وہ اپنی بچی کو مارنا نہیں چاہتی تھی

 
”تم رنڈی ہو“
”رنڈی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طوائف ہو، طوائف ہو تم“
”گندی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملچھہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھنال“
”رنڈی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رنڈی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رنڈی“
”یہ آوازیں میرے کان میں آتی ہیں رفیق، میں کیا کروں۔ “ سیما نے میرے ہاتھوں کو زور سے پکڑ کر دبایا اور آنسو بھری بڑی بڑی آنکھوں سے میر ی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
میں نے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سمجھایا کہ نہیں سیما یہ سب بکواس ہے بے کار کی باتیں ہیں کچھ بھی نہیں ہے محض وہم ہے تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی کیوں کہے گا ایسی باتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گندی باتیں، تم نے کوئی خواب دیکھ لیا ہے۔
کاش یہ سب کچھ وہم ہوتا، محض وہم ہی ہوتا، ایک بُرا خواب ہوتا مگر یہ سب کچھ وہم نہیں تھا، بُرا خواب نہیں تھا، میری لاپرواہی تھی، میری لاعلمی تھی میری جہالت تھی۔
مگر میں کرتا بھی کیا۔ نہیں میں بہت کچھ کرسکتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر تھامیں کمپیوٹر کی دنیا میں نام تھا میرا۔ انٹرنیٹ پر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا تھا میں۔ لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے مجھے تلاش کرتے تھے۔ ان کے کمپیوٹر کے مسائل کو حل کرتا تھا میں۔ ان کے ان پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرلیتا جو کوئی بھی نہیں حل کرسکتا تھا۔ میں کمپیوٹر کے مسائل دیکھتا رہا، میری سیما اپنے مسئلوں میں اُلجھتی رہی میں کمپنیوں کے، لوگوں کے، کارپوریشن کے، ملٹی نیشنل کے ہارڈسک کے اندر گھس کر انہیں سیدھا کرتا رہا، میری سیما کی ہلکی سی روح اپنے جہنم میں جلتی رہی۔ میں کچھ کرسکتا تھا نہیں کرسکا۔ یہ کیا زندگی ہے، کیسا جیون ہے، میں کدھر آگیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کر بیٹھا ہوں اپنے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیما کے ساتھ۔
وہ میری زندگی میں ایک خوشبو کی طرح آئی پھر اس نے آہستہ آہستہ میرے چاروں طرف خوشبوؤں اور خوشیوں کی برسات کردی۔ اس نے سب کچھ بدل دیا میرا۔ میں نیا نیا امریکہ سے آئی ٹی میں ماسٹرز کرکے آیا تھا، سوچا تو نہیں تھا کہ پاکستان میں رہوں گا۔ خیال تھا کہ شادی کروں گا، کچھ مہینے خوب گھوموں گا، کبھی سوات، کبھی چترال، کبھی کوئٹہ، کبھی کشمیر۔ کافی جمع شدہ اثاثہ تھا میرے پاس، پھر اس دوران بیوی کے ویزا وغیرہ کا مسئلہ حل ہوجائے تو پھر دوبارہ امریکہ چلا جاؤں گا۔ سلی کون ویلی میں میرے لیے نوکریوں کی کمی نہیں تھی۔
لیکن ایسا ہوا نہیں۔ امی کو سیما مل گئی، کراچی یونیورسٹی سے باٹنی میں ماسٹرز کیا تھا اس نے اور عبداللہ کالج میں نئی نئی لیکچرر اپائنٹ ہوئی تھی۔ میری بھانجی بھی عبداللہ کالج میں فرسٹ ایئر میں پڑھ رہی تھی اس نے میڈم سیما کی تعریفوں کے پل باندھ دیے، میری بہن کے سامنے پھر باجی اور امی دونوں ہی عبداللہ کالج جا کر مل آئیں اس سے۔
میری تو کوئی خاص پسند نہیں تھی بس اتنی سی فرمائش کی میں نے کہ امی جب ساتھ چلے تو لوگ ڈرنہ جائیں۔
جب تو ساتھ چلے گا اس کے تو لوگ تجھ سے ڈر جائیں گے، اس سے نہیں، ایسی ہی بھولی بھالی سی ہے وہ۔ امی نے بڑے پیار سے کہا تھا۔
امی اور باجی کے ہاں کرنے کے بعد میرا نہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ پھر بہت ہی شوق سے ہم دونوں کی شادی ہوگئی اور شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد جب ہم دونوں مری سے ہوتے ہوئے اور اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں اس کے ویزا کے لیے درخواست ڈال کر واپس کراچی پہنچے تو میں نے ڈان اخبار میں دیکھ کر ایک درخواست امریکن آئل کمپنی میں ڈال دی۔ اس کمپنی نے کراچی میں آفس کھولا تھا اور اندرون سندھ تیل کے لیے کھدائی کا کام شروع کیا تھا۔
ان لوگوں نے کراچی میں ہی مجھے اتنی زیادہ تنخواہ کی پیشکش کردی کہ میں نے امریکہ واپس جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ امی کی نظروں میں سیما کی قدر بڑھ گئی، ان کا خیال تھا کہ سیما نے مجھے قائل کیا ہے کہ میں کراچی چھوڑ کر نہ جاؤں ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو فوراً ہی امریکہ روانہ ہوجاتی ہیں۔ جتنی جلدی سسرال کے کانٹوں منڈوں سے نجات ملے اتنا ہی اچھا ہے۔ شاید بات صحیح بھی تھی۔ باٹنی کی اس پروفیسر میں امریکہ جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اس نے مجھے بے پناہ چاہا اورمیں بھی اسے بے انتہا پوجتا رہا تھا۔
چار سال تو بس دیکھتے دیکھتے گزرگئے تھے، کبھی کراچی، کبھی دبئی، کبھی سنگاپور اور کبھی ملائیشیا۔ کمپنی کے چکروں میں مجھے ان جگہوں پر جانا پڑتا اور سیما میرے ساتھ ہوتی۔ امریکہ میں آٹھ سال گزار کر میں نے اتنی عیاشی نہیں کی جو مزے سیما کے ساتھ اُٹھائے میں نے۔
امریکہ میں تو پڑھائی تھی پھر کام اور مزید کام اپنی حیثیت منوانے کے شوق میں کام ہی کام۔ جب میں نے ماسٹرز کرلیا تو پھر یہ لگن کے بہت جلد اتنا کام کروں کہ کبھی بے روزگار ہونے کی نوبت نہ آئے اور ہوا بھی یہی۔ ماسٹرز کے بعد دو سال میں نے صرف کام کیا اور صرف ڈالر کمائے جس کے نتیجے میں آئی ٹی کی مارکیٹ میں میری ساکھ بنی اور امریکہ کے بعد کراچی تک مجھے تنخواہ وہی دی گئی جو شاید مجھے سلی کون ویلی میں ہی ملتی۔
شروع کے دو سال تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ فی الحال بچوں کی ضرورت نہیں ہے اور بعد کے دو سال گزرنے کے بعد ہم نے سوچنا ہی شروع کیا تھا کہ کسی گائناکولوجسٹ کے پاس جائیں، حمل کے لیے کچھ علاج کرائیں کہ وہ حاملہ ہوگئی۔ ہم دونوں کا دل جھوم جھوم کر گایا تھا بار بار۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے نو مہینے کے ایک ایک دن کا حساب میرے پاس ہے۔ کب اُلٹیاں شروع ہوئیں، کب پرگننسی ٹیسٹ پازیٹو نکلا، پہلا الٹرا ساؤنڈ پہلی وزٹ، کب الٹرا ساؤنڈ پر بچّے کا دل دھڑکنا شروع ہوا، کب سیما نے اپنے پیٹ میں بچّے کی حرکت محسوس کی، سب کچھ ایک خواب کی طرح میرے دماغ میں محفوظ ہے۔
آج بھی اپنے کمرے میں آنکھیں بند کرکے لیٹتا ہوں تو آہستہ آہستہ سب کچھ دھیرے دھیرے ذہن کے پردے پر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ سیما کے حمل کے ساتھ ساتھ میں بھی گائناکولوجسٹ بنتا جارہا تھا۔ ہر ہفتے دو دو تین تین دفعہ انٹرنیٹ پر جا کر حمل اورحمل کے مسائل کو پڑھتا رہتا۔ کچھ سمجھ میں آتا اور کچھ سمجھ سے باہر ہوتا پھر سیما کی گائناکولوجسٹ سے ہر طرح کے سوالات کرتا، جو جواب وہ دیتی اس سے زیادہ تو مجھے انٹرنیٹ سے پتہ رہتا تھا لیکن پھر بھی نہ جانے ایک خواہش سی ہوتی کہ یہ بھی پوچھ لوں وہ بھی پوچھ لوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی ہی محبت تھی سیما سے مجھے۔ ٹوٹ کر چاہا تھا اسے اور اگر بس چلتا تو شاید کسی سیف میں احتیاط سے تالے میں بند کرکے رکھتا اسے۔ میری بچّی کی ماں بننے والی تھی وہ۔سولہویں ہفتے کے آخر میں جب اس کا الٹراساؤنڈ ہوا تو ہمیں پتہ لگ گیا تھا کہ وہ لڑکی ہے۔ میری پیاری بیٹی۔ میں نے فوراً ہی کہہ دیا تھا کہ بانو نام ہوگا اس کا، مجھے پرانے نام پسند تھے۔ میری ایک خالہ جنہوں نے بچپن میں مجھے بہت پیار کیا تھا ان کا نام بھی بانو تھا۔ وہ اپنے پہلے بچّے کی پیدائش کے دوران نہ جانے کیسے موت کا شکار ہوگئی تھیں۔ ان کا پیار بھرا، مہربان چہرہ میرے ذہن کی کسی تہہ میں محفوظ تھا۔ سیما نے کہا تھا کہ نہیں یہ کنول ہوگی، ہماری کنول۔ بانو توبہت پرانا نام ہے۔ ہم دونوں ہنس دیے تھے۔ اچھا تو تم اسے کنول کہنا، میں اسے بانو پکاروں گا۔ گھر میں وہ کنول ہوگی اسکول میں بانو۔ آخر دو دو نام بھی تو ہوتے ہیں۔ ہم دونوں پھر ہنس دیے اور پھر روز ہی ہنستے رہے تھے۔
ہمارے گھر میں ہر وقت ہی آنے والے مہمان کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس کے پنک کپڑے بن رہے تھے، اس کے کمرے میں کھلونے جمع ہورہے تھے۔ پروفیسر صاحبہ نے یہ بھی حساب لگالیا کہ اسے کب کس نرسری میں جانا ہوگا، کس اسکول میں پڑھنا ہے، مجھ سے اور اس سے پوچھے بغیر سیما نے اسے ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا۔
”ہماری کنول ڈاکٹر بنے گی۔ “ اس نے مجھے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے بھائی ڈاکٹر کیوں، وکیل کیوں نہیں؟ کمپیوٹر انجینئر بننے میں کیا بُرائی ہے۔ “ میں نے مذاق میں اس سے اختلاف کیا۔
”نہیں میں نے کہہ دیا بس وہ ڈاکٹر بنے گی، صرف ڈاکٹر اور اچھی گائناکولوجسٹ، جو مریضوں کے ہر سوال کا جواب دے، انہیں ٹالے گی نہیں، صرف پیسے نہیں کمائے گی بلکہ انسانیت بھی اس کے دل میں ہو۔ “ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن بانو سے بھی پوچھا ہے تم نے آخر وہ کیا بننا چاہتی ہے، شاید وہ ڈاکٹر بننے سے منع کردے، شاید اسے خون وغیرہ اچھا ہی نہ لگے، ارے بابا، بانو سے پوچھ تو لو۔ “ میں نے اسے چھیڑا تھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ بانو نہیں کنول اور دوسری بات یہ کہ بھلا اسے کیا اعتراض ہوگا ڈاکٹر بننے میں۔ پوچھ بھی لیں گے وہ منع تھوڑی کرے گی آخر میری بیٹی ہے کیوں نہیں مانے گی میری بات۔ “ اس نے اور زیادہ سنجیدگی سے کہا تھا۔
”کنول نہیں بانو۔ “ میں نے ہنس کر کہا تھا۔
”بانو نہیں کنول“
”کنول نہیں بانو“
”کنول، کنول، کنول“
”بانو، بانو، بانو۔ “ میں نے تکیہ اس کی طرف پھینکتے ہوئے ہنستے ہوئے زورسے کہا۔ وہ تکیہ سے بچنے کے لیے جھکی تھی اور ساتھ ہی چیخ مار کر اپنی جگہ پر جم کر رہ گئی تھی۔
”ارے کچھ ہوگیا ہے دیکھو بے تحاشا پانی جارہا ہے نیچے سے۔ “ میں فوراً ہی سمجھ گیا تھا کہ بچّی کے گرد لپٹی ہوئی ممبرین پھٹ گئی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لیبر شروع ہونے والا ہے۔ انٹرنیٹ پر بہت اچھی سی تصویر بنی ہوئی تھی اس پورے عمل کی۔ وہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے یک بیک آگیا۔ اب فوراً ہی ہسپتال جانا ہوگا، ڈاکٹر نے بھی یہی کہا تھا۔ اب اڑتیس ہفتے ہوگئے ہیں۔ کسی بھی وقت درد شروع ہوسکتے ہیں جب کبھی بھی درد ہوں ہر دس منٹ کے بعد یا یکایک پانی چھوٹ جائے یا پھر خون آنے لگے تو فوراً ہی ہسپتال آنا ہوگا۔ دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماں اور بچّے دونوں کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے، میں نے جلدی سے امی کو بتایا اور اسی وقت فوراً ہی اسے گاڑی میں لے کرہسپتال پہنچ گیا تھا۔
باجی اور ان کی بیٹی بھی ہسپتال آگئے تھے اور چھ گھنٹے کے اندر ہی اندر ہماری کنول پیدا ہوگئی۔ کسی آپریشن اور کٹ کے بغیر بالکل نارمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سات پونڈ کی ننھی سی گلاب کی کلی اسے اُٹھا کرمیں نے چوما، اس کے گالوں کو، ماتھوں کو، اپنے گالوں سے لگایا، اسے سینے سے لگا کر دل چاہا کہ اسے بھی دل میں سمالوں، میرے آنسو نکل آئے۔ سیما کی آنکھوں میں بھی جل ندی کی طرح چھلک رہا تھا۔
تین دن وہ ہسپتال میں رہی۔ خاندان کا ہر ہر فرد اسے دیکھنے آیا مٹھائیاں، کیک، پھول روزانہ مجھے ہسپتال سے گھر لانے پڑتے تھے۔ کس قدر خوش تھے سب لوگ، وہ ننھی سی گڑیا پورے خاندان کا مرکزی نقطہ بن کر رہ گئی تھی۔
گھر آکر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، سیما خطرے سے باہر نکل چکی تھی۔ گھر میں ایک چھوٹی سی بچّی آگئی۔ میں دوبارہ اپنے روٹین کے کاموں میں لگ گیا۔ سیما کے حمل کی وجہ سے میں نے اپنے بہت سے دورے منسوخ کردیے تھے۔ سب لوگوں کو اس ڈلیوری کا انتظار تھا۔ مجھے فوری طور پر سنگاپور جانا تھا جس کے لیے میں نے اپنی آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔
میں گھر پہنچا تو سیما کمرے میں خاموش بیٹھی تھی۔ کنول اس کے گود میں تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمنڈ رہا تھا۔ میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ میں کیا کہوں۔ یکایک یہ کیا ہوگیا ہے۔ میں فوراً ہی اس کے پاس بیٹھ گیا۔
”کیا ہوا سیما، خیر تو ہے؟ کنول تو اچھی ہے نا کیوں رورہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
اس نے اپنا سر میرے کاندھوں سے ٹکادیا۔ ”نہیں کچھ نہیں ہوا ہے۔ بس رونا سا آگیا تھا یونہی بیٹھے بیٹھے۔ “ اس نے آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا مگر پھر بھی میں اس کے ساتھ بیٹھا رہا، بولتا رہا، ہنستا رہا اور اسے ہنسانے کی کوشش کرتا رہا۔
”مجھے پرسوں سنگاپور جانا ہے سیما اور اب کی دفعہ اکیلے جانا ہوگا۔ کچھ کام رُک گیا ہے وہاں پر۔ چلا جاؤں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جانا تو ہوگا۔ “
”ہاں ضرور جائیں امی تو ہیں یہاں پر۔ “ اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا۔
پانچ دن سنگاپور میں بہت مصروف گزرے۔ میں روزانہ تین تین چار چار دفعہ فون کرکے پوچھتا۔ سیما سے باتیں کرتا، کنول کا رونا سنتا۔ جیسے ہی کام ختم ہوا میں پہلی فلائٹ پکڑ کر واپس آگیا۔
مجھے سب کچھ ٹھیک ہی لگا۔ رات گئے تک ہم لوگ باتیں کرتے رہے پھر نیند آگئی تھی۔ پھر نہ جانے رات کے کس لمحے میں میری آنکھ کھل گئی، سیما بستر پر نہیں تھی۔ میں تھوڑی دیر تک انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ باتھ روم میں ہو مگر جب کافی وقت نکل گیا تو میں نے اُٹھ کر دیکھا باتھ روم میں کوئی نہیں تھا۔ میں دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں باہر نکلا تو دیکھا کہ سیما سیڑھیوں پر بیٹھی رورہی ہے۔
بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے جیسے موم پگھل پگھل کر بہہ رہا ہو۔ میں بے قرار ہوگیا تھا۔
”کیا ہوگیا سیما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں رورہی ہو۔ خدا کی پناہ سارا تمہارا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ گیا ہے۔ میری جان کیا ہوگیا ہے تم کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ اسے میں نے لپٹالیا تھا۔
”نہ جانے کیا ہوگیا ہے رفیق۔ کچھ اچھا نہیں لگتا ہے مجھے۔ نہ کھانا، نہ گھر، نہ ٹی وی، نہ دوست، نہ رشتہ دار، کیوں ایسی ہوگئی ہوں میں۔ بس دل کرتا ہے بیٹھ کر روتی رہوں، اپنے آپ سے باتیں کرتی رہوں۔ کچھ ہمت نہیں ہے مجھ میں۔ “
”چلو کمرے میں چلو۔ “ میں نے نہ سمجھتے ہوئے پیار سے کہا اور اسے سہارا دے کر کمرے میں لے کر آیا، بستر پر لٹایا اورچادر اُڑھا کر کہا سوجاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دیر تک آہستہ آہستہ میں اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتا رہا پھر وہ گہری نیند سوگئی۔
صبح اُٹھ کر میں آفس چلا گیا جہاں سے میں نے امی کو فون کرکے کہا کہ سیما کا خیال رکھیں نہ جانے کیوں کچھ پریشان سی ہے۔
”ارے بھئی تھکن ہوتی ہے نومہینے کی تھکن، صحیح ہوجائے گا سب کچھ۔ “ امی نے مجھے پیار سے سمجھایا۔ وہ ابھی تک سورہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوپہر کے بعد میں نے تین دفعہ بات کی تھی اس سے۔ اس کی آواز ٹھیک تھی مگر بالکل ٹھیک نہیں تھی۔ اس کی آواز میں تو مٹھاس ہوتی تھی ہمیشہ، کشمش کی طرح۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں۔ کیا ہوگیا ہے میری سیما کو۔ میں ذرا جلد ہی گھر آگیا۔ اسے زور دے کر تیار کرایا تھا، امی نے منع بھی کیا مگر میں نے کہا نہیں امی تھوڑا باہر کا چکر لگاؤں گا تو اچھا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھر میں بیٹھا بیٹھا آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔
ہم نے کلفٹن میں سمندر کے ساتھ ساتھ ڈرائیو کی۔ لہروں کے قریب بیٹھ کر انہیں گننے کی کوشش کی، اُس کا ہاتھ تھام کر اور بچّی کو گود میں لے کر تھوڑی دیر تک ٹہلتے رہے، پھر زمزمہ میں ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ وہ میرے ساتھ تھی بات بھی کررہی تھی مگر مجھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے آپ میں نہیں ہے۔ میں نے اسے لطیفے سنائے، کچھ امریکہ کے وہ قصے جنہیں وہ بار بار سن کر ہنستی تھی مگر وہ رسپانس نہیں تھا، ایک ہاری ہوئی مسکراہٹ۔ ایک دھیماپن جیسے ٹیوب لائٹ کے سامنے کوئی لالٹین جل رہی ہو۔
گھر پہنچ کر اس نے کنول کو دودھ پلایا اور اپنے سینے سے لگا کر لیٹ گئی تھی۔ میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ اس نے سوال کیا، ”آپ مجھ سے نفرت تو نہیں کرتے ہیں رفیق۔ “
”یہ کیسا سوال ہے سیما، تم سے نفرت میں سوچ بھی نہیں سکتا ہوں، کیوں کروں گا نفرت۔ تم میری بیوی میری دوست ہو میرے جنم جنم کی ساتھی، میرے خوابوں کی شہزادی، میری بانو کی ماں، میرے کنول کی امی، کیسی بات کررہی ہوتم۔ “ میں نے ایک سانس میں ڈھیر سا جواب دے دیا تھا۔
”نہیں سچ کہیں میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ آپ کو مجھ سے نفرت نہیں ہے۔ “ میں جھنجلاسا گیا، کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میں نے دیکھا اس کی آنکھوں سے دوبارہ آنسوؤں کی جھڑی جھڑ رہی ہے۔
میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کے کہا کہ نہیں میں اس سے نفرت نہیں کرتا ہوں محبت ہے مجھے اس سے بے شمار محبت ہے بلکہ میں پجاری ہوں اُس کا۔
اس نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ دھیرے دھیرے اپنے انگلیوں سے انہیں سہلاتی رہی تھی، ایسا لگا جیسے آنسوؤں کو روک نہیں پارہی ہے پھر بولی۔ ”نہ جانے کیوں ایک ہول سا اُٹھتا ہے میرے دل میں۔ ایسا لگتا ہے سب کچھ خالی ہے۔ یہ دل یہ دماغ میری روح میرا جسم۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے کیوں لے آئی ہوں اس ننھی سی جان کو اس دنیا میں۔ کیا ہے اس دنیا میں۔ غم، پریشانی، دُکھ، ناتمام حسرتیں، گولیاں، ایکسیڈنٹ، موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے گزرے گی زندگی۔ “
میں ساتھ لیٹا رہا پھر جانے کب ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی تھی۔
دوسرے دن میں نے سیما کی گائنا کولوجسٹ کو فون کیا۔ بڑی مشکل سے وہ ملی تھیں، کہنے لگیں ”میں فون پر مشورے نہیں دیتی ہوں۔ آج تو وقت نہیں ہے۔ کل آجایے گا تو بات سن لوں گی۔ نارمل ڈلیوری کے بعد کیا ایمرجنسی ہوگی، گھبرائیں مت، کل ملیے گا کل شام کو 6 بجے میری صدر والی کلینک میں۔ کل میں زمزمہ پر نہیں بیٹھتی ہوں۔ “
میں گھر آیا تو امی بھی مجھے تھوڑی پریشان سی لگی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ دن بھر میں کچھ خاص نہیں کھایا ہے سیما نے۔ کوشش کے باوجود کچھ بات نہیں کی ہے اس نے۔ جب بھی کمرے میں گئی ہوں وہ کمرے میں خاموش بیٹھی نہ جانے دیوار پر کیا تکتی رہی ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ باجی سے بھی بات کی ہے انہوں نے، وہ ایک تعویذ لے کر آرہی ہیں۔ باجی کی نند کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا تو شاہ بابا سے تعویذ لے کرباندھا تھا تو وہ صحیح ہوگئی تھی۔ بیٹا اللہ خیر کرے گا۔ انہوں نے پیار سے کہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا، میں کمرے میں گیا تو دیکھا کہ سیما اسٹول پر خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کے چہرے پر غضب کی ویرانی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی اجنبی کو دیکھ رہا ہوں۔
مجھے دیکھ کر وہ مسکرائی، چہرے پر تاثر بھی بدلا پھر وہ ذرا زور سے بولی تھی، ”نہیں کچھ نہیں ہوا ہے مجھے میں ٹھیک ہوں بالکل ٹھیک ہوں رفیق۔ بس یہ کنول تھوڑا زیادہ روئی تھی آج بہت ڈانٹا ہے اسے میں نے، اب ٹھیک ہے دیکھو سورہی ہے آرام سے۔ “ میں نے بچّی کو پیار کیا تھا۔
” سیما تم نے کھانا نہیں کھایا آج۔ اگر کھاؤگی نہیں تو طاقت کہاں سے آئے گی۔ ارے تم دودھ بھی تو پلارہی ہو اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
” ہاں میں کھانا کھاؤں گی رفیق۔ “ اس نے آہستہ سے کہا تھا پھر اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے شروع ہوگئے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس نے اپنے چہرے سے لگایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”مجھے کچھ ہوگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کچھ ہوگیا ہے۔ آج میں نے کنول کو، اپنی کنول کو ڈانٹا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل ماروں گی خدایا۔ اپنے بچّے کو بھی کوئی ڈانٹتا ہے، اتنے چھوٹے کو بچّے کوکوئی مارتا ہے۔ “ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح سے اس کے آنسوؤں کو روکوں، اس کے رونے کو روکوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کھڑا تسلیاں دیتا رہا اور وہ روتی رہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے سے باجی کی آواز آئی تھی تو اس کا رونا بند ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔
اس رات بھی میں دیر تک اس سے باتیں کرتارہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اسے نیند کی گولی دی تاکہ اسے نیند آجائے۔ تمام رات میری آنکھیں کھلتی بند ہوتی رہیں، نہ میں سویا نہ جاگا، صبح سیما کو سوتا ہی چھوڑ کر میں آفس چلا گیا تھا۔
شام کو ڈاکٹر صاحبہ سے ملا تو انہوں نے کہا کہ ہاں بچّہ ہونے کے بعد تھوڑی بہت ڈپریشن ہوتی ہے، کوئی خاص بات نہیں ہے بالکل فکر مت کریں۔ ٹھیک ہوجائے گی آپ کی بیوی۔ ایسا بہت سی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے کوئی خطرہ نہیں ہے لے آئیے گا جب چھ ہفتے ہوجائیں، میں دیکھ لوں گی۔ بس ذرا توّجہ دیں۔ وقت دیں اسے شوہر لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے اصل میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پندرہ سو روپے فیس مجھے دینے کا کوئی افسوس نہیں ہے، افسوس تو یہ ہے کہ کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا انہوں نے کہ وقت دیں اسے وقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں انہیں کیسے بتاتا کہ وقت تو انہوں نے نہیں دیا میری بات نہیں سنی، نہ یہ سمجھا کہ میں اس کی ویران آنکھوں کے بارے میں کیا بتارہا ہوں، نہ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے چند ہفتوں کی بچّی کو ڈانٹ رہی ہے ماررہی ہے، وقت تو انہوں نے دینا تھا، وقت مجھ سے مانگ رہی ہیں ارے میں تو جان دے دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بغیر کسی فیس کے۔ کاش یہ سب کچھ میں کہہ سکتا۔
اس رات اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے کانوں میں آوازیں آتی ہیں کہ وہ رنڈی ہے، طوائف ہے، ملیچھہ ہے، گندی ہے، کوئی بار بار بولتا ہے اس کے کانوں میں۔
”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی کنول کو کوئی نقصان پہنچادوں گی، کچھ کرو رفیق۔ اس کا خیال رکھنا وہ ہماری بچّی ہے، تمہاری بیٹی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ وہ بار بار ایک بات کو دھرارہی تھی۔
اس کے بازوؤں میں تعویذ بندھا ہوا تھا اور اس کے چہرے کی وحشت سے مجھے خوف آیا۔ مجھے آج تک افسوس ہے، سخت افسوس کہ سارے حمل کے دوران ایک ایک دن میں انٹرنیٹ کھول کر ماں اور بچّے کے متعلق پڑھتا رہا، سمجھتا رہا لیکن نہ جانے کیوں حمل کے بعد کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں، میں نے کچھ نہیں سمجھنے کی کوشش کی۔ صرف اُس جاہل اور لالچی گائناکولوجسٹ سے ملا جسے نارمل ڈلیوری اور سیزیرین سکشن کے آگے شاید کچھ پتہ نہیں تھا۔
میں نے اسے سمجھایا کہ نہیں سیما کوئی ماں اپنے بچّے کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے تم ٹھیک ہو یہ صرف بے کار کی آوازیں ہیں اب تو باجی نے یہ تعویذ بھی پہنادیا ہے، تم بالکل ٹھیک ہوجاؤگی۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کل سے چھٹی لے لوں گا۔ تمہارے ساتھ رہوں گا فکر نہ کرو۔
”ہاں تم کل سے آفس مت جانا۔ میرے ساتھ رہنا ہماری بچّی کے ساتھ۔ کبھی کبھی میرا دل کہتا ہے کہ اس بچّی کو مجھ سے نقصان پہنچے گا۔ مگر میں اسے نقصان نہیں پہنچنے دوں گی۔ میں خود مرجاؤں گی رفیق لیکن اسے کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ تم گھبراؤ مت۔ اپنا خیال رکھنا میری بچّی کا خیال رکھنا۔ “ وہ بار بار اپنے الفاظ کو دھراتی رہی۔ کبھی کنول کو چومتی تھی۔ کبھی مجھے گلے لگاتی تھی۔
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میرا دل جیسے کوئی کتر کتر کر پھینک رہا ہو۔ میں نے اسے نیند کی دوا دی۔ وہ بستر پر لیٹ گئی تھی، میرے بازوؤں کے تکیے پر سر ٹکائے، نہ جانے دیواروں پر کیا تکتی رہی تھی۔
دوسرے دن اسے سوتا چھوڑ کر آفس گیا تھا کہ وہاں جا کر ایک ضروری خط لکھنا تھا اوربتانا تھا کہ کچھ دنوں کے لیے نہیں آسکوں گا۔ وہاں بھی ہمارے کمپنی کے کنٹری منیجر نے میرے لیے اپنے ایک دوست سائیکٹرسٹ کو فون کرکے سیما کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ وقت دیں اسے۔ حمل کے بعد ڈپریشن کی شکایت ہوتی ہے جو خودبخود وقت کے ساتھ ختم بھی ہوجاتی ہے۔ وقت ان کے پاس بھی نہیں تھا، میں ان سے اسی وقت نہیں مل سکا انہوں نے چار دن کے بعد شام کو بلایا تھا کہ سیما کو لے کر آؤں۔
میں گھر آیا تو وہ ابھی بھی سورہی تھی، کنول کو امی جان نے باہر کا دودھ شروع کرادیا تھا اور وہ اپنے پنگوڑے میں جھولنے کا مزا لے رہی تھی۔
دوپہر کو ہم نے ساتھ کھانا کھایا، شام کو پھر ایسا لگا جیسے سیما سخت پریشان ہورہی ہے۔ اس کے چہرے پر جیسے کسی نے کوئی ماسک چڑھادیا ہو۔ سوچتی ہوئی دور تک دیکھتی ہوئی ویران ویران سی آنکھیں۔
اس نے ایک دفعہ بھی کنول کو دیکھنے کی خواہش نہیں کی۔ مجھے بار بار ایسا لگتا جیسے وہ من ہی من میں، دھیرے دھیرے رورہی ہو۔
سونے سے پہلے اس نے مجھ سے پھر کہا کہ وہ مجھے بلارہے ہیں اپنے پاس، ان کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں، بچّی کو اس گھر کو، چھوڑدوں۔ کیوں بلارہے ہیں وہ مجھے۔ ”اس نے مجھ سے سوال کیا تھا۔
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں اسے سمجھاتا رہا کہ کوئی نہیں بلارہا ہے تمہیں۔ تم یہاں رہوگی میرے پاس ہمیشہ ہمیشہ۔
مگر وہ ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہی میرے پاس، دو دن کے بعد میں ایک ضروری دستخط کرنے آفس گیا اور جب واپس پہنچا تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ اس نے بیڈ روم میں بستر پر کرسی رکھ کر اپنے دوپٹے کو پنکھے سے باندھ کر گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔ دروازہ توڑ کر ہی ہم لوگ اُس کی لاش باہر نکال سکے تھے۔ سرہانے خط رکھا ہوا تھا:
مجھے لگتا ہے میں اپنی بچّی کی جان لے لوں گی۔ بار بار کوئی مجھے کہتا ہے کہ میں اسے ختم کردوں۔ میں اسے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔ مگر مجھے اپنا اعتبار بھی نہیں ہے کہ کب کیا کربیٹھوں۔ بہتر یہی ہے کہ میں خود ہی چلی جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری زندگی کا کوئی فائدہ بھی تو نہیں ہے۔ اپنا خیال رکھنا رفیق اور میری بچّی کا بھی۔
وہ خط میرے ہاتھ سے گِر پڑا۔ میرے سامنے ایک اُداس اور اُجاڑ زندگی پڑی تھی۔