یہ عورتیں اچھی نہیں

 
’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘ ۔ ’کھانا گرم کردیتی ہوں، بسترخود گرم کرلو‘ ۔ ’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘ ۔ ’ہمارا ٹائم بھی آئے گا‘ ۔
ارے۔ غضب خدا کا۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔ نہ کوئی شرم نہ کوئی حیا۔ کیسی عورتیں ہیں یہ؟ یہ سب لکھتے ہوئے اور پھر تصویر بنواتے ہوئے شرم نہ آئی انہیں۔ دنیا کو منہ کیسے دکھائیں گی یہ بے حیا عورتیں؟ یہ عورتیں بالکل اچھی نہیں۔
ہاں ہاں بالکل اچھی نہیں۔
اچھی عورت تو وہ ہوتی ہے جو کبھی بس میں سفر کرے اور پچھلی نشست سے کوئی اسے تنگ کرے۔ اپنے ہونے کا احساس دلائے تو وہ بس گھبراکر پہلو بدل لیتی ہے۔ اور اگلی سیٹ خالی ہونے کا انتظار کرتی ہے تاکہ آگے جاکر بیٹھ جائے۔ لیکن پلٹ کر اس کو جواب نہیں دے سکتی کیوں کہ زورزور سے چیختی خواتین کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔
اچھی عورت تو وہ ہوتی ہے جسے فیس بک پر ان باکس میں مرد حضرات عجیب عجیب تصاویر بھیجیں۔ اور وہ بس انہیں جواب دیے بغیر بلاک کردیتی ہے۔ وہ کبھی بھی ان تصاویر کو اس شخص کے پروفائل کے ساتھ اٹیچ کر کے دنیا کودکھانے کی غلطی نہیں کرتی۔ کیونکہ اگر ایسا کیا تو آوارہ اور بد چلن کہلاتی ہے۔
اچھی عورت تو وہ ہوتی ہے جسے کبھی دفتر میں تو کبھی سر راہ تو کبھی کہیں اور سیکشوئلی ہراس کیا جاتا ہے۔ بہانے بہانے سے اسے سر سے پیر تک گھور گھور کر دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس نے اندر کیا پہنا ہے پورا ایکسرے کیا جاتا ہے۔ اس کے سامنے ذومعنی جملے کہے جاتے ہیں۔ بہانے بہانے سے اسے چھوا جاتا ہے لیکن وہ ضبط کر کے خاموشی سے کام کر کے گھر چلی جاتی ہے۔ وہ چاہ کر بھی چیخ نہیں سکتی کیوں کہ اچھی عورتیں چیختی چلاتی اچھی نہیں لگتیں۔
اچھی عورت وہ ہوتی ہے جو ہمیشہ چار دیواری میں رہتی ہے۔ گھر کے کام کرتی ہے۔ بچے پالتی ہے۔ جو یہ فیصلہ تک نہیں کرسکتی کہ آج شام کو کیا پکے گا۔ اس کے لئے بھی گھر کے سربراہ کی مرضی درکار ہوتی ہے۔ جسے اتنا بھی حق نہیں کہ اگربیمار پڑ جائے تو آرام کرلے۔ کیونکہ عورت کا تودوسرا نام خدمت ہے۔
عورتیں تو بس گھٹ گھٹ کے زندہ رہ سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت آزاد نہیں۔ اگر ہوتی تو کیوں اسے معاشرے میں مرد کی مدد درکار رہتی ہے؟ کیوں اسے باہر جاتے وقت باپ بھائی یا شوہر کا ساتھ چاہیے۔ کیوں راہ چلتے مرد اسے اپنے گھر کی عورتوں کی طرح عزت نہیں دیتے؟ کیوں اسے گوشت پوست کا ٹکڑا سمجھ کرمزا لینا اپنا حق سمجھتے ہیں؟
آج بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات ہوتے ہیں۔ خواتین کو چھوڑیے آج کل کی تو ننھی بچیاں اور بچے بھی محفوظ نہیں۔ اگر ہوتے تو قصور کی زینب۔ اورکراچی کی خدیجہ اپنے پڑوسی کی وحشت کی بھینٹ نہ چڑھتیں۔ آپ میں سے کئیوں کے ساتھ بھی بچپن میں ایسے واقعات ہوئے ہوں گے۔ سپارہ پڑھتے ہوئے مولوی صاحب۔ ڈرائیور۔ ہاؤس میڈ۔ یا پھر کوئی بھی رشتے دار۔ کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ کسی نے چھوا جس سے ناگواری کا احساس ہوا۔ آپ کے ساتھ نہ ہوا تو کسی اور کے ساتھ ہوا ہوگا۔ کبھی تو کسی سے سنا ہوگا۔ نہیں سنا تو اپنی بیسٹ فرینڈ کو بٹھاکر پوچھیں۔ ضرورت ایسا کوئی انکشاف ہوگا کہ پیروں تلے زمین نکل جائے گی۔
یہ جو ’واہیات سلوگنز‘ عورت مارچ میں پوسٹرز کی صورت میں اٹھائے گئے۔ یہ وہی دبی دبی چیخیں ہیں جو ہمارے معاشرے کی ہر اسعورت کے دل میں اٹھتی ہیں جنہیں دبایا جاتا ہے۔ یہ ہر اس عورت کی چیخ ہے جب اسے بس میں تنگ کیا جاتا ہے، جب اسے بچہ نہ ہونے پر طعنہ دیا جاتا ہے، جب اسے زبردستی سیکس کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔
خدارا۔ ان ’واہیات‘ نعروں کو براکہہ کر نظریں نہ چرائیے بلکہ اس طنز کے پیچھے چھپی کہانیوں کو جانیے جو شاید آپ کے آس پاس پنپ رہی ہیں۔