مستنصر حسین تارڑ اِک دن رہیں بسنت میں اِک دن جئیں بہار میں اِک دن پھریں بے انت میں اِک دن چلیں خمار میں دو دن رکیں گرہست میں اِک دن کسی دیار میں (منیر نیازی) آپ مشہور پنجابی لوگ گیت ”جگنی ’کے ان مصرعوں سے تو آگاہ ہوں گے کہ‘ جگنی جاوڑی وچ روہی۔ اوتھے رو رو کملی ہوئی۔ اوہدی وات نہ لیندا کوئی۔ یعنی جگنی روہی کے ویرانے میں چلی گئی اور وہاں رو رو کر کملی ہو گئی اور پھر بھی کسی نے اس کی خبر نہ لی۔ ان دنوں بے چاری بسنت بھی جگنی ہو چکی ہے۔ دشمنوں کے نرغے میں آ گئی ہے۔ روتی ہے فریادیں کرتی ہے اور پھر بھی کوئی نہیں جو اس کے آنسو پونچھے ’اس کی خبر لے…
مستنصر حسین تارڑ سب شیشے سب شیشے‘ ساغر ‘ لعل و گہر دامن میں چھپائے بیٹھی ہوں سب ثابت و سالم ہیں اب تک اک رنگ جمائے بیٹھی ہوں ٭٭٭ یہ نازک موتی عزت کا اور ایماں‘ کانچ کا یہ پتلا یہ ساغرِ دل کا سرخ کنول لبریز میٔ احمر سے سدا چٹخے نہ خراش آئی اِن پر تم ان کی صفا دیکھو تو ذرا ہے جھل جھل ان کی آب وہی اور جگ مگ ان کی وہی ضیا ٭٭٭ پتھرائو تھا چومکھ ان پر بھی ٹکرائی تھی ان سے بھی دنیا دو نسوانی بانہوں نے مگر دیکھو ہر پتھر جھیل لیا (فہمیدہ ریاض) موت کی درانتی کاٹتی چلی جاتی ہے۔ بے جان کرتی چلی جاتی ہے‘ کچھ لحاظ نہیں کرتی کہ کون سی فصل ابھی کچ…
Social Plugin