ہر طبقے کی اپنی نفسیات، اپنے روئیے، اپنی عادات اور اپنے مسائل
ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا تعلق جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقوں سے ہے ، اس لئے
ان طبقات کے بارے میں تو بہت بات ہوتی ہے لیکن تنخواہ دار طبقے کے بارے میں اس طرح
سے کم ہی سوچا اور لکھا جاتا ہے۔ جب میں تنخواہ دار طبقے کے بارے میں سوچتی ہوں تو
بچپن میں ریڈیو سےلون سے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو بجنے والا گانا ”خوشیاں مناﺅ آج
پہلی تاریخ ہے“ یاد آ جاتا ہے۔ ان گھرانوں میں ’پہلی تاریخ‘ کی کیا اہمیت ہے، اس سے
بچے بھی اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ مہینا بھر وہ ماں سے جو بھی چیز خریدنے کو کہتے
ہیں، یہی جواب ملتا ہے” پہلی کے بعد خرید دوں گی“۔
میرا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے، ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں میرے
والد بس میں سفر کر کے دفتر جاتے تھے لیکن پہلی تاریخ کو وہ رکشے میں گھر آیا کرتے
تھے کیونکہ جیب میں تنخواہ ہوتی تھی اور پہلی تاریخ کو بسوں میں جیب کترے ہاتھ کی
صفائی دکھاتے تھے۔ میرا خیال ہے پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر پہلی تحقیق حمزہ
علوی نے کی تھی بلکہ یہ اصطلاح بھی انہوں نے وضع کی تھی، ان کا خیال تھا کہ بر
صغیر میں سارے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اختلافات نہیں تھے بلکہ تنخواہ دار
یعنی نوکری پیشہ مسلمانوں اور ہندووئں کی ملازمتوں کے حصول کے لئے باہمی مسابقت نے
اختلافات کو جنم دیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد سندھی بولنے والے اور اردو بولنے
والے سندھیوں کے درمیان اختلافات کا سبب بھی یہی تھا یعنی سرکاری ملازمتوں کا
حصول۔ اور جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے معاشی مسئلوں کی بنیاد پر ہی سیاست کی جاتی ہے۔
چنانچہ قوم پرستوں کی سیاست سندھی بولنے والوں کو اور بعد میں پاکستان کے سیاسی
منظر پر نمودار ہونے والی ایم کیو ایم کی سیاست اردو بولنے والوں کو زیادہ سے
زیادہ ملازمتیں دلوانے اور اس سے پہلے کوٹے پر تعلیمی اداروں میں داخلے اور ڈگریاں
دلوانے پر مرکوز رہی۔ سیاسی اداکاروں کی چپقلش اور رسہ کشی کا نتیجہ میرٹ کے قتل
عام اور اداروں کے انحطاط کی شکل میں ظاہر ہوا اور آج یہ حال ہے کہ ہماری کسی بھی
یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں نہیں ہوتا۔ ہمارے طلبا کو باہر
جا کے دوبارہ امتحان میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ ملکی اداروں کا برا حال ہے ۔ ہر ادارے
میں نا اہل لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم کسی بھی شعبے میں باہر کی دنیا سے مقابلہ کرنے
کے قابل نہیں رہے۔
جہاں تک میرے ذاتی مشاہدے کا تعلق ہے یا جیسا میں نے اپنے بزرگوں کو دیکھا یا ان
سے سنا، سرکاری نوکریاں کرنے والے مسلمانوں کی اکثریت قیام پاکستان کی حامی تھی۔
برطانوی حکومت نے تقسیم کے وقت ان سے پوچھا تھا کہ وہ ہندوستان میں رہیں گے یا
پاکستان میں اور پھر وہ فوج کی نگرانی میں ٹرینوں میں سفر کر کے پاکستان پہنچے تھے
جب کہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں بھرے پرے گھر چھوڑ کے ہجرت کرنے
والے دونوں طرف قتل و غارت گری کا شکار ہوئے۔ یہ طبقہ انتہائی محب وطن تھا اور
پاکستان کی ترقی کا سچے دل سے خواہاں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ان کے رول ماڈل
تھے اور وہ ان ہی کی طرح ماڈرن لائف اسٹائل اپنائے ہوئے ترقی کے مغربی ماڈل کے
چاہنے والوں میں سے تھے۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد یہ طبقہ بے سمتی کا شکار ہوتا
چلا گیا۔ سول بیوروکریسی میں ہجرت کر کے آنے والوں کو بالا دستی حاصل تھی، اسی سول
بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد علی وزیر اعظم اور غلام محمد گورنر
جنرل بنے۔ آئین بننے میں دیر ہوئی اور 1956 میں پہلا آئین بنا لیکن 1958 میں ایوب
خان کا مارشل لا آگیا اور اس کے ساتھ فوجی بیوروکریسی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ حمزہ
علوی کے مطابق پاکستان کی تخلیق کے بعد کے ابتدائی عرصہ میں سول اور فوجی اشرافیہ
کا گٹھ جوڑ بن گیا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقہ یا مڈل کلاس بھی
سامنے آ رہی تھی اور ہر ادارے میں خواہ فوج ہو یا شہری انتظامیہ، سارے معاملات کو
یہی طبقہ چلا رہا تھا۔
حمزہ علوی کے تھیسس کے مطابق پاکستان میں ساری سیاسی تحریکوں کی
قیادت خواہ نیشنلسٹ ہوں یا کوئی اور، تنخواہ دار مڈل کلاس طبقے کے ہاتھوں میں رہی
ہے۔ جب ہم طبقوں کی بات کرتے ہیں تو لا محالہ مارکس یاد آتا ہے ،جس نے طبقاتی درجہ
بندی ذرائع پیداوار کی ملکیت کی بنا پر کی تھی۔ موجودہ دور میں پاکستان میں ایک
محقق کے مطابق ’سڑکوں پر نظر آنے والی درجہ بندی ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔
غریب لوگ مسافروں سے ٹھنسی ہوئی بسوں یا بائیسکل پر سفر کرتے ہیں۔ چھوٹے دکاندار
یا کاروباری لوگ، اساتذہ اور ان کے جتنی تنخواہ پانے والے دیگر ملازمت پیشہ لوگ
موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں۔ پھر مہران کاریں چلانے والوں کا نمبر آتا ہے۔ دراصل
یہی مڈل کلاس ہے۔ ان سے اوپر ٹویوٹا کاروں والے اور ان سے بھی اوپر پجارو اور فور
وہیل گاڑیوں والے ہیں جو مقام مرتبے میں برتر ہو سکتے ہیں لیکن سڑکوں پر حکمرانی
مہران کاروں کی ہے، کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں‘۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں مڈل
کلاس بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا
رحجان بھی دیگر طبقات سے زیادہ ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بے شک جاگیر دار، سردار،
صنعت کار اور سرمایہ داروں کا بسیرا رہا ہے۔ لیکن مڈل کلاس کی سماجی اور اقتصادی
اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سول اور فوجی بیوروکریسی کے علاوہ اس طبقے میں
ڈاکٹرز، وکلا، کاروباری افراد، صحافی اور دیگر شامل ہیں۔ مجموعی طور پر مایوس کن
صورتحال کے باوجود انفرادی طور پر اس طبقے کے لوگ اب بھی کارنامے کر دکھاتے ہیں
اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔ ارفع کریم رندھاوا ہو یا ملالہ یوسف
زئی یا ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرنے والی ثمینہ بیگ۔ ہر پاکستانی کو ان پر فخر ہے۔
ماہرین اقتصادیات مڈل کلاس طبقے سے بہت امیدیں رکھتے ہیں اور اس کی
تعداد میں اضافے کو ترقی کا اشاریہ سمجھتے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی
عرصہ میں ملازمت پیشہ طبقہ کی بڑی تعداد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں پر
مشتمل تھی لیکن آج کراچی جیسے بڑے شہر میں دیہی علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے
والے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ سیاسی مفادات پیوستہ سے قطع نظر ان کی نئی نسل جو
یہاں اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، اپنے والدین کے برعکس صحیح معنوں میں
قدیم رواجوں اور تعصبات سے آزاد ایک ماڈرن شہری مڈل کلاس بن کر سامنے آئے گی۔
بشکریہ ہم سب