پاکستان میں گذشتہ چند روز سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صحافیوں کے خلاف ایک باقاعدہ مہم جاری ہے جس میں نہ صرف انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
اس مہم میں ملک کے سینیئر اور معتبر صحافیوں کی تصاویر لگا کر انھیں ملک دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاریوں کا مطالبہ کیا گیا۔
جیو نیوز سے وابستہ صحافی اور اینکر حامد میر کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا جس کے بعد سنیچر کو انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس قسم کے جھوٹے الزامات سے خوفزدہ نہیں۔
انھوں نے کہا ‘میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کے اگر آپ ہمیں گرفتاریوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں یا مطالبات کر رہے تو ایسا مت کریں اور آئیں ہمیں گرفتار کریں کیونکہ میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں جنرل پرویز مشرف نہیں ہوں جو گرفتاری کے ڈر سے پاکستان سے بھاگ گیا تھا۔ میں ایک سویلین پاکستانی ہوں ۔۔۔۔ اور آپ کے جھوٹے الزامات سے ڈرتا نہیں ہوں۔’
اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند روز سے ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ چل رہا ہے کہ صحافیوں کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ الٹا لٹکایا جائے۔
آؤ مجھے بھی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لو – حامد میرhttps://t.co/Evqu9Cs88w مکمل ویڈیو دیکھیں یوٹیوب پر#PressFreedom#ComeArrestMe#HamidMirOnlinepic.twitter.com/mxDNtffoLt
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) July 6, 2019
انھوں نے دعوی کیا کہ ادارے نہیں مگر پاکستان کے چند طاقتور ترین لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں ان سمیت تین، چار اور سینیئر صحافیوں کو یہ پیغام پہنچا رہے ہیں کہ ‘ہماری ایک لسٹ بنی ہوئی ہے جس میں آپ لوگوں کے نام ہیں اور آپ سب لوگ اندر ہو جائیں گے’۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ‘دھمکیاں دینے والے غیر سیاسی لوگ ہیں اور ان کی گفتگو سے یہ نہیں پتا چلتا کہ آیا وہ پورے ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں یا نہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں دھمکیاں دینے والوں کے اکاؤنٹس دیکھیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ ان کی پروفائل تصویروں کی جگہ فوجیوں کی تصویریں لگی ہیں۔ یہ لوگ حب الوطنی کے نام پر گالیاں اور دھمکیاں دے رہے ہیں اور وردی کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ انھیں آئی ایس پی آر کی جانب سے متعدد بار بتایا گیا کہ ان کا ایسے افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
حامد میر کے علاوہ ایک اور صحافی جسے اس سوشل میڈیا مہم میں بطور خاص نشانہ بنایا گیا وہ عاصمہ شیرازی تھیں۔
آج نیوز سے وابستہ خاتون صحافی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا انھیں گذشتہ ایک برس سے دھمکیوں، گالیوں اور غیرشائستہ زبان کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسے اکاؤنٹس کے خلاف کوئی کیوں نہیں اتنی تندہی سے ایکشن لیتا جتنا لکھنے اور بولنے والوں کے خلاف حرکت میں آتے ہیں۔’
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ ماہ وہ بیرون ملک گئی ہوئی تھیں اور ان کی غیر موجودگی میں چند افراد ان کے گھر کی نگرانی بھی کرتے رہے۔
عاصمہ کے مطابق ‘اس واقعے کو مقامی پولیس کے علم میں لایا گیا۔ مگر اس کے باوجود جب میں پاکستان واپس آئی تو ایک شخص میرے گھر میں داخل ہوا۔ وہ چور نہیں تھا مگر ان کی نیت کیا تھی یہ معلوم نہ ہو سکا۔’
ان کا دعوی تھا کہ انھیں حال ہی میں ایک سرکاری ذریعے سے پتا چلا کہ ان کے بارے میں خاص طور پر چھان بین کی جا رہی ہے۔
“ایک ہی وقت میں مختلف ذرائع سے ایک جیسے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم منھ بند کر لیں اور حکومت اور چند لوگوں پر تنقید بند کر دیں۔’
عاصمہ کا کہنا تھا “سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مجھے بتایا جا رہا ہے کہ اگلا نمبر آپ کا ہے اور ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔”
حامد میر اور عاصمہ شیرازی کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کا جواب حاصل کرنے کے لیے بی بی سی نے مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے رابطہ کیا تاہم ان کے جواب تاحال انتظار ہے۔
سینیئر صحافی ایم ضیاالدین نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں صحافت کے حوالے سے حالات اور بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کے مطابق صحافیوں کو دھمکی دینے کا سلسلہ سنہ 2018 کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے شروع ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ‘اصل حکمران’ ہر دس سے بارہ برس بعد اپنے پرانے ایجنڈے کے فروغ کے لیے حکمت عملی بناتے ہیں۔
‘وہ چاہتے ہیں کہ اس کام میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں ان کا ساتھ دیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دھمکی دیتے ہیں، رشوت دیتے ہیں اور اشتہارات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اصل حکمرانوں’ کو اب سوشل میڈیا کی صورت میں ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔
‘سوشل میڈیا کے ذریعے وہ کسی بھی صحافی یا صحافتی تنظیم کو باآسانی بدنام کرنے کا کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور ٹوئٹر پر سینکڑوں کی تعداد میں ایک ہی قسم کے پیغامات صحافیوں کے خلاف پھیلا دیے جاتے ہیں کہ وہ حب الوطن نہیں ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ لوگوں کا یہ ذہن بنا دیا گیا ہے کہ حب الوطنی کا مطلب “اصل حکمرانوں” کا جو بھی ایجنڈا ہے اس کی تشہیر کرنا ہے۔
‘یہ بات چل پڑتی ہے اور پھر واقعی خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ اکثر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عام لوگ جو اس سارے معاملے کی سمجھ ہی نہیں سکتے وہ بھی اس کے زیر اثر آ جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ حب الوطن ہیں۔’