نہتا اور بے بس انسان جب نتائج کے خوف سے آزاد ہو جائے تو ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔ تین چار مثالیں تو میں پچھلے دس برس کی ہی دے سکتا ہوں۔
تیونس کے قصبے سدی بوزید میں سترہ دسمبر دو ہزار دس کو کسی پولیس والے نے پھل فروش محمد بوعزیزی سے رشوت مانگی، بوعزیزی نے انکار کر دیا، پولیس والے نے اسے تھپڑ مارے، مرے ہوئے باپ کی گالی دی اور ٹھیلہ ضبط کر کے چالان کاٹ دیا۔ بوعزیزی نے بلدیہ کے دفتر میں شکائیت کے لیے کسی افسر سے ملنے کی کوشش کی۔ نہیں ملنے دیا گیا۔ بوعزیزی نے اسی دفتر کے سامنے خود کو آگ لگا لی۔
اس آگ نے عرب سپرنگ کا الاؤ روشن کر دیا۔ اٹھارہ روز بعد بوعزیزی اسپتال میں جلے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا سکا۔ اور پھر تیونس، مصر، لیبیا کی حکومتیں ڈھے گئیں، اردن اور بحرین میں بادشاہت کا پایہ لڑکھڑا گیا اور شام خانہ جنگی کا نوالہ بن گیا۔
محمد بوعزیزی کی خود سوزی سے ذرا پہلے تیونس سے چھ ہزار کلو میٹر مشرق میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے قصبے پلوامہ کے گاؤں ترال کے ہائی سکول کے پرنسپل مظفر وانی کا پندرہ سالہ بیٹا برہان اور اس کا بڑا بھائی خالد موٹر سائیکل پر گھر لوٹ رہے تھے کہ سنٹرل ریزرو پولیس کے کچھ سپاہیوں نے انہیں مشتبہ جان کر پوچھ گچھ کی، تو تکار ہوئی، دونوں بھائیوں کی پٹائی ہوئی۔ برہان پانچ اکتوبر دو ہزار دس کو گھر سے غائب ہو گیا۔
پھر آٹھ جولائی دو ہزار سولہ کو برہان نیم فوجی دستوں کی ایک کارروائی میں ایک اور ساتھی سمیت مارا گیا۔ اس واقعہ نے برہان وانی کو موت کا گلمیر بوائے بنا دیا اور وادی میں وہ آگ لگا دی جو تین برس بعد بھی قابو سے باہر ہے۔
نو اپریل دو ہزار سترہ کو سری نگر کے ایک نواحی ضمنی انتخاب کے موقع پر مشتعل ہجوم کو پرے رکھنے کے لیے میجر گوگوئی نے اپنی جیپ کے بونٹ سے ایک مقامی پارچہ ساز فاروق ڈار کو باندھ کر گھمایا۔ وڈیو وائرل ہوگئی۔ ایک ماہ بعد بری فوج کے سربراہ جنرل وپن راوت نے میجر گوگوئی کو اعلی کارکردگی پر تعریفی سند سے نوازا۔
ایک برس بعد بالی وڈ فلم باغی ٹو میں ٹائیگر شروف نے فلم کے پہلے سین میں ہی ایک کشمیری کردار کو جیپ کے بونٹ سے باندھ کر گھمایا جس پر زیادہ تر تماشائیوں نے خوب واہ واہ کی۔ کچھ عرصے بعد ہی میجر گوگوئی سری نگر کے ایک ہوٹل میں کسی خاتون کے ساتھ مشکوک حالت میں پکڑا گیا۔ پھر خبر آئی کہ میجر صاحب کو کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ کون جانے کہ ایسی خبریں کس کے دل پر کیا اثر کرتی ہیں؟