مستنصر حسین تارڑ
سب شیشے سب شیشے‘ ساغر ‘ لعل و گہر دامن میں چھپائے بیٹھی ہوں سب ثابت و سالم ہیں اب تک اک رنگ جمائے بیٹھی ہوں ٭٭٭ یہ نازک موتی عزت کا اور ایماں‘ کانچ کا یہ پتلا یہ ساغرِ دل کا سرخ کنول لبریز میٔ احمر سے سدا چٹخے نہ خراش آئی اِن پر تم ان کی صفا دیکھو تو ذرا ہے جھل جھل ان کی آب وہی اور جگ مگ ان کی وہی ضیا ٭٭٭ پتھرائو تھا چومکھ ان پر بھی ٹکرائی تھی ان سے بھی دنیا دو نسوانی بانہوں نے مگر دیکھو ہر پتھر جھیل لیا (فہمیدہ ریاض) موت کی درانتی کاٹتی چلی جاتی ہے۔
بے جان کرتی چلی جاتی ہے‘ کچھ لحاظ نہیں کرتی کہ کون سی فصل ابھی کچی ہے‘ اس نے ابھی پکنا ہے‘ اس کے بوٹوں پر پھول کھلنے ہیں۔ گندم کی بالیاں نمودار ہونی ہیں‘ سرسوں کے پھول بسنت ہونے ہیں‘ بے دریغ کاٹتی چلی جاتی ہے ایسے بوٹوں کو بھی جن کی تخلیقی مہک سے ایک دنیا سرشار رہتی ہے۔
موت کی درانتی اندھی ہوتی ہے۔ حساب میں کمزور ہوتی ہے‘ کاٹتی چلی جاتی ہے جو لوگ مٹی کی قربت میں ہوتے ہیں۔ اسے اپنے خون پسینے سے سنیچ کر اسے گل و گلزار کرتے ہیں۔ خلقت کے لئے خوراک کے سامان پیدا کرتے ہیں‘ جو کسان ہوتے ہیں فصل کو تب درانتی سے کاٹتے ہیں جب وہ تیار ہو جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مسلسل کٹائی سے درانتی کے دندانے کُند ہونے لگتے ہیں اور وہ کٹائی کے دوران بوٹے چھوڑتی جاتی ہے۔
کچھ کٹ گئے‘ بہت رہ گئے‘ تب کسان اس کند درانتی کو لوہار کے پاس لے جاتا ہے اور لوہار اس درانتی کے دانت یا دندانے پھر سے تیز دھار اور تیکھے کر دیتا ہے اور پھر وہ تیز دھار ہو چکی درانتی ہر شے کو قتل کرتی جاتی ہے۔ ایک بوٹے کی جان بھی نہیں بخشتی۔ جو بھی راستے میں آتے ہیں‘ سب کٹ کٹ کر گرتے چلے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں موت کی درانتی کے دندانے ایسے تیکھے اور خنجر دھار ہوئے کہ اس نے تو ادب کی پوری فصل اجاڑ دی۔ ابھی ہم یوسفی صاحب کے سوگ میں تھے کہ فہمیدہ ریاض اس درانتی کی زد میں آ کر کٹ گری۔ پھر الطاف فاطمہ مر گئی۔ پروین عاطف کے مرنے کی خبر چلی آئی۔ ابصار عبدالعلی جانے کس جہاں میں خبریں پڑھنے کے لئے چل دیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے عینک سنبھالتے ہوئے رخت سفر باندھ لیا۔
ان سب کو جو میری ادبی زندگی کے سفر میں میرے ساتھی تھے انہیں یوں دھڑا دھڑ تو نہیں مرنا چاہیے تھا۔ کچھ تو سانس لیتے تاکہ میں بھی اپنا سانس درست کر سکوں کہ میرے کاندھوں میں درد ہو رہا ہے۔ ان کے جنازے اٹھائے نہیں لیکن اس کے باوجود میرے کاندھوں میں درد ہو رہا ہے۔
جیسے تب میرے کاندھے تھک گئے تھے جب میں نے پروین شاکر کے جنازے کو کاندھا دیا تھا۔ تب تو میرے ہاتھ بھی تھک گئے تھے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے اُسے گور میں اتارا تھا۔ 1974ء میں فہمیدہ ریاض نے مجھے پہلا خط لکھا جب وہ سبط حسن کے ساتھ ایک نئے ترقی پسند ادبی مجلے کا آغاز کر رہی تھیں۔
’’پتھر کی زبان‘‘چھپ چکی تھی اور اس کے تازہ مجموعے ’’بدن دریدہ‘‘ نے ہر سو غدر مچا رکھا تھا کہ اس کی کچھ نظمیں جنس کے نسائی جذبوں کی ترجمانی کرتی تھیں۔’’زبانوں کا بوسہ‘‘’’عشق تم جس کی تمنائی تھیں‘‘ ’’باکرہ‘‘ ’’لائو ہاتھ لائو ذرا‘‘ ’’مقابلہ حسن‘‘ اور ’’بدن دریدہ‘‘ ایسی شاہکار نظمیں جنہوں نے اردو شاعری کے بانجھ پن کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
کشور ناہید ان دنوں پاکستان نیشنل سنٹر کی انچارج تھی۔ فہمیدہ کے بہت قریب تھی اس نے ’’لاہور میں‘‘ بدن دریدہ‘ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ فہمیدہ نے مجھے خط لکھا میری خواہش ہے کہ ’’فاختہ‘‘ کا مصنف اس تقریب میں کچھ نہ کچھ تو کہے۔ مجھے یاد نہیں کہ صدارت کس کی تھی(کشور کو یاد ہو گا) البتہ میرے علاوہ یوسف کامران نے بھی فہمیدہ کی شاعری کے بارے میں ایک بھر پور مضمون پڑھا۔
فہمیدہ لگتا تھا کہ قدرے بناوٹ سے ذرا بن کر بولتی ہے لیکن یہ اس کا قدرتی انداز تھا جیسے بَن کی کوئل بن کر بولتی ہے۔ اس کی غلافی آنکھیں اسیر کرتی تھیں‘ زہرہ نگاہ کے بعد یہ فہمیدہ ریاض تھی جس نے لاہور کو موہ لیا۔ اس کی دل کشی میں کچھ شک نہ تھا۔ اس دوران ایک کالم نگار نے ایک ایسا ’’شگفتہ‘‘ کالم جان بوجھ کر لکھا جس نے فہمیدہ کو رنجیدہ کر دیا۔
مجھے بھی دکھ میں مبتلا کر دیا۔ میں اس کالم کی تفصیل میں نہیں جائوں گا۔ اس میں کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ فہمیدہ نے شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان دنوں وہ ایک ناولٹ لکھ رہی تھی تو اس نے اپنے ایک خط میں کچھ یوں لکھا کہ بھئی نثر لکھنا تو شاعری سے زیادہ جان لیوا ہے’’مثلاً میرا ایک کردار کرسی پر بیٹھا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ وہاں سے اٹھ کر دروازے سے باہر چلا جائے تو سمجھ نہیں آتی کہ اُسے کیسے وہاں سے اٹھا کر دروازے تک لے جائوں۔ کیا لکھوں‘ یہ کہ وہ اٹھا اور دروازے سے باہر چلا گیا۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی تم بتائو کہ اگر تم ہوتے تو کیسے اسے اٹھا کر دروازے تک لے جاتے۔ کتنے برس گزر گئے۔ پورے چوالیس برس جب وہ لاہور آئی اور ہم پہلی بار ملے تھے۔ ان برسوں کی تفصیل بیان کرنے کی مجھ میں سکت نہیں رہی۔ اس دوران ضیاء الحق کا نزول ہو گیا اور فہمیدہ بھی اس کے قہر کی زد میں آ گئی۔
فیض صاحب بیروت چلے گئے۔ فراز لنڈن جا مقیم ہوا اور فہمیدہ ریاض انڈیا چلی گئی وہ آسانی سے لنڈن بھی جا سکتی تھی تو وہ انڈیا کیوں گئی۔ اس پر جو گزری تھی وہی جانتی تھی۔ ہم تو نہیں جانتے لیکن انڈیا میں بھی اس نے ’’تم بھی ہم جیسے نکلے‘‘ ایک مشاعرے میں پڑھ کر ان کو اپنا بیری بنا لیا۔
ان برسوں میں کبھی لاہور‘ کبھی کراچی اور اکثر اسلام آباد میں ہمارا آمنا سامنا ہوتا رہا اور وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے باوجود اپنے روزگار کے لئے بہت دربدر ہوئی۔ اس کا خاوند ظفر اجّن اکثر میرے ہاں ایم این اے ہوسٹل میں چلا آتا اور ہم فہمیدہ کے علاوہ دنیا جہان کی باتیں دل کھول کرکرتے۔
میں یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ فہمیدہ اور میں دوست تھے لیکن ہمارے درمیان بہت کچھ مشترک تھا اور اس میں کچھ دل کی باتیں بھی تھیں۔ پرانے زمانوں کے کچھ شکوے تھے۔ اسے دکھ دینے والے میرے جاننے والے تھے۔ اس کا اکلوتا جوان بیٹا امریکہ میں ایک حادثے کا شکار ہوگیا۔
وہی بیٹا جو ابھی اس کی کوکھ میں تھا اور وہ نظموں میں اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔ ’’میرے لال‘‘ سوتا رہ! میرے لال میری گرم کوکھ میں ۔سوتا رہ! کتنی دُور دُور تک پھیل گئی جڑ تری اور بہت گہری اور بہت گہری سارے تن میں تو ہے میرے لال میرے لال سوتا رہ! اور پھر اس کی پہلی سالگرہ پر فہمیدہ اسے لوریاں دے رہی ہے۔
اور آمریت کی سیاہ رات کی سنائونی دے رہی ہے۔ لال تجھے چھاتی پہ لٹا لوں‘ سن میرے من کی بات جس دن تو چندا سا جنما‘ کالی تھی وہ رات جس دن تجھ کو مان بھری ممتا کا دودھ پلایا خون چوستا وحشی اس دن شہروں میں در آیا جب ترا مکھڑا چوم کے میں نے لی تھی تیری بلائیں کوڑے کھاتے بیٹے اس دن دیکھ رہی تھیں مائیں ۔۔۔۔وہی فہمیدہ کا لال مر گیا۔ فہمیدہ بھی مر گئی۔
میں نے اسے فون بھی نہ کیا۔ اسے کیا کہتا‘ بہت افسوس ہوا۔ بیٹوں کی موت کے بارے میں تعزیت کے لفظ ایجاد کئے ہی نہیں گئے۔ بعد میں جب ملاقات ہوئی تو پھر بھی میں نے بیٹے کی موت کی بات نہ کی۔ ایک مر چکی ماں سے بھلا کوئی کیا بات کرے۔ مجھے اس کی جان لیوا بیماری کی خبر ملی تو میں نے اسے فون کیا۔
وہ اسی مدھر لہجے میں مجھے اپنی بیماری کی تفصیل بتاتی رہی اور ہنستی رہی کہ مستنصر ایسا تو ہونا تھا۔ پھر وہ مر گئی۔ یہیں لاہور میں مر گئی اور مجھے خبر تک نہ ہوئی کہ وہ میرے آس پاس کہیں دفن کر دی گئی ہے۔ لاہور کی نورجہاں کراچی میں دفن ہوئی اور شاعری کی نورجہاں نے لاہور کی مٹی میں دفن ہونا پسند کیا اور مجھے خبر ہی نہ ہوئی: جو اپنی کہنی کہہ گزری تا عمر نہ ہرگز پچھتائی ۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو