کوئٹہ کا لاپتہ کیمپ اور لاہور کا حیا کیمپ

ظفر معراج

ابھی کچھ دن پہلے بلوچستان میں اپنے لاپتہ عزیزوں کی بازیابی کے لئے بین کرتی ہوئی خواتین اور بچوں کے خشک، زرد اور مرجھائے ہوئے چہروں کا کیمپ اور اُس کے چند روز بعد اپنے متوقع اغوا برائے تاوان کا خوف لے کر اپنے ایک اغوا شدہ ڈاکٹر کی بازیابی کے بہانے کلینکس چھوڑ کر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ کے بوکھلائے ہوئے ڈاکٹروں کے چہرے دیکھنے کے بعد جب میں نے لاہور میں لگے ’حیا کیمپ‘ کے نوجوانوں کے چہرے دیکھے، تو اُن کی شادابی اور عزم عالی شان نے مجھے بے حد متاثر کیا۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے بیرونی گیٹ کے آگے لگے شامیانے میں بیٹھے اُن نوجوانوں کو دیکھ کر پہلی نظر میں ایسا تاثر ملا، جیسے’حیا‘ کوئی دوشیزہ ہے، اور یہ کیمپ اُس کے ساتھ کسی ظلم، زیادتی یا ناانصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر لگایا گیا ہے۔ لیکن اُن کی نگاہوں سے جس طرح ہر گزرتی ہوئی دوشیزہ مشکوک ہو کر گزر رہی تھی، اُس سے کچھ اور گماں ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا یہ کیمپ یقیناً تجاوزات کے خلاف ہو گا، کیونکہ میں نے ایسا ہی ایک کیمپ لبرٹی مارکیٹ میں بھی دیکھا تھا، جس کے کارندے تجاوزات سے زیادہ خواتین پر اپنی نظریں مرکوز کئے ہوئے تھے۔

میری حیرت جلد ہی میرے میزبان نے دور کر دی۔ اُس نے بتایا کہ یہ دراصل ایک Anti Valantine day Campہے، جو کچھ باحیا نوجوانوں نے اپنی مسلمان بہنوں کو بے حیائی سے باز رکھنے کے لئے لگایا ہے۔ مزید پتہ چلا کہ یہ وہی نوجوان ہیں، جو اپنی کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر پنجاب یونیورسٹی میں نامحرم اختلاط پر کڑی نظر رکھنے کے لئے ہر وقت چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ اور سنا ہے وہ اتنے منظم، چوکس اور سخت ہیں، کہ پنجاب یونیورسٹی کے نر، مادہ پرندے بھی باہمی اختلاط کے لئے یونیورسٹی کے اوقات کار کو ناموزوں سمجھتے ہیں۔ اور ملاپ کے لئے یونیورسٹی گیٹ کے بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ کاش یہ نوجوان اپنی ان کوششوں کو یونیورسٹی کا معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے وقف کرتے، تو پنجاب یونیورسٹی کو بین الاقوامی رینکنگ میں کوئی نمایاں مقام ضرور ملتا۔ لیکن ہم مسلمانوں کو دنیا کی رینکنگ سے کیا مطلب۔ ہمیں تو اپنی آخرت سنوارنی ہے۔

مجھے ’حیا کیمپ‘ کے رضاکاروں کے چہروں پر نسیم حجازی کے ناولوں والے ہیروز کی نورانی جھلک دکھائی دے رہی تھی، جن کی ایک آنکھ میں محبوب کی جدائی کے اشک ہوتے تھے اور دوسری میں دشمن کے لئے خون اُتر تا تھا۔ ان کیمپس سے کچھ فاصلے پر انار کلی کی دکانوں میں وہ سب کچھ فروخت ہو رہا تھا، جو اس دن کی مناسبت سے خریدا جاتا ہے۔ میں نے ایک پھول بیچنے والے باریش بزرگ سے پوچھا، کہ اُس کے کاروبار پہ اس کیمپ کا کتنا اثر پڑا ہے ؟ اُس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’دونوں کی دکان چل رہی ہے پائیان (بھائی جان)۔ ہماری بھی اور اُن کی بھی‘۔

ویسے ایک طرح سے سچ ہی بولا اُس نے۔ یقینا ایسے کیمپس کے اثرات ویلنٹائن ڈے پر ہونے والے کروڑوں بلکہ اربوں کے کاروبار پہ نہیں پڑتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ سوائے اُن نوجوان لڑکے لڑکیوں کے، جو ان کیمپس کے آگے سے اس خوف سے اپنی ہنسی دبا کے گزر رہے تھے کہ اگر قہقہہ ابل پڑا تو بے حیائی کے الزام میں دھر لئے جائیں گے۔ نہ تو پھولوں والوں نے دکانیں بند کیں۔ نہ چاکلیٹ والوں نے بیچنا چھوڑ دیا۔ نہ دوسرے تحفے تحائف فروخت کرنے والوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی کوریئر سروسز نے اس جذبہ انسداد بے حیائی سے متاثر ہو کر “sentiments”کے نام پہ اپنی بکنگ روک دی۔ فیس بک، ٹیوٹر اور واٹس ایپ پر بھی بے حیائی کے اعلانات کے باوجود محبت کے پیغامات کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔

ویسے اگر پریمی جوڑوں کا ایک دوسرے سے لفظی اظہار محبت، وعدہ و پیمان، تبادلہ تحفہ و تحائف مع ایک دوسرے کی آنکھوں میں اترنا اور ایک دوسرے کو خواب دکھانا فحاشی اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے، تو پھر ویلنٹائن ہی کیا، لاہور میں ایسے بیسیوں مقامات ہیں جہاں ایسے حیا کیمپس کی ضرورت سال بارہ مہینے پڑتی ہے۔ ان میں کچھ کی نشاندہی تو میرے جیسا نووارد بھی کرسکتا ہے۔ مالز، سینماز اور ریسٹورنٹس کی بات تو آپ رہنے ہی دیں۔ اس طرح کی بے حیائیاں آپ کو لاہور کے بڑے باغوں اور پارکس کی ہر بنچ پر، ہر درخت کے نیچے اور ہر تاریخی مقام و مسجد کے چوباروں اور سیڑھیوں پہ نظر آئیں گی۔ آپ صرف شامیانے اور قناتیں لگالیں، رضاکار آپ کو خودبخود مل جائیں گے۔ وہ سب لوگ آپ کے کیمپ کا حصہ بنیں گے، جو بناکسی نامحرم کے وہاں آئے ہیں۔ اس طرح کے کیمپس تو من حیث القوم ہم سب کے دماغوں میں لگے ہوئے ہیں، اجتماعی عمل کے لئے صرف شامیانے چاہئیں۔ لیکن ایک بات یاد رہے، کہ ان کیمپس کی وجہ سے مقامی دکانداری پر تو شاید اثر نہ پڑے، لیکن آپ کی بین الاقوامی دکانداری بہت متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پہ ٹورازم۔

ان حیا کیمپس نے مجھے پچھلے سال کے ویلنٹائن کی یاد دلا دی۔ جب میری بیٹی اسکول سے واپس آئی، تو بے اختیار قہقہے لگاتی ہوئی وہ اپنی ایک کلاس فیلو کی روداد سنانے لگی۔ تب مجھے پتہ چلا کہ اس دن کے موقع پر کئی اسکولوں اور کالجز میں بچوں کے باقاعدہ بیگز چیک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی اُس دن بیٹی کی فرینڈ کے بیگ سے ایک چاکلیٹ نکلا تھا۔ اسکول کی پرنسپل نے لڑکی پر بہت زور ڈالا کہ وہ اس چاکلیٹ کے دہندہ یا وصول کنندہ کا نام بتائے۔ کافی دیر تک سارے اسکول کے سامنے تماشا بننے کے بعد اُس لڑکی کی ماں نے آکے اُس کی جان چھڑائی۔ یہ بتاکر کہ وہ چاکلیٹ اُس نے خود ہی اُسے لنچ پہ کھانے کے لئے دیا تھا۔ یہ سارا منظر انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ جس پر ہنسنا بھی چاہئے تھا۔ مگر میری بیٹی ہنستے ہنستے شاید اپنی دوست کی بیچارگی کا تاثر یاد کرکے روپڑی۔ اس خوف سے کہ کل اُس کے ساتھ بھی کوئی اس طرح کا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ دوسرا واقعہ ایک نوجوان کا ہے۔ روتے روتے اپنی کہانی شروع کی اور آخر میں ہنس پڑا۔ اُس بیچارے کو کچھ حیا داروں کے ڈر سے اپنی منگیتر کو بہن کہہ کر متعارف کروانا پڑا۔ ظالموں کو پھر بھی یقین نہیں آیا۔ سر مونڈھ دیا اُس کا۔ بھئی اگر کچھ لوگوں نے اس ویلنٹائن ڈے کو سسٹر ڈے قرار دیا ہے، تو اس بات کی بھی اجازت دیں کہ لوگ اپنی ’بہنوں ‘کے ساتھ سیر و تفریح اور تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کرسکیں۔

بہرحال ویلنٹائن ڈے ایک بار پھر خوف و خواہش کے مضحکہ خیز حالات و واقعات سے مزین ہوکر گزر گیا۔ لیکن ایک سوال چھوڑ گیا۔

کیا ہم دہشت ناک حد تک مضحکہ خیزی کا شکار ہو چکے ہیں؟

اگر ایسا ہے، تو بہت بُرا ہے۔ کیونکہ روس سے لے کر فرانس تک ہر انقلاب سے پہلے اُس معاشرے کے حالات و واقعات اُن کے کہانی کاروں کے مطابق کم و بیش ایسے ہی تھے۔ یعنی دہشت ناک حد تک مضحکہ خیز۔ ایسی مضحکہ خیزی کسی بھی معاشرے کے زوال کی آخری نشانی ہوتی ہے۔

اُن معاشروں میں انقلاب اس وجہ سے آیاکہ اُن کے کہانی کاروں نے اپنے لوگوں کو وہ آئینہ دکھایا، جس میں وہ اپنی مضحکہ خیز صورت دیکھ کر اپنی شکلیں، حلیے، حرکتیں اور خدوخال ٹھیک کرسکیں۔ مگر ہم اس معاملے میں کچھ بدقسمت ہیں۔ کیونکہ ہم یا تو ایسے آئینے بننے نہیں دیتے، یا منٹو جیسے کہانی کاروں کی صورت میں توڑدیتے ہیں۔ باقی جو لٹریچر یہاں پاپولر ہے اور بہت پڑھا جاتا ہے اُس میں تو یہ مضحکہ خیزی ہیروازم کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ (نام نہیں لوں گا ورنہ سر منڈھوانے کی حالت پیدا ہو جائے گی)۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ نسیم حجازی اور رضیہ بٹ کو ملا کر لکھا جا رہا ہے۔ جس سے بیک وقت دل بھی جوڑے جا رہے ہیں اور ایمان بھی تازہ کئے جا رہے ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں کہاں کا آئینہ، کہاں کا سدھار اور کہاں کا انقلاب۔ یہ مضحکہ خیزی ایسے ہی جاری رہے گی۔ دیکھتے ہیں اگلے ویلنٹائن میں کیا ہوتا ہے۔