لڑکی سیٹ ہو گئی

 
یونیورسٹی کے لان میں کچھ لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ سردیوں کی دھوپ کا مزا لیتے خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ ان کے ہینڈ بیگ ان کے پاس گھاس پہ دھرے تھے، اپنی باتوں میں وہ کچھ منٹوں کے لیے ان سے غافل ہوئیں تو ایک بیگ غائب ہو گیا۔
بیگ چرانے والا کوئی چور اچکا یا کوئی اٹھائی گیر نہیں تھا بلکہ اسی یونیورسٹی کا ایک طالب علم ارسلان تھا۔ بیگ چرا کر اس نے کھولا تو حسب توقع ایک موبائل فون، شناختی کارڈ اور کچھ دیگر چیزوں کے ہمراہ چند سو روپے تھے۔
اس نے موبائل کی بیٹری نکال کر موبائل آف کر دیا اور بیگ جیکٹ میں چھپا کر ہاسٹل چلا گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد اس نے موبائل آن کیا تو جلد ہی ایک کال آ گئی۔ اس نے کال ریسیو کی اور متانت سے بولا: کون؟
دوسری طرف نسوانی آواز ابھری: جی یہ موبائل میرا ہے، آپ کون بول رہے ہیں؟
ارسلان سنجیدگی سے بولا؛میرا نام ارسلان ہے اور میں فائنل ائیر کا سٹوڈنٹ ہوں۔ مجھے ایک پرس ملا ہے جو ایک نشئی چرا کر جا رہا تھا۔ اسی میں یہ موبائل اور کسی خاتون جن کا نام سائرہ ہے، ان کے کچھ دستاویزات اور پیسے ہیں۔
لڑکی بولی:جی میں ہی سائرہ ہوں اور یہ پرس میرا ہی ہے۔
ارسلان بولا؛ٹھیک ہے، میں آپ کا نمبر بند کر رہا ہوں تاکہ آپ کی کوئی ذاتی کال یا مسیج نہ موصول ہو جائے۔ آپ میرا نمبر نوٹ کر لیجیے اور میں اس نمبر پہ میں اپنا پتا بھیجتا ہوں۔ کل کسی وقت کسی کو بھی بھیج کر واپس منگوا لیں۔ میں اس میں سے ملنے والے سامان کی بھی فہرست بنا کر آپ کو مسیج کر دیتا ہوں۔
اس کا شائستہ لہجہ اور ڈیسنٹ ردعمل لڑکی کو اس کی شرافت اور بردباری کے لیے قائل کرنے کے کافی تھا۔ اگلے دن ایک بچہ آ کر پرس واپس لے گیا۔ تین دنوں بعد ارسلان کو سائرہ کا مسیج موصول ہوا، اس نے اسے ایک فارورڈڈ مسیج بھیجا تھا۔ چند دن تو بات ایسے مسیجز تک رہی، پھر حال احوال کے مسیجز، چند مختصر دورانیے کی کالیں اوراس کے بعد دونوں کے درمیان مسیجز اور طویل کالوں کا تبادلہ شروع ہو گیا۔
صرف بیس دنوں کے بعد سائرہ اور ارسلان اسی لان میں بیٹھے دکھائی دیے۔ یہ شناسائی کب دوستی اور پھر کب محبت میں ڈھلی سائرہ کو سمجھ ہی نہ آ سکا۔ مگر ارسلان جانتا تھا کہ ”لڑکی سیٹ ہو گئی ہے۔ “
یہ انتہائی نامناسب لفظ ”سیٹ“ دراصل اس قبیح ارادے کا نام ہے جسے ہم ہوس کہہ لیں تو مناسب ہو گا، لڑکی سیٹ کرنے کا مقصد اور اس کے پیچھے ارادے کبھی نیک نہیں ہو سکتے، یہ تو طے ہے۔
سائرہ کے علاوہ پوری یونیورسٹی کے لڑکے جانتے تھے کہ ارسلان نے لڑکی کیسے ”سیٹ“ کی ہے۔ اس کا ایک ایک مسیج، ایک ایک کال، تنہائی میں ملاقات کی ایک ایک تفصیل، ہر بندے کو ازبر تھی۔ ارسلان دنوں میں یونیورسٹی کا سب سے مشہور ”پلیئر“ بن چکا تھا، جس نے مختصر ترین عرصے میں لڑکی ”سیٹ“ کر لی تھی۔ اب وہ لڑکیاں سیٹ کرنے کی ٹپس دیا کرتا۔
اس سیٹنگ کا انجام کیا ہوا، یہ بتانے کا تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ محض وقت گزاری کے لیے دوستیاں کرنا اور ایسی دوستیوں کی آڑ میں لڑکیوں کو نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی اذیت میں مبتلا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مرد کی اچھائی بھی بعض اوقات بناوٹی ہوتی ہے۔ اس کی مہربانی، اس کا سلیقہ، اس کا اخلاق، اس کی سنجیدگی سبھی کے پیچھے اس کا وہی مقصد ہوتا ہے، جو کسی لفنگے کا ہو گا۔ اسے ہم بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے کہ
یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کو مردوں سے اچھائی کی سرے سے امید ہی نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے بقول حالی
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
لڑکوں کی طرف ایسے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں جن سے لڑکی اس کی جانب متوجہ ہو۔ اگر لڑکے کا تاثر منفی ہو گا تو اول تو متوجہ ہی نہیں ہو گی، ہو بھی جائے تو اس سے دور ہی رہنا چاہے گی۔ گلی کے آوارہ لڑکے کو بھلا کون لفٹ کروائے گی، مگر وہی آوارہ دو گلیاں چھوڑ کر اگر سلیقہ سے کلام کرتا دکھے تو کوئی نہ کوئی تو دھوکا کھا سکتی ہے۔ اس لیے اہم ہے کہ اس کا پہلا تاثر مثبت پڑے اور اس حد تک مثبت ہو کہ وہ متاثر ہو جائے۔ ایک بار وہ متاثر ہو جائے تو اگلے مرحلہ رابطے کا ہوتا ہے۔ رابطہ کرنا مشکل نہیں ہے مگر رابطے کو بحال اور دلچسپی قائم رکھنا بھی شرط ہے۔
یونیورسٹیوں میں مہا گرو فرمایا کرتے تھے کہ لڑکی کے مسیجز میں لکھا کیا ہے وہ اہم نہیں ہے۔ اس کے مسیجز کتنے تواتر سے آتے ہیں یہ اہم ہے۔ اگر اس کا جواب منٹوں میں آ جاتا ہے تو یہاں سیٹ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اگر صبح کے مسیج کا جواب شام کو ”ہوں ہاں“ کی شکل میں موصول ہوتا ہے کہ یہاں دال نہیں گلے گی۔ کہیں اور ٹرائی کرو۔
اس لیے ایسے واقف کار جن کے وقت بے وقت اور فضول مسیجز موصول ہوتے ہوں اور وہ جواب کے متمنی ہوں، ان کے گریز ہی بہتر ہے۔ کیونکہ قوی امکان ہے کہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ رابطے سے ایک قدم آگے جانا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ مرد حضرات کی شائستگی اور اخلاق عموماً لڑکی کے ملتفت ہو جانے تک ہی قائم رہ پاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ لڑکی کی مجبوری بن جائے یا ضرورت تو پھر اس کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ جو کئی بار اس قدر بھیانک ہوتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔
یہ بالکل علامہ اقبال کی مکڑی اور مکھی کے مکالمے جیسا ہے۔ مکڑی اسے خوشنما خواب دکھا کر جال میں گھیر لیتی ہے، بالکل اسی طرح لڑکے بھی خوشنما شخصیت کا ڈھونگ رچا کر گھیر لیتے ہیں۔
شرافت جاننے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے مگر بے وجہ کی مہربانی اور حد سے زیادہ اچھا ہونا اکثر گھیرنے کا ایک طریقہ ہوا کرتا ہے اور محتاط رہنے میں ہی عافیت ہے۔