عاصمہ جہانگیر کے بارے میں شورش کاشمیری کی نظم


ڈاکٹر ساجد علی

کیا عجب دن طلوع ہوا ہے۔ اپنے سے عمر میں چھوٹے ایک دوست اور رفیق کار کے قل سے واپسی ہوئی تو ٹی وی پر قاضی واجد کی وفات کی خبر چل رہی تھی۔ ابھی قاضی واجد کے ڈراموں کی فلم ذہن میں چل رہی تھی کہ عاصمہ جہانگیر کی اندوہناک وفات کی  خبر ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہو گئی۔ کیسی جری اور شجاع عورت تھی، جس کی جرأت اور بہادری کی کہانیاں مدتوں بیان کی جائیں گی۔ کتنے لوگ ہمارے درمیان ایسے ہوں گے جو اپنی زندگی اپنے طے شدہ اصولوں کے تحت بسر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ بلاشبہ عاصمہ جہانگیر نے اپنے لیے جس راستے کا انتخاب کیا وہ بلا خوف اس راہ پر چلتی رہی اور کبھی اس کے قدم ڈگمگائے نہیں تھے۔ عورتوں ہی نہیں، وہ مردوں کے لیے بھی ایک مثال تھی۔ اپنی کم عمری میں وہ قانون کی عملداری کا پرچم اٹھائے میدان میں آئی اور پھر تادم آخر اس نے اس پرچم کو اپنے ہاتھ سے گرنے نہیں دیا۔
 اس وقت آغا شورش کی پینتالیس برس پرانی نظم یاد آ رہی ہے۔ اس نظم میں آغا صاحب نے ایک نوجوان  نڈر لڑکی کی بے پناہ تحسین کی تھی۔ آغا صاحب کی روح یقیناً شاد ہو گی کہ اس لڑکی نے اس کے لیے استعمال کیے گئے کلمات تحسین کی حرمت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ (آغا صاحب نے غلطی سے نام اسما جیلانی لکھا ہے)


بنتِ جیلانی پہ ہو لطفِ خدائے ذوالجلال
مائیں ایسی بیٹیاں جنتی ہیں لیکن خال خال
رات دن میری دعا ہے بارگاہِ قدس میں
جس کے گھر بیٹی ہو، وہ بیٹی ہو ایسی خوش خصال
خطہِ پنجاب سے مایوس ہوں لیکن ابھی
آ نہیں سکتا مسلمانوں کو اے شورش زوال
ایک اسما غیرتِ پنجاب کی للکار ہے
خوش نہاد و خوش سرشت و خوش دماغ و خوش خیال
ایک تتلی جس میں شیروں کے تہور کی جھلک
ایک کونپل جس کی آب و تاب میں سحر و جلال
ایسی چنگاری ابھی تک اپنی خاکستر میں ہے
تیز رو، شمشیرِ براں، بے نظیر و باکمال
دبلی پتلی ایک لڑکی شبنمی انداز کی
ہیچ اس کے روبرو لیکن پہاڑوں کا جلال
اپنی امی کی جگرداری کا نقش دل پذیر
اپنے ابا کے سیاسی ولولوں سے مالا مال
وہ کسی افتاد بے ہنگام سے ڈرتی نہیں
آ کے ڈٹ جائے سر میداں تو پھر رکنا محال


بشکریہ ہم سب