پریشان کن عورت مارچ کی چند غیر شائع شدہ تصاویر

عدنان خان کاکڑ
مشہور پوسٹر ”میرا جسم میری مرضی“ کے بعد اس برس کے عورت مارچ میں چند نئے نعرے ان خواتین کے پوسٹروں دکھائی دیے۔ ان میں سے چند پریشان کن نعرے کچھ یوں تھے
”لو، بیٹھ گئی صحیح سے۔ مطلقہ اور خوش باش۔ گھٹیا مرد سے آزادی، سر درد سے آزادی۔ کھانا گرم کر دوں گی، بستر خود گرم کرو۔ مارو گے تو مار کھاؤ گے۔ مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے۔ میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے۔ میرے کپڑے میری مرضی۔ اکیلی، آوارہ، آزاد۔ میں آوارہ، بدچلن۔ تو کرے تو مرد، میں کروں تو بدکردار۔ خبردار، گنہگار عورت آ رہی ہے۔ اپنے عضوئے تناسل کی تصویریں اپنے پاس رکھو۔ نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں؟ “
ان پر نیک طینت مرد و زن نے خوب لے دے کی اور کہا کہ یہ تو عام عورت کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ یہ تو امیر طبقے اور این جی او آنٹیوں کے مسائل ہیں، عام پاکستانی عورت کا ان سے کیا تعلق؟ عام عورت کا مسئلہ تو تعلیم، صحت، گھر کا کام کاج اور بجٹ، ملازمت وغیرہ ہے جنہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے، نیز ان مظاہروں میں سب مغرب زدہ بگڑی ہوئی عورتیں ہی تھیں اور کسی معقول عورت کو معقول نعرے کے ساتھ ان مظاہروں میں نہیں دیکھا گیا۔ اسی جائز پریشانی کو دیکھتے ہوئے راقم نے عورت مارچ کے مزید نعرے اکٹھے کیے ہیں جو عوام کی نظروں میں نہیں آئے تھے۔ یہ نعرے مندرجہ ذیل ہیں۔
میرا نام آسیہ ہے اور میں کبھی سکول نہیں گئی۔
کب تک؟ ”بیٹی بے تعلیم“۔
پڑھی لکھی عورت، پڑھا لکھا معاشرہ۔
میں ریپ وکٹم اور ان کی ان سنی کہانیوں کے لئے مارچ کرتی ہوں۔
جنسی ہراسانی کے لئے زیرو برداشت۔
آئیں میریٹل ریپ کے بارے میں بات کریں۔
عورتیں تمہارے باکسنگ کے تھیلے نہیں ہیں۔ نہ ہی جسمانی طور پر اور نہ جذباتی طور پر۔
گھر میں تشدد کوئی کھیل نہیں ہے۔
گھریلو تشدد کے قانون کو فی الفور منظور کیا جائے اور متنازع سیکشن کو خارج کیا جائے۔
عورتوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
گھر کا کام، سب کا کام۔
میں ایک ایسا گھر بناؤں گی جہاں سے تم مجھے باہر نہیں پھینک سکو گے۔
جہیز کی مانگ، بے غیرتی کا کام۔
جہیز خوری بند کرو۔
میں غیرت کے نام پر قتل کو بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں۔
تیزاب سے حملے کرنا بند کرو۔
جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جبری طور پر اٹھائے گئے۔
شہریوں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
افضل کوہستانی کو انصاف فراہم کیا جائے۔
مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔
آدھی نہ ادھوری ہوں، برابر اور پوری ہوں۔
ہمارا مطالبہ: امن، صحت، تعلیم، روزگار، صاف پانی۔
سب کے لئے یکساں حقوق۔
ماں ہوں، بہن ہوں، گالی نہیں ہوں۔
میں بھی انسان ہوں، تمہاری پگڑی کی شان نہیں ہوں۔
کہتے ہو اسلام عورتوں کو سب حقوق دیتا ہے، مگر کیا تم اس جائیداد میں شرعی حق دیتے ہو؟
معذور خواتین: کیا ہم اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟
آدمی جنگ کرتے ہیں، عورتیں اور بچے اس کے مصائب کا شکار ہوتے ہیں۔ امن۔
جنگ کے خلاف عورتیں۔
ہنزہ سے: ایک ملکہ کی طرح سوچا کرو۔ ایک ملکہ ناکام ہونے سے نہیں ڈرتی۔ ناکامی عظمت کی راہ کا ایک سنگ میل ہے۔
کیا آپ اپنے گھریلو ملازمین کو کم از کم اجرت دیتے ہیں؟
گھریلو ملازمین کو سماجی اور معاشی تحفظ دو۔
کم از کم اجرت تیس ہزار روپے کی جائے۔
ایک ہی قسم کے کام کی ایک ہی قسم کی اجرت ہمارا حق۔
یکساں کام یکساں اجرت۔
زچگی (کی) چھٹیوں میں اضافہ کیا جائے۔
ہر عورت کو محفوظ کام کی جگہ کا حق ہے۔
ہوم بیسڈ ورکرز کا مطالبہ: سماجی اور معاشی تحفظ۔
امید ہے کہ نیک طینت مرد و زن معترضین ان ”معقول عورتوں“ کے ان ”معقول نعروں“ کی اتنی زیادہ پبلسٹی کریں گے اور ہر جگہ انہیں اتنا زیادہ شیئر کریں گے کہ عورت مارچ کے پریشان کن نعرے ان میں دب جائیں۔