ماہرین کا خیال ہے کہ کسی صدمے کے بعد آپ کے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ نقصان آپ کا دماغ پہنچاتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے محققین نے شکستہ دل سنڈروم کی غیر معمولی صورت حال سے دو چار افراد پر تحقیق کی ہے۔
اس میں دل کا کمزور پڑجانا اور ناکام ہو جانا اچانک ہوتا ہے اور یہ عام طور پر کسی تناؤ یا جذباتی واقعے جیسے کسی کے مرنے، کھو جانے یا جدا ہوجانے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
اس کو ابھی پوری طرح سمجھا نہیں جا سکا ہے لیکن یورپی ہارٹ جرنل میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ تناؤ یا دباؤ میں ذہنی ردعمل اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
سانس نہ آنا اور درد
اسے 'تاکوٹسوبو سنڈروم' بھی کہا جاتا ہے جو انسان کے ٹوٹے ہوئے دل سے اسی نام کے جاپانی برتن سے مشابہ ہے۔ شکستہ دل سنڈروم صدمے کے سبب ہوتا ہے۔
یہ دل کے دورے سے مختلف ہے جو کہ دل کی شریانوں کے بند ہونے سے ہوتا ہے لیکن اس کی علامات ایک جیسی ہیں یعنی سانس لینے میں دشواری اور سینے میں درد۔
عام طور پر کوئی ناخوشگوار واقعہ اس کا محرک ہوتا ہے لیکن شادی یا نئی ملازمت جیسے کسی بڑے پرجوش موقعے کو بھی اس سے منسلک کیا جاتا ہے۔
یہ عارضی ہو سکتا ہے اور دل کے پٹھے وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائیں لیکن بعض اوقات بعض لوگوں کے لیے یہ مہلک بھی ثابت ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریبا ڈھائی ہزار لوگ اس کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں۔
اس کے قطعی سبب کا علم نہیں ہے لیکن ماہرین کا خيال ہے کہ اس کا تعلق دباؤ کے ہارمون ایڈرینیلائن کی بڑھی ہوئی سطح سے ہو سکتا ہے۔
پہیلی
زیورچ یونیورسٹی میں ڈاکٹر جلینا غادری اور ان کے ساتھیوں نے شکستہ دل سنڈروم والے 15 مریضوں کے دماغ کی جانچ کی کہ ان کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔
ان کے دماغ کے سکین کا مقابلہ جب 39 صحت مند افراد کے سکین سے کیا گیا تو واضح فرق نظر آیا۔
اس میں دماغ کا جو حصہ جذبات اور غیر حساس یا جسم کے خودکار رد عمل جیسے دھڑکن وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے اس حصے سے بہت کم مواصلات دیکھے گئے۔
دماغ کے یہ حصے وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دباؤ کے ردعمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ڈاکٹر غادری نے کہا: 'جذبات کو دماغ میں پراسس کیا جاتا ہے اس لیے یہ سمجھ میں آتا ہے ہے کہ اس بیماری کی ابتدا دماغ میں ہوتی ہے جو اوپر سے نیچے آتی ہے اور دل کو متاثر کرتی ہے۔'
اس کے قطعی طور پر صحیح راستے کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکا ہے اس لیے اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
دل کی شکستگی سے دو چار مریضوں کے دماغ کے سکین اس سنڈروم سے قبل اور اس کے ہونے کے وقت کے موجود نہیں ہیں اس لیے محققین یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ آیا دماغ کے اس سے مواصلات میں کمی تاکوٹسوبو سنڈروم کا سبب ہے یا اس کا الٹ درست ہے۔
کارڈیومایوپیتھی یوکے کے چیف ایگزیکٹو جوئل روز نے کہا: 'یہ اہم تحقیق ہے جس سے ہمیں کارڈیومایوپیتھی کی ایک قسم کو سمجھنے میں مدد ملے گی جسے عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور وہ اب تک ناقابل حل پہیلی بنا ہوا ہے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'تاکوٹسوبو کارڈیومایوپیتھی سے دوچار افراد جن کی ہم مدد کرتے وہ یقینا ان حالات میں دماغ کے کردار کو سمجھنے کی کوششوں کا خیرمقدم کریں گے کہ دوسروں کے مقابلے میں بعض لوگ اس سے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں۔
'ہمیں امید ہے کہ اس تحقیق سے اس شعبے پر مزید روشنی پڑے گی اور نیوروسائنسدانوں اور کارڈیو کے ماہرین کے درمیان وسیع تعاون ہوگا۔'
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن سے مالی امداد پانے والی ایبردین یونیورسٹی کی پروفیسر ڈانا ڈاوسن نے کہا: 'یہ تحقیق ان چیزوں کی تصدیق کرتی ہے جس کے متعلق ہمیں بہت پہلے سے شبہ تھا کہ تاکوٹسوبو میں دماغ اور دل کا کوئی نہ کوئی رشتہ ہے۔'