آج سے سترہ برس پیشتر میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ نظریں جھکائے کسی شرمیلی دلہن کی طرح بیٹھا تھا۔ رات کے نو بج رہے تھے اور عموماً اس وقت تک مریض بہت کم رہ جاتے تھے لیکن اس روز ڈاکٹر شیخ کے کلینک پر رش کچھ زیادہ تھا۔ ڈاکٹر کے کمرے میں بیک وقت چار پانچ مریض بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ باری باری چیک اپ کرواتے اور پرچی بنوا کر باہر نکلتے جاتے۔ باہر کمپاؤنڈر دوا دے دیتا اور فیس لے لیتا۔ ایک مریض نکلتا تو دوسرا فوراً اس کی جگہ پر آ جاتا۔ اس طرح کمرے میں مریضوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔
ڈاکٹر شیخ کے لیفٹ ہینڈ سائڈ پر موجود کرسیوں پر مریض بیٹھتے تھے میں دائیں جانب تھا۔ اس طرف میڈیکل ریپ یا مریض کے ساتھ آنے والے لوگ بیٹھتے تھے۔ بہرحال میں نہ تو دواؤں کی کمپنی کا نمائندہ تھا نہ کسی مریض کو لے کر آیا تھا۔ میں تو بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے آیا تھا۔ ارداہ یہ تھا کہ یہاں سے فراغت کے بعد میں ڈاکٹر کو ڈنر کے لیے لے جاؤں۔ وہ نوجوان جب اندر آیا تو کچھ مضطرب دکھائی دیتا تھا۔ میں نے اس پر کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔
وہ اس وقت میری توجہ کا مرکز بنا جب اس نے بعد میں آنے والے مریضوں کو آگے بھیجا اور خود پیچھے بیٹھا رہا۔ میرے لیے یہ اچنبھے کی بات تھی کیونکہ مریض اکثر پہلے باری لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مریض دیکھنے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے اور میں باتوں کے ساتھ ساتھ اس نوجوان کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر لمبی داڑھی اور سر پر ٹوپی تھی۔ وہ شلوار قمیص پہنے ہوئے تھا۔ انداز سے مڈل کلاس کا فرد لگتا تھا۔
ڈاکٹر شیخ نے جب اسے آگے بلایا تو اس نے اسی طرح نظریں جھکائے ہوئے آہستہ سے کہا، ” ڈاکٹر صاحب آپ باقی مریضوں کو دیکھ لیں مجھے جلدی نہیں ہے۔”
آخر جب وہ اکیلا رہ گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اسے پھر اپنے پاس بلایا۔
“جی اب بتائیے کیا مسئلہ ہے؟”
اس نے ایک گہری سانس لی پھر ڈاکٹر کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی کی۔
“ڈاکٹر صاحب میں وظیفہ زوجیت ادا نہیں کر پا رہا۔”
اس کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ ایک تو میری پر تجسس طبیعت اور پھر اس وقت میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے چند سوالات پوچھے۔ ان سوالات کے نتیجے میں جو معلومات ملیں ان کے مطابق اس کا نام صادق (فرضی نام) تھا۔ کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان پر اپنے باپ کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ شریف آدمی تھا عبادات میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ پانچ مرلے کے مکان میں اس کے چچا بھی اپنے سات آٹھ بچوں کے ساتھ رہتے تھے خود صادق بھی چھ بہنیں اور دو بھائی رکھتا تھا۔
ان کا گھر ٹی وی، کمپیوٹر، ٹیپ ریکارڈر اور اسی نوع کی دیگر ‘خرافات’ سے یکسر پاک تھا۔ یہ باتیں اس نی اپنی شرافت و نجابت کے ضمن میں بیان کی تھیں۔ اس کی شادی ایک ہفتہ قبل ہوئی تھی۔ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ جب وہ گھر میں موجود ہوتا تھا تو اپنی بیوی کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ ہنسی مذاق تو دور کی بات ہے بیوی کے قریب بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اسے اس گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ دیا گیا تھا لیکن رات بارہ ساڑھے بارہ بجے سے پہلے وہ اس کمرے میں نہیں گھستا تھا۔ بقول اس کے سب لوگ جاگ رہے ہوتے تھے اور اپنے کمرے میں جانے میں شرم محسوس کرتا تھا۔
ڈاکٹر نے فور پلے کی بات کی تو اس کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ وہ اس سے بالکل انجان تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے چند مشورے دئیے اورفوڈ سپلیمنٹ وغیرہ لکھ دیئے۔ یہ مریض بڑا مختلف تھا لہٰذا میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ اس دن ہم ڈنر پر یہی بات کر رہے تھے کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ بہر حال دن گزرتے گئے۔ بعد میں دو تین بار میں نے اسے آتے جاتے دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر موجود خوشی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو چکا ہے۔ پھر میں ملازمت کے سلسلے میں وہ خانیوال سے مری آ گیا۔
سترہ برس کے بعد گذشتہ دنوں جب میں خانیوال میں تھا تو ڈاکٹر شیخ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ ہاسپٹل میں کچھ ہوا تھا۔ اب تو وہاں دو تین معاون ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں اور ایک گائناکالوجسٹ بھی ہیں۔ آوازیں گائنی والے پورشن سے ہی آ رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں معلوم کرنے کی کوشش کرتا میں نے ڈاکٹر شیخ کو اپنے کمرے کی طرف آتے دیکھا۔
“کیا ہوا ڈاکٹر خیریت تو ہے؟” میں نے فوراً پوچھا۔
“کیا بتاؤں یار! تمہیں وہ صادق تو یاد ہو گا جو میرے پاس آتا جاتا ہے۔”
“ہاں بالکل اسے کیا ہوا؟” میں نے جلدی سے کہا۔
“اسے کچھ نہیں ہوا۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا تھا مگر وہ میرے مشوروں کو قدرت کے کام میں مداخلت سمجھتا تھا، چناں چہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس کی بیوی کافی کمزور تھی اس میں خون کی کمی بھی شدید تھی اب صادق کا نواں بچہ تو دنیا میں آ گیا لیکن بیوی دنیا چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ مجھے اس کے بچوں کا خیال آ رہا ہے، آج نو بچے اپنی ماں سے محروم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر شیخ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔
میرے دل میں ایک پھانس سی چبھ گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ عورت کو مشین سمجھنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ بھی انسان ہے۔ یہ وہی شخص تھا جو کبھی اپنے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے خود کو اس قابل بھی نہیں سمجھ رہا تھا کہ بیوی کے پاس جائے اور جب پاس جانے لگا تو اس کا قاتل ہی بن گیا۔
کوئی عدالت اس پر مقدمہ نہیں چلائے گی۔ اس کا جرم کبھی ثابت نہیں ہو گا۔ لیکن میرا دل یہی کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا قاتل ہے۔