سردی کی ہلاکت خیزی عروج پر تھی جب یخ بستہ رات کے دوسرے پہر نے کروٹ لی۔ گھپ اندھیرے میں خاموشی کا راج تھا۔ ہاں مگر گھڑی کی ٹک ٹک صاف سنائی دے رہی تھی۔ باہر شاید بارش برس رہی تھی۔ وہ بولی: کل کے بارے کیا وچار ہیں؟ آدرش بتائیں گے اپنے؟ ”آنے والے کل یا گزرے ہوئے کل؟ “ میں نے استفسار کیا۔ وہ مسکرائی اور بولی: ”آنے والے کل“۔ میں نے گہرا سانس لیا تو وہ موبائل میں دیکھتے ہوئے گویا ہوئی: ”14 فروری اسٹارٹ ہو گیا“۔ میں نے اپنے موبائل کی سکرین پر انگلی پھیری، دھیمی سی روشنی میں اس کا چہرہ پیار کی تپش سے جلتا معلوم ہو رہا تھا۔ جب کہ بارہ کا ہندسہ اپنے بعد والے ہندسے کو بدل چکا تھا۔ کافی دیر میں چپ کا روزہ رکھے اسے دیکھتا رہا۔ وہ خاموشی کے لبادے میں گھات کھا رہی تھی۔
میں نے سکوت توڑا اور کہا ”ہاں! منانا چاہیے، میں مناتا ہوں“۔ ”مجھے تم سے محبت ہے“۔ بس؟ ”کیا مطلب بس؟ “ اور کچھ نہیں کہیں گے؟ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”نہیں“ ؛ پھر میں نے چند سمے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ سمجھنا نہ چاہتی تھیں یا سمجھ نہ پا رہی تھیں۔ میرے آدرشوں کو چھوڑو۔ ”یہ تمہاری غزالی آنکھیں جن میں محبت ہے، معصومیت بھی، حیرت بھی، خوف بھی، ڈر بھی۔
بہت متاثر ہوں تم سے۔ چاہت کا ایک سندیسہ ہے جو دینے میں خوف کا احساس ہے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ“ آپ ”محبت کا پیکر ہیں۔ حسن کا مجسم نمونہ، جس کے نام محبت کا یہ دن، جو خاص ہے محب کے لیے۔ ہمیشہ آباد رہیں۔ میں ہوں تب نہ ہوں تب۔ مجھے آپ سے محبت ہے“۔ میں نے بات مکمل کی تو وہ حیرت سے ششدر رہ گئی۔ اس وقت منکے ابل رہے تھے، لگتا تھا اب آنکھیں ابل کر گر پڑیں گی۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ مجھے حیرت میں دیکھ کر بولی ”دل اس قدر تیزی سے دھڑک رہا ہے، ڈر لگتا ہے کہیں نکل کر آپ پر نہ آگرے۔ آنکھیں خیرہ، دماغ مسحور، شعور مفلوج سا لگ رہا ہے“۔ یہ ”تم“ سے ”آپ“ کا سفر یک دم کیسے؟ محو حیرت دوبارہ بولی۔ جواب پا کر ہمکلامی کی۔ یعنی ”آپ“ کے لیے ”تم“ خاص ہو گئی۔
بہت اچھا لگا بختہ خوار، مجھے آپ سے محبت ہے۔ لیکن یہ جو ایک بات کی نا حسن کا مجسم نمونہ، یہ درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔ یہ اضافی لگ رہی ہے۔ ”ہائے! میری آنکھوں سے دیکھو نا اور حسن کے مجسم تصویر کی تمام تر علامات پائی جاتی ہیں“۔ بھلا اور حسن کیسا ہوتا ہے؟ ”تمہارے تو صرف اس سیاہ خال کی کوئی قیمت نہیں۔ میں اگر ایران یا ازبکستان میں ہوتا تو خوش قسمت شمار ہوتا آپ کو یعنی تل والی کو پا کر بقول حافظ اس سیاہ تل پر سمر قند و بخارا بھی قربان“۔
وہ بے یقینی سے دیکھتی رہی تو میں اسے حسن کا مجسم نمونہ ثابت کرنے میں لگ گیا۔ اب وہ تابناک چہرہ لیے سنے جا رہی تھی۔ باتیں یوں چلیں گویا عوج بن عنق کی ٹانگ ہوں۔ میں بولتا جا رہا تھا وہ مجھے دیکھے جا رہی تھی۔ بالآخر میں نے اسے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن چھوڑ کر کہا: ”رات تھوڑی ہے، اور بہت ہے سانگ“۔ میری بات کو ان سنا کر کے ایک دم سے وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولی: ہاں! اچھا بتائیں نا ’تم‘ سے ’آپ‘ کیسے بنی؟ چلو سوتے ہیں۔ میں جان چھڑاتے ہوئے بولا۔ ”ہاں نیند ہی اڑا دی تو“۔ ”سکون میں چنگاری لگا کر اب کہتے ہیں چلو سوتے ہیں“۔ میں نے آنکھیں موند لیں اور سونے کی اداکاری کرنے لگا۔
اس نے میرا بازو تھاما اور بولی: ”یہ شور چھپ نہیں سکتا“۔ ”بلبل کا رونا دھونا بند ہو تو پھول کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو سوئے ہوؤں کو جگاتی ہے۔ عشق کا شور کوئی چھپتا ہے /نالہ عندلیب ہے گل بانگ“۔ اس کی آواز اندھیرے میں روشنی کی طرح کمرے میں پھیل گئی۔ عشق کے شور میں اپنے آپ کو تلاش ہی رہا تھا کہ وہ بولی: ”دیکھیے نا کچھ لوگ اس دن کو کتنا برا سمجھتے ہیں اور کچھ کتنا غلط سمت لیتے ہیں اس کو۔
یہ نہ ہوتا تو میں نہ پوچھتی اور آپ بھی منہ میں گھنگنیاں ڈالے چباتے رہتے۔ جو اچھا نہیں سمجھتا نہ منائے کیوں؟ “ ہاں ایسا ہی ہے ”۔ میں اکھیاں موندے ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ “ یار! ایک دن اگر محبت کے ساتھ خاص کر دیا ہے تو اس میں کیا برا ہے منانا ہے مناؤ نہیں منانا تو نہ مناؤ ”۔ میں نے تو دن منا لیا اور میں بہت خوش ہوں۔
”آپ نے نا! سوئی ہوئی امنگ بیدار کر دی۔ سب لوگ اگر اپنوں کی اہمیت انہیں بتائیں، اپنے دل میں چھپے جذبات کا اظہار کریں تو کتنی خوشی پھیلے۔ اپنوں کے لیے نامہ و پیام بھی تو خوشی کا سبب بن سکتا ہے۔ پری چہرہ مجھ سے مخاطب تھی جب کہ میں آنکھیں بند کیے اب بھی“ ہوں، ہاں ”سے کام چلا رہا تھا۔ وہ خوشی میں بولے جا رہی تھی۔ آپ سو رہے ہیں ناں؟ میں بھی سوتی ہوں۔ پھر وہ اتھل پتھل جذبات کو سمیٹتے سونے لگی۔ میں نے بھی کروٹ لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ رات تیسرے پہر میں داخل ہو چکی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی۔ فضا کی خاموشی اذان فجر کی گونج سے ٹوٹ رہی تھی۔ میں نے سر اٹھایا تو سامنے ایک بت سا گرا دکھائی دیا۔ لیمپ کی روشنی سے قدرے پرے ایک سایہ سربسجود تھا۔