کچھ دن پہلے فیس بک دیکھتے ہوئے اتفاقیہ ایک لطیفہ نما پوسٹ پر نظر پڑی تو دل میں غصے اور افسوس کے ملے جلے احساسات آئے کہ ہم بطور معاشرہ کس قدر پست ہو چکے ہیں کہ جو حقوق خدا کی طرف سے متعین کیئے گئے ہیں جن پر آزادی مذہب بھی دیتا ہے ہم مفت کے نام اور چسکے کے لئے بنا جانے سوچے اور سمجھے ان سے کھیل رہے ہیں نہ صرف ان سے بلکہ شاید ہزاروں زندگیوں سے بھی۔
تو جناب پوسٹ کچھ یوں تھی اور صفحہ بھی اردو کا تھا وہ اردو جسکی رسائی ہر آدمی تک ہے سو جس ذہنیت اور مزاج کو ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ سمجھنا آسان ہے، لکھا کچھ یوں گیا تھا ِ’ جو لڑکی اپنے والدین سے چھپ کے آپ کے سے محبت کی پینگیں بڑھا سکتی ہے وہ آپ کے بچوں کی تربیت کیا کرے گی انکو اچھے برے تمیز کیا سکھائے گی‘ سب سے پہلے تو اس بے تکے پن کی قطعاً سمجھ نہیں آئی سوائے سستی شہرت کے عملی نمونے کے پھر کچھ غوروفکر کے بعد اس کے دور رس نتائج پر نظر کی تو احساس ہوا کہ سستی شہرت گئی بھاڑ میں شاید لکھنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ اس کے کتنے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں یا شاید ان کے قبیلے میں غیرت باقی نہیں ہے جو بالکل یہی پینگیں بڑھانے پر اور بڑھتی ہے کیونکہ عورت دوسری عورت کے ساتھ تو یہ سب کرنے سے رہی یا شاید موصوف انڈین فلم اومکارا سے کافی متاثر ہوئے ہیں کہ ہیروئین کے باپ کے مکالمے یہاں لگانے شروع کر دیئے اور ظلم یہ کہ جس دین کا نام لے کر لوگوں میں یہ شر پھیلا نے کا شغل جاری ہے اس میں نکاح میں لڑکا لڑکی دونوں کی پسند کو اولین سمجھنا اور کرنا شامل ہیں اور دور اندیشی بھی کہ معاشرتی بیماریوں سے کافی بچا جا سکتا ہے۔
لیکن شاید ہم کچھ بھی لکھتے اور پوسٹ کرتے ہوئے کسی بھی موضوع کی حساسیت کو نہیں بھانپتے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذرا ذرا سی بات پر غیرت کے نام پر قتل ہو جہاں پہلے ہی ہزارہا مشکلات ہوں جہاں لوگ چال ڈھال اور لباس دیکھ کر بدکردار ہونے کا فتویٰ داغ دیں۔ وہاں ایسی چیزوں سے کتنا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
اگر لکھنے والا حقائق اور اعداد و شمار سے بات کرتا تو اس کا سر بھی شرم سے جھکا ہوا ہوتا کہ پاکستان غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں ہر سال ہزاروں قتل اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ’عورت آزاد ہے‘۔ جو ملک دنیا میں اس مکروہ فعل میں اتنا آگے ہے کہ سوا ارب کی آبادی رکھنے والے پڑوسی ملک میں سالانہ اس نام پر 1000 قتل اور 22 کروڑ کی آبادی میں 1100 قتل سالانہ اور یہ غیرت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا بھر میں سے ہمارا حصہ سبسے زیادہ یعنی 30 فیصد ہے، شرمندگی ہی شرمندگی۔
اگرچہ سندھ اور کے پی کے میں یہ تعداد مجموعی طور پر زیادہ ہے لیکن پنجاب اور بلوچستان میں بھی باغیرت افراد کی کمی نہیں ہے۔ پنجاب پولیس کی فرسٹ انویسٹیگیشن رپورٹس کے مطابق 2012 سے 2017 تک رجسٹرڈ کیسسز کی تعداد تقریباً 2279 ہے۔ یاد رہے کہ یہ رجسٹرڈ ہیں باقی واللہ علم۔ کچھ ایسے ہی حالات سندھ کے ہیں جہاں صرف ایک ضلع میں سالانہ 45 سے 50 خواتین اس کی بھینٹ چڑھتی ہیں، کےپی کے کی غیرت 2017 میں سب سے زیادہ جوش میں رہی اور 115 خواتین لقمہ اجل بنیں۔
وجوہات کا تعین کریں تو جائز حقوق جو دینی اور دنیاوی لحاظ سے تفویض شدہ ہیں۔ وہ وجوہ ہیں غیرت کے نام پر بے غیرتی دکھانے کی۔ کہیں بیٹا پیدا نہیں ہوا، کہیں جائیداد میں حصے کا تنازعہ، کہیں محبت اور پسند کی شادی تو کہیں گھٹن زدہ ماحول میں بنیادی حقوق مانگنے پر یہ تمام قتل ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ امریکہ اور یورپ اس لعنت سے محفوظ ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ اگر وہاں یہ رجحان 29 فیصد ہے تو ماشاللہ ہم ایشیائی 71 فیصد کے ساتھ غیرت کے تخت پر براجمان ہیں وجہ تعلیم کی کمی اور غربت جہالت کی زیادتی کے علاوہ کچھ نہیں
یہاں پر ایک عرض یہ ہے کہ ان معاملات کا مذہب سے کوئی لین دین نہیں۔ ان کی وجوہات بالکل الگ جو کہ ثقافتی، سماجی اور قبائلی ہیں جہاں مرضی کی شادی، جائیداد میں حصہ، شادی سے انکار اور اپنی مرضی کی نوکری کرنے پر مارنا ہی غیرت ہےتو اسکو مذہب کا تڑکا لگا کر بیچنے سے حاصل کچھ نہیں ہونا۔
NOW کے واویلا کرنے پر 2006 میں اقوام متحدہ نے ایک قانون پاس کیا جس کا اطلاق فی الحال کہیں بھی نظر نہیں آتا اور نہ ہی مستقبل قریب میں امکان موجود ہے، ایسا ہی ایک قانون پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی 2017 میں پاس کیا گیا لیکن شاید اس میں کافی سے زیادہ ترامیم کی گنجائش موجود ہے اور ایسے قتل کو پاکستان پینل کوڈ کے مطابق 302 میں نہ شامل کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے، کم از کم سزا 25 سال مقرر ہے جسکو مدعی کے لواحقیین [جو عموماً خود ہی ملوث ہوتے ہیں] ملزم کو معاف کرا کے 15 سال تک کرا سکتے ہیں اور ایسی ہی کئی شقیں مزید موجود ہیں۔
بہرحال بات شروع جہاں سے ہوئی تھی توسمجھ نہیں آتا کہ صنف مخالف پینگیں خود بڑھائیں تو مطلب ان کی تربیت میں بھی کوئی جھول موجود لازمی ہے اور ایسے ہی افراد اپنے ساتھ کے 25 فیصد مردوں کی اموات کا سامان بھی بنتے ہیں کیونکہ آج تک ایسا کوئی قتل کسی خاتون کے ہاتھوں ہوتا نہیں دیکھا تو خدارا اپنے اردگرد کا احوال دیکھتے اور سنتے ہوئے ایسی بےہودہ گوئی سے پرہیز کیجئیے۔ آپ کی نظر میں یہ معاملات مذاق یا تفریح لیکن کہیں کسی کی زندگی کا سوال بھی بن سکتا ہے اور بہت سارے خواب با آسانی اس المیے کی نذر ہو سکتے ہیں ویسے بھی غیرت اور تربیت حقیقی غیرت والے معاملات میں دکھائی جائے تو زیادہ مناسب لگتا ہے۔۔۔