گیارہ
بارہ سال کی غیرشادی شدہ بچی کا ابارشن کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب بھی
ابارشن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس انتہائی تکلیف دہ عمل کو برداشت کرنا بھی ایک
مسئلہ ہی ہوتا ہے، اس بچی کے لیے بھی اور اس ڈاکٹر کے لیے بھی جو اس بچی کی مدد
کررہا ہوتا ہے۔ اس دن بھی یہی ہوا تھا۔
وہ
غریب لوگ تھے۔ شوہر اور بیوی دونوں ہی کام کاج کرکے گھر چلارہے تھے۔ ماں باپ کی
ذمہ داری تھی، چھوٹے بھائی بہنوں کا بوجھ تھا پھر ان کے اپنے تین بچے۔ زندگی کی
گاڑی کو چلانے کے لیے کام تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ گاڑی بھی تیل مانگتی ہے اور تیل
کبھی بھی مفت نہیں ملتا ہے۔ خون پسینے کی کمائی سے زندگی کی گاڑی کے پہیے گھوم رہے
تھے۔
ماں باپ کچھ زیادہ عمر کے نہیں تھے مگر مستقل طور پر بیماریوں کے شکار تھے۔ ماں کو
ذیابیطس تھا اور باپ کو مستقل طور پر بلڈ پریشر کی تکلیف تھی۔ ایک اچھی خاصی رقم
ہر ماہ ان دونوں کی دواؤں پر خرچ ہوتی تھی۔ دونوں میاں بیوی نے دن رات محنت کرکے
پیسے جوڑے اور دو چھوٹی بہنوں کی شادی کردی تھی اوراب یہی امید تھی کہ چھوٹے بھائی
کی نوکری اور مزید بچت کر کے آخری بہن کی بھی شادی کردی جائے گی۔
مسئلہ
تو حل ہوجائے گا، میں نے انہیں تسلی دی تھی لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوا؟
ماں اور بیٹی دونوں نے رونا شروع کردیا تھا۔
ماں اور بیٹی دونوں نے رونا شروع کردیا تھا۔
میرا
کلیجہ جیسے میرے منہ کو آگیا۔ وہ دونوں کوئی ایکٹنگ نہیں کررہے تھے۔ یہ تو روز ہی
ہوتا ہے۔ ہر تھوڑے دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی لڑکی اپنی ماں، بڑی بہن یا خالہ کے
ساتھ آجاتی ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور اب وہ حاملہ ہے۔ کوئی ماں باپ
آجاتے ہیں کہ بیٹی کی منگنی کردی تھی مگر اب منگیتر کے خاندان نے منگنی توڑدی ہے
اور بچی حاملہ ہے۔ کوئی بچی آجاتی ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، کالج، یونیورسٹی
کا ایک دوست تھا۔ اس نے ماں باپ کو گھر بھیجنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ ماں باپ گھر
آئے نہ اب اس کا پتا ہے اور لڑکی حاملہ ہے۔ یہ تو وہ لڑکیاں، بچیاں تھیں جو پہنچ
جاتی تھیں لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا تھا یہ غیرشادی شدہ لڑکیاں کسی دائی، کسی
غیرتربیت یافتہ آیا، کسی غیرقانونی جگہ پر پہنچ جاتی تھیں جہاں آج بھی ایسے ایسے
طریقوں سے ابارشن کیا جاتا ہے جس کے بعد نہ جانے یہ لڑکیاں بچ کیسے جاتی ہیں۔
مجھے ابھی تک وہ معصوم سی سولہ سترہ سال کی لڑکی یاد ہے جسے اس کے ماں باپ سخت
بخار میں لے کر آئے تھے۔ انہیں کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ اس بچی نے انہیں کچھ بھی
نہیں بتایا تھا۔ کیسے بتاسکتی تھی۔ کیا ہوتا ہے ہمارے ملک میں۔ کون پکڑتا ہے ان
لوگو ں کو جنہوں نے ان بچیوں کو پامال کیا ہوتا ہے۔ اسے بھی دوست بنا کر مستقبل کے
لارے لپے دے کر بیوقوف بنایا گیا ہوگا یا کسی جگہ گھیر کر پکڑ کر اس سے زیادتی کی
ہوگی۔ پھر ہونے والی بات تھی اس کا حمل ٹھہر گیا۔ اس کی پریشانی کا اندازہ لگانا
آسان نہیں تھا۔ متوسط گھرانے کے لوگوں میں اس قسم کے واقعات کے بعد کیا ہوتا ہے۔
کون اپنے ماں باپ کو بتاتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ کچھ ہوگیا ہے۔ ڈر، خوف، بدنامی،
سماج میں یہ سب کچھ ہے لیکن ان کے مسئلے کو حل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ کوئی مدد
نہیں کرتا ہے ان بچیوں کی، وہ بھٹکتی رہتی ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ شاید خوش قسمت
ہوتی ہیں وہ بچیاں جنہیں پامال کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔
دس
ہفتے گزرنے کے بعد وہ کسی سہیلی کے ذریعے سے ایک چھوٹی سی گندی سی جگہ گئی تھی، دو
ہزار روپے دے کر ابارشن کرایا تھا لیکن ابارشن کرانے کے دوسرے دن ہی اسے بخار نے
جکڑلیا تھا۔ ماں باپ بے چارے کیا کرتے، محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے جس نے
بخار سے چھٹکارے کے لیے اینٹی بایوٹک دے دیا تھا۔ اینٹی بایوٹک سے کیا ہوتا، کچھ
بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
ابارشن
کرنے والی آیا نے اس کی بچہ دانی میں سوراخ کردیا تھا۔ بچہ دانی سے حمل گرانے کے
لیے شاید سوئٹر بُننے والی سلائی استعمال کی تھی یا کوئی ایسا اوزار جو وہ استعمال
کرنا نہیں جانتی تھی۔ پہلے بچہ دانی میں سوراخ ہوا ہوگا پھر اس سوراخ کے ذریعے سے
پیٹ کے اندر چھوٹی آنت زخمی کردی گئی ہوگی جہاں سے آنتوں میں موجود جراثیم سے بھرا
ہوا مواد پیٹ میں آکر جذب ہوا ہوگا پھر اسے انفیکشن ہوا، بخار ہوا۔ نہ اس نے اپنے
گھر والوں کوبتایا اور نہ ہی اس ڈاکٹر کو جس کے پاس اسے لے جایا گیا تھا۔ اُس کی
حالت خراب ہی ہوتی چلی گئی تھی۔
سرکاری ہسپتال کے کیزولٹی میں اسے نیم بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا۔ جسم سے اٹھنے
والی بدبو سے کیزولٹی کے ڈاکٹر کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے میرے وارڈ میں ہونا
چاہیے۔
وارڈ میں داخل کرتے ہی اسے آپریشن تھیٹر لے گئے۔ میں نے اس کے والدین کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ کیا فائدہ ہوتا انہیں دکھ دینے کا۔ بچی اگر بچ جاتی تو شاید بتادیتا ہم لوگ اسے بچا نہیں سکے تھے۔
وارڈ میں داخل کرتے ہی اسے آپریشن تھیٹر لے گئے۔ میں نے اس کے والدین کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ کیا فائدہ ہوتا انہیں دکھ دینے کا۔ بچی اگر بچ جاتی تو شاید بتادیتا ہم لوگ اسے بچا نہیں سکے تھے۔
پیٹ
کھولتے ہی زخمی آنتوں سے رِستا ہوا پاخانہ نظر آگیا تھا۔ پیٹ کو اچھی طرح سے صاف
کیا، دھویا، آنتوں کو سلائی کرکے جوڑا، سڑتے ہوئے بچہ دانی کو نکال دیا۔ مہنگے
ترین اینٹی بایوٹک دیے، بچی کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا، سانس لینے
کی مشین پر رکھا گیا مگر تین دن تک زندگی اور موت کے درمیان ہچکولے لیتی ہوئی آخر
وہ مرگئی، کسی کو بتائے بغیر کے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
اس
کی موت کے بعد بھی میں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ اس کے والدین کو کچھ نہ بتاؤں۔
بتانے سے اس کے علاوہ کیا ہوتا کہ وہ بے چارے خود ہی کو دوشی قرار دیتے۔ میاں بیوی
ایک دوسرے کو الزام دیتے، شاید ذمہ دار مجرم کو تلاش کرتے جس کا وہ کچھ بگاڑ نہیں
سکتے تھے۔ زندگی ایسی زندگی کو مزید پیچیدہ بنانے کی کیا ضرورت تھی اب تو میں بھول
ہی گیا ہوں کہ اس طرح کتنی بار ہوچکا ہے۔
اس
بچی کی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اسے پامال کرنے والا اسکول کی وین کا
ڈرائیورتھا۔ اسکول لانے لے جانے کے دوران ایک دن ایک ویرانے میں لے جا کر اسے
پامال کیا گیا تھا۔ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ بچی نے کسی کو نہیں بتایا مگر جب
ماہواری کو بند ہوئے دو ماہ ہوگئے تو روتے بلکتے ہوئے اس نے اپنی ماں کو اپنی
پامالی کی داستان سنائی تھی۔
ماں کیا کرتی۔ شوہر کوبتاتی تو جھگڑا ہی ہوتا، دیور کو بتاتی تو وہ کیا کرسکتا
تھا۔ اس کی تو سمجھ میں نہیں آیا کہ اس مسئلے کو کیسے حل کرے مگر قسمت اسے ایک
اچھی لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی جس نے مسئلے کو سمجھا اور میرے پاس سرکاری
ہسپتال میں بھیج دیا تھا۔
میں
روزانہ ہی کراچی میں ان اسکول لانے لے جانے والوں کی چھوٹی چھوٹی سوزکیاں دیکھتا
ہوں جس میں بچے قیدیوں کی طرح ٹھونس ٹھونس کر بھرے جاتے ہیں۔ خطرناک ڈرائیور انہیں
اس ٹریفک کے اژدھام میں نکال کر لے جاتے ہیں جو ٹریفک نہ تو ایمبولینس کو راستہ
دیتی ہے اور نہ ہی اسکول کے بچے بچیوں کو پہچانتی ہے۔
یہ
ٹریفک تو ان پولیس والوں کو پہچانتی ہے جو وزیر، مشیر، گورنر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم
اور صدر صاحب کی گاڑیوں کو نکلنے کے لیے انہیں روکتے ہیں۔ ان ججوں اور اعلیُ حکام
کی گاڑیوں کے آگے پیچھے پولیس کی کاروں کو پہچانتی ہے جو انہیں ٹریفک کی بھیڑ سے
نکال کر لے جاتے ہیں، ان عوام سے دور، ان لوگوں سے بچ کر جن کے ووٹوں، نعروں،
جلسوں، جلوسوں سے انہیں اقتدار ملتا ہے۔ جن کے دم پر وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے
ہیں، جن پر محصول اور ٹیکس لگا کر ان کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ جن کی ہڈیوں کو چوس کر
جسموں کوکچل کر اِن کی تجوریوں کو بھرا جاتا ہے۔
میں صرف سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔ کیسا دیس ہے ہمارا، کیسے لوگ ہیں ہم لوگ اپنے ایٹم بموں، لڑاکا جہازوں اور آبدوزوں کے ساتھ اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں۔ ان بچوں کو ان پھولوں کو بسیں کچل دیتی ہیں، یہ سڑکوں پر جان سے چلے جاتے ہیں، ان کو اسکول لانے لے جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور پامال کرتے ہیں اور نظام کچھ بھی نہیں کرتا ہے، کچھ بھی نہیں کرسکتا ہے۔
میں صرف سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔ کیسا دیس ہے ہمارا، کیسے لوگ ہیں ہم لوگ اپنے ایٹم بموں، لڑاکا جہازوں اور آبدوزوں کے ساتھ اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں۔ ان بچوں کو ان پھولوں کو بسیں کچل دیتی ہیں، یہ سڑکوں پر جان سے چلے جاتے ہیں، ان کو اسکول لانے لے جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور پامال کرتے ہیں اور نظام کچھ بھی نہیں کرتا ہے، کچھ بھی نہیں کرسکتا ہے۔
اسے میں نے صبح صبح ہسپتال بلایا تھا تاکہ سہ پہر تک وہ گھر واپس چلی جائے۔ ایک دن
بھی ہسپتال میں رہنے سے دس قسم کے سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سب سوالوں کا جواب
دینا آسان نہیں ہوتا ہے۔ میں اسے سیدھا آپریشن تھیٹر لے گیا تھا، ایک مہربان بے
ہوشی کے ڈاکٹر نے اسے بے ہوش کیا اور میں نے بچہ دانی کی صفائی کردی تھی۔ اسے تین
گھنٹہ آپریشن تھیٹر میں ہی رکھا تھا جس کے بعد وہ اپنی ماں کے ساتھ گھر چلی گئی
تھی۔ اس کی ماں کی جھلملاتی آنکھیں مجھے یاد رہ گئی تھیں۔ ماؤں کی قسمت میں
جھلملاتی آنکھیں ہی ہوتی ہیں۔
اس
واقعہ کو نہ جانے کتنا وقت گزرگیا تھا۔ مجھے نہ وہ یاد رہی تھی اور نہ ہی اس کی
ماں۔ وقت کا دھارا یادوں کو بھلا کر لے جاتا ہے۔ اس قسم کی یادیں نہ ہی رہیں تو
بہتر ہے۔
ایک
دن آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے کمرے میں ایک لڑکی اجازت لے کر داخل ہوئی اور
میرے سر ہلانے پر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں
سے دیکھا تھا۔
آپ نے مجھے نہیں پہچانا ہوگا۔ اس نے آہستہ سے کہا تھا۔
آپ نے مجھے نہیں پہچانا ہوگا۔ اس نے آہستہ سے کہا تھا۔
نہیں
میں نے نہیں پہچانا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا ہے کہ میں تم سے کبھی بھی کہیں ملا ہوں۔
میں نے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔
آپ نے میرا ابارشن کیا تھا سر۔ اس نے آہستہ مگر بڑے مستحکم انداز میں کہا تھا۔
آپ نے میرا ابارشن کیا تھا سر۔ اس نے آہستہ مگر بڑے مستحکم انداز میں کہا تھا۔
میں
حیران ہوگیا۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا ہے، ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ لوگ ابارشن
کو چھپاتے ہیں۔ یہ لفظ ایک گالی ہے۔ ایک ایسے رشتے کا اقرار ہے جو ناجائز ہوتا ہے
یہ لفظ گناہ کا اعلان ہے، ایک دعوت ہے کہ اسے سنگسار کردیا جائے، پتھروں سے مار
مار کر اس کی جان لے لی جائے۔ یہ لڑکی کیوں اپنے ابارشن کا اقرار کررہی ہے۔ میں نے
کیا ہوگا مگر آج تک کسی نے آکر اس طرح سے ابارشن کا اقرار نہیں کیا تھا۔ میں
حیرانی سے اسے تک رہا تھا۔
میں
اسکول میں تھی، دسویں کلاس میں جب اسکول کی ویگن کے ڈرائیور نے مجھ سے زیادتی کی
تھی اور میرا حمل ٹھہرگیا تھا۔ میری ماں مجھے آپ کے پاس لے کر آئی تھیں۔ آپ نے کچھ
بھی نہیں پوچھا تھا۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی پھر بغیر آواز کے اس کی آنکھوں سے
آنسوؤں نے ابلنا شروع کردیا تھا جیسے کوئی آبشار برستا ہے۔
اس
دن کے بعدسے میری ماں کا چین، سکھ، سکون سب کچھ لُٹ گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ
دوبارہ بولی۔ لیکن اس دن جب شام کو وہ مجھے واپس گھر لے کر آئی تھیں تو مجھے ایسا
لگا تھا کہ ان کے کاندھوں سے جیسے کوئی پہاڑ اُتر گیا ہے۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز
میں سسکتے ہوئے کہا تھا۔
مجھے
نہ یہ لڑکی یاد آئی اور نہ ہی اس کی ماں یاد آئی تھی۔ اس قسم کے بہت سے واقعات
ہوئے تھے اور میں نے ان خاندانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی جو بحیثیت ڈاکٹر مجھے
کرنا ہی چاہیے تھا۔ میں خاموشی سے اس کے آنکھوں سے برستی برسات کو دیکھ رہا تھا۔
میں
ڈاکٹر بن گئی ہوں۔ پرسوں ہی نتیجہ آیا ہے، میں اس لیے ڈاکٹر بن گئی کہ اس دن کے
بعد سے میری ماں میرے پیچھے تھیں، ہر وقت چوکس کسی شیرنی کی طرح میری حفاظت کی تھی
انہوں نے۔ اس دن کے بعد سے میں ایک دن بھی ویگن میں نہیں بیٹھی۔ جب تک میرا داخلہ
میڈیکل کالج میں نہیں ہوا وہ میرے ساتھ رہیں سائے کی طرح۔ کوئی بھی مجھے ہاتھ نہیں
لگاسکتا تھا۔
جب
میرا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا تو انہوں نے کہا تھا اب تم اپنی حفاظت خود کرنے
کے قابل ہوگئی ہو لیکن جب ڈاکٹر بن جانا تو اس ڈاکٹر کے پاس ضرور جانا جس نے میری
اور تمہاری عزت بچالی تھی۔ میں تمہیں خود لے کر جاؤں گی۔ اس دن تو میں ان کو
شکریہ بھی نہیں کہہ سکی تھی۔ مجھے ساتھ لانے سے پہلے پچھلے سال ان کا انتقال
ہوگیا۔
نہ
جانے کیوں میرے آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، کیسی ہوتی ہیں یہ عورتیں، کیا کیا چھُپا
کے رکھتی ہیں دل میں، کس کس طرح سے شکریہ کہتی ہیں، کیسے کیسے حالات سے نمٹتی ہیں،
زندگی سے بھڑتی ہیں، جان دیدیتی ہیں ایسے بچوں کے لیے!
مرنے
سے پہلے بھی ایک آخری بات یہی کہی تھی انہوں نے کہ جب میں ڈاکٹر بن جاؤں تو آپ کو
شکریہ کہوں۔ اگر آپ نہیں ہوتے تو آج میں یہاں نہیں ہوتی، میں شکریہ کہنے آئی ہوں۔
مجھے ایسا لگا جیسے اوپر بہت اوپر اسمانوں کے اس پار دور بہت دور دو شفیق جھلملاتی آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔
مجھے ایسا لگا جیسے اوپر بہت اوپر اسمانوں کے اس پار دور بہت دور دو شفیق جھلملاتی آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔
بشکریہ ہم سب