خاتون کے جسم پر کپڑے کے نام پر دو دھجیاں تھیں۔ سر پر سرفنگ بورڈ تھا اور سڑک عبور کرنے کے لیے وہ کم ازکم بیس مردوں کے درمیان اشارہ سبز ہونے کی منتظر تھی۔ اشارہ سبز ہوا۔ سب نے اپنی اپنی راہ لی۔ کسی نے خاتون پر دوسری نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی چہ جائیکہ کوئی سیٹی بجاتا، آوازہ کستا یا پھر گھورتا ہی چلا جاتا۔ یہ بہت برس پہلے کی بات ہے جب پہلی دفعہ امریکہ جانا ہوا تھا۔ ہمارے لیے یہ سب نیا تھا پر جزائر ہوائی میں دو دن تک ہم بھی اس رویے کے عادی ہو گئے۔ مملکت اسلامیہ پاکستان میں دیکھے گئے اور سیکھے گئے بازاری آداب خود ہی محو ہوتے گئے۔
اس کے بعد کئی مغربی اور مشرقی ممالک میں جانا ہوا اور ہر جگہ سبق یہی ملا کہ عورت اور مرد برابر کی مخلوق ہیں۔ جو اصول مرد پر لاگو ہوتے ہیں، عورت بھی انہی کی پابند سمجھی جانی چاہیے۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ عورت کا جسم اور اس کا لباس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ اس پر پارلیمان کی کمیٹی تشکیل دینی پڑے اور نہ ہی ان کے اطوار کے فیصلوں کی کنجی گھر کے مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی پتہ لگ گیا کہ جہاز سے اترتے ہی ”میمیں“ منتظر نہیں کھڑی ہوتیں اور نہ ہی ہر کونے پر ایک حسینہ پکے پھل کی طرح آپ کی آغوش میں گرنے کے لیے تیار پائی جاتی ہے۔ مرد اور عورت باہمی احترام کے رشتے سے بندھے ہیں۔ جنس شجر ممنوعہ نہیں اور اسی لیے یہ ہر مرد کی واحد دلچسپی نہیں ہے۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ بداخلاقی اور جنسی وحشت جس کا مظاہرہ وطن عزیز میں عام ہے وہ خال خال دیکھنے کو ملتا ہے۔
مضبوط خاندانی ڈھانچہ موجود ہے۔ میاں بیوی، اولاد اور ماں باپ کے ساتھ محبت کا تعلق اگر ہمارے معاشرے کی نسبت زیادہ نہیں تو کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ بے شمار مفروضات گرد ہوتے گئے۔ جرم جیسے یہاں ہے ویسے وہاں بھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ قانون کام کرتا نظر آتا ہے۔ جرم پر پردہ ڈالنے کا رواج نہیں ہے۔ مجرموں کی اکثریت اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ لوگ پریشانی میں مزاروں پر حاضری دینے اور درود کا ختم کرنے کے بجائے اداروں کی مدد ڈھونڈتے ہیں۔ سب اچھا نہیں ہے پر سب برا بھی نہیں ہے۔ دونوں میں تناسب ہمارے معاشرے کی نسبت کہیں زیادہ حوصلہ افزا ہے۔
ایک فرق اور یہ جانا کہ مظلوم کو ملزم بنانے کا رواج معدومیت کی طرف مائل ہے۔ زلزلے کی وجوہات کا سرا نائٹ کلبز سے برآمد نہیں ہوتا۔ سیلاب کی آفت کا ہار بل بورڈز کے عریاں اشتہارات کے گلے میں نہیں ٹانگا جاتا۔ معاشی بدحالی کا جواز بائبل سے دوری بتائیے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اجتماعی توبہ سے قحط زدگان کی دلجوئی نہیں کی جاتی اور ریپ ہونے والی عورت کے لباس پر گفتگو نہیں کی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ سب ان اقدار کے پابند ہیں۔ ان معاشروں میں بھی ایسے دانشور موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ نائن الیون ان کے گناہوں کی سزا تھی یا ریپ ہونے والی عورت خود اس کی ذمہ دار ہے کہ اس کے اطوار اور اس کا لباس ”مناسب“ نہیں تھا۔ یہ منطق اس وقت ویسے ہی دم توڑ دیتی ہے جب چھوٹے بچے ریپ کا شکار ہوتے ہیں پر ایسے وقت یہ دانشور میڈیا، پورن فلمز اور بڑھتی ہوئی عمومی ”بے حیائی“ کو جواز بنا لیتے ہیں۔ ادھر اور ادھر فرق یہ ہے کہ وہاں یہ دانشور اقلیت میں ہیں اور یہاں اکثریت میں۔ وہاں یہ مین اسٹریم میڈیا میں نہیں ہیں اور یہاں مین اسٹریم میڈیا ہے ہی ان کے پاس۔ جہالت اور خواندگی کے تناسب پر تو بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے
بلجیئم کے شہر برسلز میں کچھ عرصہ پہلے ملبوسات کی ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ملبوسات کسی ماڈل نے زیب تن نہیں کیے اور نہ ہی ان پر کوئی فیشن لیبل موجود تھا۔ تمام ملبوسات الگ الگ شیشے کے شوکیسوں میں ٹنگے ہوئے تھے۔ کہیں جینز اور شرٹ تھی، کہیں منی اسکرٹ اور بلاوز، کہیں گھٹنوں تک طویل سکرٹ اور مکمل آستینیوں والا بلاوز۔ کہیں لو نیک ملبوس تھے تو کہیں بند گلے والے سویٹر۔ کوئی ٹی شرٹ تھی تو کوئی جیکٹ، کہیں پانچ سالہ بچی کا فراک تھا تو کہیں ادھیڑ عمر عورتوں کا مکمل سوٹ، اور تو اور عبایا اور گاون بھی نمائش میں موجود تھے۔ ان بھانت بھانت کے ملبوسات میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی ماسوائے اس کے کہ ان میں سے ہر لباس اس کے مالک نے اس دن پہنا ہوا تھا جب اس کا ریپ ہوا تھا۔ ہر لباس کے ساتھ ریپ کا شکار ہوئے مظلوم کا ایک ذاتی نوٹ موجود تھا۔
ایک بچی کے لباس کے ساتھ منسلک نوٹ پر لکھا تھا ” میں کچھ سمجھ ہی نہیں پائی۔ میں تو بس بھائی کے کمرے سے نکل کر ٹی وی والے کمرے میں جانا چاہتی تھی تاکہ کارٹون دیکھ سکوں“
ایک ٹی شرٹ کے ساتھ یہ نوٹ لگا تھا ” یہ روز کا معمول تھا۔ میں سکول سے لوٹتی تو میرا سوتیلا باپ گھر میں زیادتی کے لیے میرا منتظر ہوتا۔ ماں شام کو لوٹتی تو قیامت گزر چکی ہوتی“
ایک پولیس یونیفارم کے برابر لکھا تھا ”میری پولیس یونیفارم اور ہولسٹر میں موجود ریوالور بھی مجھے بچا نہیں پایا“
ایک پولیس یونیفارم کے برابر لکھا تھا ”میری پولیس یونیفارم اور ہولسٹر میں موجود ریوالور بھی مجھے بچا نہیں پایا“
نمایش کے ایک منتظم نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ” جب آپ ریپ کا شکار ہوئی ایک عورت سے یہ پوچھتے ہیں کہ اس وقت آپ نے کیا پہنا ہوا تھا تو آپ گویا اس مظلوم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ آپ ذمہ داری کا بار اس کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں وہ مظلوم بھی ہے اور مجرم بھی۔ یہ کیسا ظلم ہے“
ہم بحیثیت قوم اس نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں جہاں ہمیں مظلوم کو مجرم بنا کر تسلی ہوتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر حادثے اور سانحے کا شکار ہونے والا کسی نہ کسی درجے میں ذمہ دار ضرور ٹھہرے۔ اس سنگدلانہ رویے کے ساتھ ان مفروضات کو ملا لیجیے جو نسبتاً آزاد معاشروں کے بارے میں ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں تو پھر ایسی ایسی توجیہہ سننے کو ملتی ہے کہ جی کرتا ہے کہ جواز کے ساتھ ساتھ جواز تراشنے والے کو بھی دیوار پر مار دیا جائے۔
زینب کا قصہ ابھی چند دن کی بات ہے۔ جناب اوریا مقبول جان اور ان کے قبیلے کے دیگر دانشور حسب معمول پورن فلمز، خواتین کے بھڑکیلے ملبوسات اور میڈیا کی فحاشی کا راگ بجاتے نظر آئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ریپ اس جگہ بھی ہوتے ہیں جہاں خواتین برقعوں میں ملبوس ہوتی ہیں اور فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ کے میڈیم جہاں تک پہنچ نہیں رکھتے۔ میڈیا کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے بھی خواتین ریپ کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ مقدسات میں ہونے والے اجتماعات بھی جنسی ہراسانی سے محفوظ نہیں ہیں۔ پردہ کرنے والی یا پردہ نہ کرنے والی، ادھیڑ عمر یا کم سن، خوبصورت یا کم صورت ہر طرح کے مظلوم آپ کو ملیں گے۔
پر ہماری توجیہہ کے مطابق ہر لڑکی، ہر عورت اپنے ریپ کی خود ذمہ دار ہے۔ تنگ لباس کیوں پہنا، کھلا لباس پہنا تو دوپٹہ کیوں نہیں لیا۔ دوپٹہ لے لیا تو سر پر کیوں نہیں تھا، سر پر دوپٹہ لے ہی لیا تھا تو عبایا کیوں نہیں پہنی، عبایا پہن لی پر چہرہ کھلا رکھا۔ چہرہ ہی تو فتنے کی جڑ ہے۔ نقاب پوش ہے تو گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا تھی۔ عورت کا محل، اس کا قلعہ اس کا گھر ہے۔ بلاوجہ نامحرموں کے بیچ آئے تو پھر ریپ کی شکایت کیوں۔ یعنی عورت ہے تو ریپ کرنا تو ضروری ہو ہی گیا ہے۔ ہے تو بری بات پر عورت خود بھی تو اپنا جائزہ لے۔ اب ہمیں کون بتائے کہ ہمیں اپنے رویوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ پر ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اب بھی ایک تار تار لباس کی دھجیوں میں جرم کے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔
بشکریہ ہم سب