کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لیے تخلیق نہیں کی گئی۔ ان تمام رشتوں سے پہلے وہ ایک انسان ہے جس کی اپنی زندگی اپنی مرضی اور اپنی خواہشات ہیں اسے بھی اپنی مرضی سے جینے کا، اپنا آپ منوانے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک مرد کو۔ ماضی میں کہاں خواتین کے لیے گھڑ سواری معیوب تھی اور اب گھوڑے تو رہے ایک طرف وہ جہاز اڑا رہی ہیں۔ آخر یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یقینا ہمت اور خود اعتمادی سے۔ جو لوگ اس واضح فرق کو آج بھی تسلیم نہیں کر رہے ان کے لیے اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیچارے ترس کھانے کے قابل ہیں۔