وسیم جبران
وائٹ کلر کی ٹویوٹا کرولا یونیورسٹی کی پارکنگ میں رکی تو کئی پیاسی نگاہیں اس پر مرکوز ہو گئیں پھر معمول کی طرح کار کا دروازہ کھلا اور مایا باہر نکلی۔ ہمیشہ کی طرح دوپٹے سے بے نیاز اور ارد گرد کے ماحول سے بے پرواہ، وہ ڈیپارٹمنٹ آف اردو کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ میرے نزدیک کھڑے حبیب اللہ نے زیرِ لب چند ایسے الفاظ کہے جنہیں نہ سننا ہی بہتر تھا۔ اس کے بعد وہ لپک کر اس کے پیچھے چل پڑا کیونکہ لیکچر کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
یہ نوے کی دہائی تھی اور ان دنوں یونیورسٹی میں جو صالحین کا گروپ تھا حبیب اللہ ان کا لیڈر تھا۔ ظاہر ہے ہر طالب علم مختلف بیک گراؤنڈ رکھتا تھا۔ کلاس میں ایسے لڑکے بھی تھے جو لڑکیوں سے دوستی کرنے میں پیش پیش تھے اور وہ بھی جو لڑکیوں کو دیکھ کر توبہ توبہ کا ورد کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس مخلوق سے دور رہنے کے مشورے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح لڑکیوں میں حجاب کرنے والی لڑکیاں بھی تھیں اوراس کے برعکس لباس زیب تن کرنے والی بھی تھیں۔
حبیب سب سے ملتا تھا اور سب کو لگتا تھا کہ وہی سب کا مددگار ہے۔ سب لڑکیاں اسے حبیب بھائی کہہ کر بلاتی تھیں۔ حبیب لڑکوں سے کہا کرتا تھا کہ کسی کے منہ سے کہہ دینے سے کوئی بھائی نہیں بنتا۔ بھائی فقط وہی ہوتا ہے جس سے خون کا رشتہ ہو۔ میری حبیب سے دوستی تو نہیں تھی لیکن اچھے تعلقات بہرحال تھے کیوں کہ مجھے یونیورسٹی میں رہنا تھا۔ میرے دوست سعید اور عامر تھے۔ ہم ادھر ادھر چھپ کر سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ عامر کو شاعری سے شغف تھا چناں چہ گاہے گاہے اس کے گھر میں شاعری کی محفل بھی جمتی تھی اور ہم ممنوعہ مشروبات سے بھی فیض یاب ہوتے تھے۔
سعید نے چند ناکام عشق کیے تھے اور ہنوز مایوس نہیں ہوا تھا میرا ریکارڈ بھی اس حوالے سے کچھ اچھا نہیں تھا۔ ہم نے کبھی کسی قسم کی ملمع کاری سے کام نہ لیا تھا چناں چہ چند ماہ میں ہی ہمارا گروپ نام پا چکا تھا اچھا یا برا اس پر میں تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں۔ اسی طرح مایا کے حوالے سے بھی طلبہ ایک رائے قائم کر چکے تھے۔ اسے امیر باپ کی بگڑی اولاد قرار دیا جاتا تھا لیکن اس بھی زیادہ بری بات یہ تھی کہ دبے دبے لفظوں میں اس کے کردار کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں کی جاتی تھیں۔
شروع شروع میں وہ اکیلی تھی پھر اس کی دوست ثنا بھی اس کے رنگ میں رنگنے لگی۔ آہستہ آہستہ چار پانچ لڑکیاں اس گروپ کا حصہ بن گئیں۔ سب سے زیادہ پریشانی حبیب کو تھی وہ یونیورسٹی کے ماحول کو پاکیزہ بنانے میں کوشاں تھا اور یہ لڑکی اس کی کوششوں پر پانی پھیرنے میں لگی تھی۔ مایا بے حد حسین بھی تھی۔ اس کے بدن کی تراش ایسی تھی کہ بلا شبہہ پھول اپنی قبائیں کتر کے اسے دیکھتے ہوں گے۔ اسے دیکھ کر آہیں بھرنے والے تو کئی تھے لیکن کچھ اس کے باپ کے اثر رسوخ سے ڈرتے تھے اور چند ایک نے مایا کے قریب آنے کی کوشش کی تو اس نے بڑی بے باکی سے ان کے دل کی حسرتیں ان کو بتا کر یہ جتا دیا کہ وہ کوئی لڈو یا پیڑا نہیں ہے جسے کوئی بھی اٹھا کر کھا لے گا۔
چناں چہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے تھے۔ اکثر یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات مال روڈ پر جاتے تھے اور کتابوں کی دکانوں میں پائے جاتے تھے۔ ایسی ہی ایک خوبصورت شام تھی جب میں کتابوں کی دکان میں کسی کتاب کی تلاش میں تھا تو مجھے مایا نظر آئی۔ آنکھیں چار ہوئیں تو سلام و دعا ہوئی۔ اتفاق سے وہ بھی اسی کتاب کی تلاش میں تھی۔
”مایا کیسی عجیب بات ہے میں ناول کی تلاش میں تھا اور غزل مل گئی۔ “ میں نے فلمی انداز میں کہا۔
مایا ہنس پڑی۔ ”تمہارے بارے میں سنا تھا، آج پتا بھی چل گیا؛ تو اسی طرح تم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہو۔ “ اس نے کہا۔
”آہ تم بھی بد گمان ہو گئیں۔ جبکہ میں نے تو ہمیشہ سچے دل سے محبت کی ہے یہ کم بخت لڑکیاں مجھے دھوکا دے جاتی ہیں۔ “ میں مصنوعی طور پر غم زدہ لہجے میں کہا۔
مایا مسکرا اٹھی۔ ”اچھا میں ناول تلاش کر لوں لگتا ہے تمام کاپیاں بک گئیں۔ “ وہ بولی۔
”مایا مجھے بھی ناول چاہیے لیکن ابھی کافی پیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو کر تلاش کر سکیں۔ “ میں نے تجویز پیش کی۔
”ہوں۔ کوئی حرج نہیں ہے، تو پھر چلیں۔ “ اس نے ایک لمحہ سوچ کر کہا۔
مایا ہنس پڑی۔ ”تمہارے بارے میں سنا تھا، آج پتا بھی چل گیا؛ تو اسی طرح تم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہو۔ “ اس نے کہا۔
”آہ تم بھی بد گمان ہو گئیں۔ جبکہ میں نے تو ہمیشہ سچے دل سے محبت کی ہے یہ کم بخت لڑکیاں مجھے دھوکا دے جاتی ہیں۔ “ میں مصنوعی طور پر غم زدہ لہجے میں کہا۔
مایا مسکرا اٹھی۔ ”اچھا میں ناول تلاش کر لوں لگتا ہے تمام کاپیاں بک گئیں۔ “ وہ بولی۔
”مایا مجھے بھی ناول چاہیے لیکن ابھی کافی پیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو کر تلاش کر سکیں۔ “ میں نے تجویز پیش کی۔
”ہوں۔ کوئی حرج نہیں ہے، تو پھر چلیں۔ “ اس نے ایک لمحہ سوچ کر کہا۔
چناں چہ ہم وہاں سے نکلے باہر مایا کی کرولا کھڑی تھی۔ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا مایا ڈرائیو کر رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یونیورسٹی میں کتنے لڑکے ہیں جو اس کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی حسرت میں مرتے ہیں انہیں اگر پتا چل جائے تو جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ ”یہ تم کیا سوچ سوچ کر مسکرا رہے ہو؟ “ مایا نے مجھے دیکھ لیا تھا۔
میں نے ٹالنے کے بجائے صاف صاف بتا دیا کہ کیا سوچ رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر ہنسنے لگی۔ ”اگر ایسی بات ہے تو کیوں نہ کل صبح تمہیں لفٹ دے دوں۔ “ اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”نہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں میں یونیورسٹی کی بس میں آتا جاتا ہوں۔ اچھا کسی بہترین کافی ہاؤس میں لے چلو۔ “ میں نے کہا۔ بہر حال ایک اچھی جگہ بیٹھ کر ہم کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گپ شپ کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم ناول کی تلاش میں بھٹکتے رہے آخر ایک چھوٹے سے بک سٹال سے ناول مل گیا مگر صرف ایک کاپی ملی تھی۔
”نہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں میں یونیورسٹی کی بس میں آتا جاتا ہوں۔ اچھا کسی بہترین کافی ہاؤس میں لے چلو۔ “ میں نے کہا۔ بہر حال ایک اچھی جگہ بیٹھ کر ہم کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گپ شپ کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم ناول کی تلاش میں بھٹکتے رہے آخر ایک چھوٹے سے بک سٹال سے ناول مل گیا مگر صرف ایک کاپی ملی تھی۔
میں نے مایا سے کہا کہ وہ ناول پہلے پڑھ لے میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ وہ مان گئی۔ پھر اس نے مجھے میرے کرائے کے فلیٹ پر اتار دیا۔ اس دن جو دوستی کا تعلق بنا تھا وہ کئی لڑکوں پر بجلی بن کر گرا تھا۔ کیوں کہ اگلے دن جب میں لڑکوں کے ایک گروپ میں گھاس پر بیٹھا تھا تو مجھے کئی جلی کٹی باتیں سننی پڑیں۔ پھر وہ آئی اور مجھے بلایا کہ ایک ضروری بات کرنی ہے۔ ہم کینٹین میں بیٹھ گئے۔ ثنا بھی آ گئی۔ مایا نے چائے منگا لی۔
ضروری بات کچھ بھی نہیں تھی ہم گپ شپ کرتے رہے پھر یونیورسٹی کا وقت ختم ہوا تو اس نے مجھے کار میں لفٹ دے دی۔ جب کار روانہ ہوئی تو پیچھے نہ جانے کیا کیا باتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے بعد حبیب سب سے پہلے میرے پاس آیا اس نے مجھے دنیا اور آخرت پر طویل لیکچر دینے کے بعد سمجھایا کہ بے راہ رو لڑکیوں سے کیسے بچنا چاہیے۔ اس نے اس بات پرافسوس کا اظہار بھی کیا کہ میں گمراہ ہو چکا ہوں اور مجھے عامر اور سعید کی دوستی چھوڑ کر صالحین کے گروپ میں شامل ہو جانا چاہیے۔
اس نے اتنا دماغ کھایا کہ اس شام پھر ہمیں عامر کے گھر میں محفل جمانی پڑی جس میں شاعری اور ووڈکا نے ہمارا خوب ساتھ دیا۔ تاہم کافی دیر بعد مجھے یاد آیا کہ مایا نے اسی شام مجھے ملنے کے لئے کہا تھا۔ اب کیا ہو سکتا تھا ان دنوں موبائل فون بھی نہیں تھے کہ میسیج کر دیتا۔ اگلے دن جب مایا سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے منہ پھر لیا۔ مجھے افسوس تو ہوا لیکن میں اس کے پاس چلا گیا۔ وہ غصے میں تھی۔ ”چلے جاؤ؛ میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ “
”مایا میری بات تو سن لو۔ مگر یہاں نہیں ادھر۔ “ میں نے سنجیدگی سے کہا۔ ہم تھوڑی دور ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے تا کہ دیگر طلبہ ہماری باتیں نہ سن سکیں۔ میں نے اسے حبیب کی باتیں اور شام کی محفل کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ ”یہ لڑکے تمہارے بارے میں بڑی بری رائے رکھتے ہیں، تمہارے لباس پر اعتراض کرتے ہیں تمہیں اچھی لڑکی نہیں سمجھتے۔ “ میں نے آخر میں کہا۔ ”ہوں۔ کیسی عجیب بات ہے کل لڑکیوں نے بالکل ایسی باتیں تمہارے بارے میں میرے ساتھ کی تھیں۔ اسی لئے میں تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ لڑکیاں تمہیں شرابی اور بد چلن کہتی ہیں اور مجھے مشورہ دے رہی تھیں کہ تم سے دور رہوں۔ “ مایا بھی سنجیدہ تھی۔
”تو پھر کیا ارادہ ہے؟ “ میں نے پوچھا۔ ”آج شام تم کیا کر رہے ہو؟ “ اس نے پوچھا۔ ”میں تو فری ہوں، کیوں؟ “ میں نے بتایا۔ ”تو پھر شام کو میرے گھر آ جانا، وہیں بیٹھ کر سوچیں گے۔ “ اس نے کہا اور میں نے سر ہلا دیا۔ شام کو جب میں اس کے گھر پہنچا تو اتفاق سے اس کے والد بھی گھر پر تھے۔
ان سے رسمی سی گفتگو ہوئی پھر وہ چلے گئے۔ مایا کی والدہ سے بھی ملاقات ہوئی لیکن وہ بھی زیادہ طویل نہیں تھی۔ کیونکہ انہیں بھی کسی پارٹی میں جانا تھا۔ میں پہلی بار مایا کے گھر آیا تھا۔ اس نے مجھے گھر دکھایا۔ کافی بڑا گھر تھا۔ باتوں باتوں میں پتا چلا کہ مایا کو پینٹنگ کا بھی شوق تھا۔ وہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لے گئی۔ وہاں اس کی بنائی ہوئی چند تصویریں میں نے دیکھیں تو تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ مایا کو مطالعے کا شوق تھا، بعض اوقات ہم کسی ناول پر تبصرہ کرتے تو وہ ناول کے کردار یا مصنف کے اسلوبِ نگارش کے حوالے سے ایسی مدلل گفتگو کرتی کہ میں داد دیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔
واقعی وہ بہت عمدہ نقاد تھی۔ یونیورسٹی فیلوز کا تذکرہ چلا تو حبیب کے ذکر پر مایا کے منہ میں جیسے کڑواہٹ گھل گئی۔ ہم نے اس دن بہت باتیں کیں دو تین دور چائے کے چلے۔ مایا کی ملازمہ نے کھانا تیار کر دیا تھا۔ ہم ڈائننگ روم میں آ گئے۔
کھانے کے دوران اچانک مایا نے کہا۔ ”سنو اگر تم چاہو تو تمہاری پسند کا کوئی بھی مشروب مل جائے گا۔ “
”کیا واقعی؟ کیا تم بھی شغف رکھتی ہو؟ “ میں نے پوچھا۔
”نہیں میں تو اس نعمت سے محروم ہوں البتہ قبلہ والد صاحب کبھی کبھی شغل فرماتے ہیں۔ ویسے ایک بات بتاؤں وہ فیض کے بہت بڑے فین ہیں۔ “ مایا نے مسکراتے ہوئے کہا
”کیا واقعی؟ کیا تم بھی شغف رکھتی ہو؟ “ میں نے پوچھا۔
”نہیں میں تو اس نعمت سے محروم ہوں البتہ قبلہ والد صاحب کبھی کبھی شغل فرماتے ہیں۔ ویسے ایک بات بتاؤں وہ فیض کے بہت بڑے فین ہیں۔ “ مایا نے مسکراتے ہوئے کہا
”اور میں غالب کا فین ہوں۔ کیا سمجھی؟ “ میں نے کہا۔ ”سمجھ گئی۔ “ مایا نے ہنستے ہوئے کہا۔ کھانے کے بعد کچھ دیر ہم لان میں ٹہلتے رہے۔ پھر میں نے واپسی کی ٹھانی بہت دیر ہو چکی تھی۔ اگلے دن وہ شاید حبیب کو چڑانے کے لئے چست قسم کا لباس پہن کر آئی۔ حبیب کا ردِ عمل جلد ہی آ گیا۔ مایا کی سہیلی ثنا اس کا پیغام لے کر آ گئی۔ جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ مایا اپنی حرکتوں سے باز آ جائے اور اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی تو حبیب صاحب یہ بھول جائیں گے کہ وہ کسی طاقتور باپ کی بیٹی ہے اور اسے سبق سکھا کر رہیں گے۔
جس وقت ثنا نے یہ پیغام سنایا میں وہیں موجود تھا۔ یہ باتیں سن کر مایا کے نتھنے تیزی سے پھولنے پچکنے لگے۔ ”یہ کیا مجھے سبق سکھائے گا میں اسے سبق سکھاؤں گی۔ “ مایا نے غصے سے کہا۔
”ریلیکس مایا۔ ایسے گھٹیا لوگوں کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ “ میں نے کہا۔ بہر حال اسے سمجھایا تو وہ رک گئی وگرنہ ابھی حبیب کو جواب دینا چاہتی تھی۔ پھر ایک واقعہ رونما ہو گیا۔ ہم تینوں کینٹین سے نکل رہے تھے کہ حبیب کا خاص دوست اکرم آتا دکھائی دیا۔
وہ ہم سے لاتعلق ہماری مخالف سمت جا رہا تھا لیکن قریب سے گزرتے ہوئے جان بوجھ کر مایا سے ٹکرا گیا۔ اس نے دانستہ مایا کو چھوا تھا۔ مایا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔ آس پاس کھڑے تمام طلبہ و طالبات یہ منظر دیکھ رہے تھے کچھ کے منہ کھلے تھے اور کچھ ہنس رہے تھے۔
اکرم کو اپنی شدید توہین محسوس ہوئی مایا کو گالی دے کر بولا۔ ”اتنی تکلیف ہے تو گھر میں بیٹھو۔ “
”اکرم حد میں رہو، بات مت بڑھاؤ۔ ورنہ بعد میں بہت پچھتاؤ گے“ میں نے ان دونوں کے بیچ میں آتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ اس سے پہلے کہ اکرم طیش میں کچھ اور کہتا۔
حبیب اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نمودار ہوا۔ ”دیکھو بی بی میں نے پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہاں شریف گھرانوں کی لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ ہم کسی کو یہاں کا ماحول خراب نہیں کرنے دیں گے۔ اب تم ایسے کپڑے پہنو گی تو کسی کا بھی ایمان تو خراب ہوگا۔ ویسے بھی تم کون سی نیک پروین ہو کیا ہوا جو اکرم۔ ۔ ۔ “ حبیب اپنا بیان جاری رکھتا لیکن مایا نے چیختے ہوئے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”ہاں ہاں میں آوارہ ہوں، میں بد چلن ہوں۔ میں اپنے آپ کو چھپا کر نہیں رکھتی، میں اکیلی سفر کرتی ہوں خود گاڑی ڈرائیو کرتی ہوں، اپنی مرضی سے دوست بناتی ہوں، اپنی رائے رکھتی ہوں اس لئے میں آوارہ ہوں۔ بد چلن ہوں لیکن تم اپنی نگاہوں میں شرم نہیں رکھتے پھر بھی نیک ہو، پردے میں چھپے بدن کا ایکسرے کر لیتے ہو پھر بھی پارسا ہو، لڑکی کو دیکھ کر اپنے تصورات میں ہی اس کی عزت تار تار کر دیتے ہو پھر بھی باکردار اور صالح ہو۔ لیکن میری بھی ایک بات غور سے سن لو اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے الزامات سے ڈرکر میں تمہاری محکوم یا غلام بن جاؤں گی تو یہ تمہاری بھول ہے۔ عورت کوئی جانور نہیں جسے تم کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتے ہو۔ عورت بھی انسان ہے۔ تم سمجھو یا نہ سمجھو لیکن وہ انسان ہی رہے گی۔ “ یونیورسٹی کی فضا تالیوں سے گونج اٹھی لیکن تالیاں بجانے والے ہاتھ بہت کم تھے۔