اِک دن رہیں بسنت میں اِک دن جئیں بہار میں اِک دن پھریں بے انت میں اِک دن چلیں خمار میں دو دن رکیں گرہست میں اِک دن کسی دیار میں (منیر نیازی) آپ مشہور پنجابی لوگ گیت ”جگنی ’کے ان مصرعوں سے تو آگاہ ہوں گے کہ‘ جگنی جاوڑی وچ روہی۔ اوتھے رو رو کملی ہوئی۔ اوہدی وات نہ لیندا کوئی۔ یعنی جگنی روہی کے ویرانے میں چلی گئی اور وہاں رو رو کر کملی ہو گئی اور پھر بھی کسی نے اس کی خبر نہ لی۔ ان دنوں بے چاری بسنت بھی جگنی ہو چکی ہے۔
دشمنوں کے نرغے میں آ گئی ہے۔ روتی ہے فریادیں کرتی ہے اور پھر بھی کوئی نہیں جو اس کے آنسو پونچھے ’اس کی خبر لے۔ ہر کوئی لٹھ لے کر بسنت کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ یہ تو ہندو تہوار ہے۔ کفر کی ریت ہے اور پاکستان اس روز دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا جب بسنت کو ہمیشہ کے لئے لاہور سے نکال دیا جائے گا۔ خاندانی نظام خطرے میں ہے‘ ہماری روحانی اقدار کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ہمارے معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی اور یقین کیجیے کہ بسنت کے ویری اور مفت میں ویری لوگ جب اس تہوار کے خلاف بولتے ہیں تو ان سے ڈر لگتا ہے وہ اتنے اشتعال میں ہوتے ہیں۔
غیر مرئی طور پر آپ کو ان کے منہ سے جھاگ کے چھینٹے اڑتے نظر آ سکتے ہیں۔ میں یہاں بسنت کا دفاع نہیں کروں گا۔ مجھے تو اس بے چاری پر ترس آ رہا ہے کہ وہ رو رو کے کملی ہو رہی ہے تو کوئی تو اس کے آنسو پونچھے ’تو میں صرف اس کے آنسو پونچھنا چاہتا ہوں کہ میں اسے تقریباً 75 برس سے جانتا ہوں۔ میں نے چیمبر لین روڈ والے قدیم مکان کی تیسری منزل کی چھت پر پہلی بسنت منائی تھی۔ پہلی گڈی اڑائی تھی اور تب سے آج تک بسنت کے ساتھ میرا لگاؤ ہے۔
اس تہوار نے مجھے بہت ساری خوشیاں عطا کی ہیں۔ بسنت دشمنی میں یہ بھی کہا گیا کہ ستر اوراسی کی دہائی میں صرف ہیرا منڈی کے مکین بسنت مناتے تھے۔ اب اس کا جواب میں کیا دوں‘ لاہور کی چھتوں اور درو دیوار سے پوچھئے۔ اس کے آسمان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیجیے۔ حضور پورا لاہور بسنت مناتا تھا۔ بسنت بخار ہر لاہوریے کے رگ و پے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے موہوم سا جو کچھ تقسیم سے پیشتر کے زمانوں کا یاد ہے تو تب بسنت مسلمان زیادہ مناتے تھے اور ہندو بہت کم۔
یقین نہ آئے تو موچی دروازے کے کسی پرانے بابا جی سے پوچھ لیجیے اگر آپ کو مجھ بابا جی پر اعتبار نہیں۔ خدا کے لئے تاریخی حقائق مسخ نہ کیجیے اور ہاں بسنت کی سرگوشی اور ہیجان صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو خالص لاہوریا ہو۔ ۔ ۔ اور مجھے گمان ہے کہ بسنت کے حوالے سے جتنے بھی خشمگیں حضرات ہیں ان کی اکثریت لاہور کی نہیں ’اس لئے وہ لاہور کی قدیم روح کو محسوس ہی نہیں کر سکتے۔ کیا یہ اخلاقی اقدار کی نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مخصوص نظریے کے تابع ہر وہ شے جو خوشی دیتی ہے جس سے خلق خدا لطف اندوز ہوتی ہے اسے سردھڑ کی بازی لگا کر ممنوع قرار دینے کی کوشش کی جائے۔
جیسے ایک لاہوری شاعر نے کہا تھا کہ جس نے کبھی کوئی لکھنو کاٹ پتنگ نہیں اڑائی اس نے زندگی گنوائی۔ آپ جانتے ہیں کہ جشن نو روز دراصل آتش پرستوں کے زمانے کا ایک تہوار ہے۔ بسنت کی مانند یہ بھی رت بدلنے کا پھول کھلنے کا‘ فصلیں پھوٹنے کا تہوار ہے۔ امام خمینی نے بھی اس کی اجازت دے دی تھی کہ اس میں کوئی غیر شرعی حرکت نہیں ہوتی اور یہ لوگوں کے لئے بہار کے استقبال کا ایک تہوار ہے۔ نوروز نہ صرف پورے سنٹرل ایشیا بلکہ بلوچستان کے کچھ حصوں میں بھی منایا جاتا ہے۔
ترک جب ابھی تک خانہ بدوش تھے۔ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے وہ بھی سینکڑوں برسوں سے اس تہوار کی خوشی مناتے چلے آتے ہیں تو پھر بسنت نے کیا قصور کیا ہے۔ اگر یہ موسم کا نہیں ہندوؤں کا تہوار ہے تو پھر تقسیم سے پیشتر بھی صرف لاہور میں کیوں منایا جاتا تھا جو کہ ایک مسلمان شہر تھا۔ ان شہروں میں کیوں نہ منایا گیا جہاں کے باشندوں کی اکثریت ہندو ہوا کرتی تھی۔ دراصل بسنت کے عوامی تہوار کو سب سے پہلے مشرف کے زمانہ میں ہلاک کیا گیا جب اسے سرمایہ داری نظام کی چڑیلوں نے دبوچ لیا۔
ملتانی ادارے اور صنعت کار میدان میں اترے اور انہوں نے صرف ایک شب کے لئے کسی ایک چھت کے لئے لاکھوں روپے ادا کیے اور وہ چھتیں طوائفوں کے کوٹھوں میں بدل گئیں۔ مجرے ہونے لگے اور بسنت کو بھی پامال کر دیا گیا۔ بسنت کو ایک طوائف کر دیا گیا۔ ازاں بعد دھاتی ڈور نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ بسنت کمرشل ہوئی تو اسے عام آدمی کی سائیکل سے اتار کر مرسیڈمیں ڈال کر اغوا کر لیا گیا۔ میرے نزدیک اگر کسی تہوار کے نتیجے میں کوئی ایک انسانی جان بھی ضائع ہوتی ہے تو اسے ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔
صرف سوال یہ ہے کہ اگر کرکٹ یا باکسنگ وغیرہ میں کوئی شخص ہلاک ہوتا ہے تو آپ حفاظتی اقدام کرتے ہیں۔ قوانین میں ترمیم کرتے ہیں۔ کرکٹ یا باکسنگ کو ممنوع قرار نہیں دیتے۔ کون سا کھیل ہے یا تہوار ہے جس میں حادثات نہیں ہوتے۔ تو حکومتی سطح پر آپ دھاتی ڈور درآمد کرنے والوں اور اسے فروخت اور استعمال کرنے والوں کو قتل کے الزام میں پھانسی پر کیوں نہیں لٹکا دیتے ’انہیں قید کیوں نہیں کر دیتے کوئی اف نہیں کرے گا۔
میں نے اپنی کتاب“ لاہور آوارگی ”میں لاہور کے ان دنوں کے بارے میں“ اِک دن رہیں بسنت میں ”کے نام سے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا ہے‘ جب یہ تہوار لاہوریوں کے لئے مسرت اور شادمانی لایا کرتا تھا اور لاہور کا آسمان بے رنگ نہ ہوا کرتا تھا۔ یہ مختلف بناوٹوں سجاوٹوں اور رنگوں کی پتنگوں۔ ’گڈیوں اور چھرّوں سے سجا ہوتا تھا۔ بسنت کی مخالفت البتہ وہ کر سکتا ہے جس نے کبھی بسنت منائی ہو‘ پتنگ کی ڈور جب انگلیوں میں سرکتی ہے اس انبساط سے آگاہ ہو۔
پیچا لڑانے اور پتنگ کاٹنے کے جو لطف ہیں ان کے ہیجان میں سے گزرا ہو ورنہ جس نے کبھی مے نہیں چکھی وہ کیا جانے خمار کیاہے اور بسنت کا بخار کیا ہے اور موسم بہار کیا ہے۔ تو حضور آپ کے کانوں پر جوں نہ رینگی جب میٹرو اور اورنج ٹرین کے لئے پورے لاہور کا چہرہ مسخ کر دیا گیا۔ سیمنٹ کی ایک بھدی دیوار برلن تعمیر کر کے لاہور کو دولخت کر دیا گیا۔ کیسی کیسی تاریخی عمارتوں کی بنیادیں ہلا دی گئیں اور لاہور کو سیمنٹ اور سریے کے ڈھیروں میں دفن کر دیا گیا اور اب بے چاری بسنت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔