وہ صرف تین سال کی تھی جب اس نے اپنے پاپا کو کھو دیا۔ پہلے پہل تو اس ننھی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ اس کے پاپا کہاں غائب ہو گئے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے پتا چلا کہ پاپا کو مار دیا گیا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ اس کے پاپا کو پاکستان نے مار دیا ہے۔ وہ اسکول جانے لگی تو اس کے ٹیچرز اور کلاس فیلوز اکثر پاکستان کو کوسا کرتے لیکن وہ سوچتی رہتی کہ پاکستان کی اس کے پاپا کے ساتھ کیا دشمنی تھی؟
پھر وہ کالج میں پہنچ گئی اور ایک دن اس نے سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا کہ ’’پاکستان نے میرے پاپا کو نہیں مارا، جنگ نے پاپا کو مارا‘‘ اس اعلان پر کھلبلی مچ گئی۔ یہ کھلبلی مچانے والی لڑکی گرمہر کور تھی، جس کے پاپا 1999ء میں جموں و کشمیر کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے تھے۔
اس کے پاپا کا نام کیپٹن مندیپ سنگھ تھا جو راشٹریہ رائفلز کی ایک یونٹ کو کمان کر رہے تھے۔ ایک فوجی کی بیٹی نے جب یہ اعلان کیا کہ اس کے پاپا کو پاکستان نے نہیں بلکہ جنگ نے مارا ہے تو بی جے پی اور آر ایس ایس سمیت دیگر ہندو انتہاپسند تنظیموں نے گرمہر کور کو غدار قرار دینا شروع کر دیا .
گرمہر نے دبائو میں آنے کے بجائے جان ہتھیلی پر رکھی اور بی جے پی کی حامی طلبہ تنظیم اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے مقابلے میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ساتھ دینا شروع کر دیا جس کی قیادت کو پاکستان کا ایجنٹ کہا جا رہا تھا۔ اکتوبر 2017ء میں ٹائم میگزین نے گرمہر کور کو مستقبل کے دس لیڈروں میں شامل کیا اور اسے آزادیٔ اظہار کا جنگجو قرار دیا۔
2018ء میں گرمہر کور نے (Small Acts of Freedom) کے نام سے کتاب لکھ ڈالی اور اب وہ دنیا بھر میں انتہا پسندی کے خلاف امن کی ایک موثر آواز بن چکی ہے۔ 16فروری کو کنگز کالج لندن کے اسٹرینڈ کیمپس میں انڈو پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں میڈیا کے کردار پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گرمہر کور کی باتیں سننے کا موقع ملا۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہوئی جب پلوامہ میں ایک خود کش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نئے بحران سے گزر رہے ہیں۔ بھارت سے گرمہر کور کے علاوہ ’’دی ہندو‘‘ کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر سوہاسنی حیدر جبکہ پاکستان سے مجھے اور معاذ غامدی کو بلایا گیا تھا۔ سوہاسنی حیدر کے والد سبرامینن سوامی پاکستان سے نفرت کرنے والے سیاستدانوں میں سرفہرست ہیں لیکن سوہاسنی نے کنگز کالج میں بڑی متوازن گفتگو کی۔
کنگز کالج میں ہمارے سامنے پاکستان اور بھارتی طلباء و طالبات نے ہر طرح کے سوالات اٹھائے لیکن کسی نے بھی اخلاق اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس کانفرنس کے میزبان محمد امیر حمزہ نے سوہاسنی حیدر سے پوچھا کہ کیا مسئلہ کشمیر کو پسِ منظر میں دھکیل کر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے؟
سوہاسنی حیدر کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ممالک میں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے، پہلے یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ یہی سوال جب میرے سامنے رکھا گیا تو میں نے عرض کیا کہ اگر دہشت گردی بڑا مسئلہ ہے تو اس کا حل بھی مذاکرات سے ممکن ہے۔ جب بھی مذاکرات شروع ہوں گے تو بھارت کو یہ موقع ملے گا کہ اگر اس کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ پلوامہ کے واقعے کی منصوبہ بندی مسعود اظہر نے کی تو پاکستان کے سامنے ثبوت رکھ دے۔
اسی طرح پاکستان کو بھی موقع ملے گا کہ وہ بتائے کہ کلبھوشن یادیو جعلی نام کے ساتھ پاسپورٹ بنا کر بزنس نہیں دہشت گردی کر رہا تھا۔ میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر پاکستان اور بھارت کے میڈیا کو ایک دوسرے کے ملک میں آمد و رفت اور رپورٹنگ کی اجازت مل جائے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔
گرمہر کور نے کشیدگی کے اس ماحول میں بھی کھل کر امن کی بات کی اور کہا کہ وہ اپنے بڑوں سے مایوس ہے اور اس کی امیدیں نئی نسل سے وابستہ ہیں۔ گرمہر کور سے پوچھا گیا کہ جب بھارت میں کچھ لوگ آپ کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں تو آپ کا کیا ردعمل ہوتا ہے؟
اس بہادر لڑکی نے جواب میں کہا کہ جب میری ایک ٹویٹ یا ایک تقریر سے پوری ریاست لرزنے لگتی ہے تو مجھے ریاست کی کمزوری پر ترس آتا ہے لیکن جب نوجوان میرے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں تو مجھے اپنی سچائی پر فخر ہونے لگتا ہے۔
اس کانفرنس میں میڈیا کے کردار پر بہت سے سوالات کیے گئے اور ہم سب کا اس نکتے پر اتفاق تھا کہ میڈیا کو صرف حقائق سامنے لانا چاہئیں کسی مخصوص ایجنڈے پر نہیں چلنا چاہئے۔ معاذ غامدی نے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی اکثریت امن چاہتی ہے کیونکہ امن میں اکثریت کا فائدہ ہے لیکن یہ اکثریت اقلیت کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ یہ اقلیت جنگی جنون پھیلا کر اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔
گرمہر کور کی باتیں سن کر مجھے عاصمہ جہانگیر یاد آئیں۔ ایسا لگا کہ بھارت میں ایک نئی عاصمہ جہانگیر پیدا ہو گئی ہے، جس پر بی جے پی نے وطن دشمنی کا الزام لگا دیا ہے اور بھارت کی عاصمہ جہانگیر اس الزام سے ڈرنے کے بجائے الزام لگانے والوں کا مذاق اڑا رہی ہے۔ کنگز کالج میں پاک بھارت تعلقات پر ہونے والی اس کانفرنس سے ایک دن قبل لندن کے اسکول آف اورئنٹیل اینڈ افریقن اسٹڈیز (ایس او اے ایس) میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک خصوصی ریفرنس منعقد ہوا۔
اس ریفرنس کا اہتمام یہاں کے طلباء و طالبات کی پاکستان سوسائٹی نے کیا تھا اور یہاں عاصمہ جہانگیر کی بیٹی سلیمہ جہانگیر بھی موجود تھیں۔ اس ریفرنس کی میزبان برطانیہ کی معروف صحافی اور دانشور وکٹوریہ شیفلڈ تھیں۔ اس ریفرنس میں عاصمہ جہانگیر کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی اور اس فلم میں عاصمہ جہانگیر کی تقریر کا وہ حصہ بھی شامل تھا جس میں انہوں نے کہا تھا… ’’آئو ہم سب مل کر کشمیریوں کو آزادی دلوائیں‘‘۔
جب یہ فلم ختم ہوئی تو حاضرین میں موجود ایک بھارتی طالبہ نے عاصمہ جہانگیر کو خراجِ تحسین پیش کیا، جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ لندن میں ایک طرف پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے پاکستان کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، دوسری طرف کنگز کالج اور ایس او اے ایس میں پاکستان کے موقف کو پذیرائی ملی۔
تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں پاکستان کو بڑی احتیاط لیکن ثابت قدمی اور جرأت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے پچھلے دنوں جرمنی میں زلمے خلیل زاد کے سامنے پاکستان کے خلاف جس نفرت اور غصے کا اظہار کیا اس کے بعد زلمے خلیل زاد کو بھی احساس ہو جانا چاہئے کہ اشرف غنی ایک ایسا بلیک میلر ہے جو نریندر مودی کی طرح بلوچستان کے حالات بگاڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اندرونِ خانہ پاکستان کے خلاف بہت سی سازشیں ہو رہی ہیں اور ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ یہ وقت آزادیٔ اظہار کو دبانے کا نہیں بلکہ قوم کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ آزادی کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہئے لیکن امن اور حقوق کی بات کرنے والوں کو طاقت سے دبانا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اگر بھارت میں گرمہر کور کو نہیں دبایا جا سکتا تو پاکستان میں بھی ایسی آوازوں کو دبانا بہت مشکل ہے۔ دنیا بدل رہی ہے اور ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ