سمیہ سلطان
”لڑکی کتنی ہی سمجھ دار کیوں نہ ہو، سسرال جا کے اسے پتا چلتا ہے کہ وہاں پر تو اس سے بھی زیادہ سمجھ دار لوگ موجود ہیں۔ “
ارے ارے آپ لوگ بالکل بھی یہ نہیں سمجھیے گا کہ خدانخواستہ میں خوش نہیں ہوں یا مجھ بیچاری پر بہت ظلم ہوتا ہے۔ الحمدللہ ہم اپنی سسرال میں بہت خوش ہیں۔ مگر وہ کیا ہے نہ کہ جناب سسرال تو سسرال ہوتی ہے، کچھ فرق تو اتا ہی ہے۔ شادی سے پہلے ہم بھی بہت سمجھ دار تھے (غالباً) ۔ شروع سے ہی ہر جماعت میں ٹاپ کرنا ہمارا اولین فرض تھا۔ بچپن میں کبھی سوچتے تھے کہ ڈاکٹر بنیں گے، کبھی انجینیئر تو کبھی خود کو سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھا دیکھتے تھے، اور کبھی تو یوں بھی ہوا کہ خود کو ہم نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا مینیجنگ ڈائریکٹر تک بنا ہوا دیکھ لیا۔ مگر قسمت کا کھیل دیکھیں ہمیں مینیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ تو ملی مگر کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نہیں بلکہ اپنے میاں جی کے گھر کی (آپس کی بات ہے بری یہ پوسٹ بھی نہیں ہے ) ۔
آپ لوگ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں کوئی کتابی کیڑا ٹائپ یا پھر بور قسم کی انسان ہوں۔ نہیں جناب ہم تو بہت شوخ و چنچل قسم کے ہوا کرتے تھے (بس اللہ کے فضل سے ذہانت کوٹ کوٹ کے بھری ”تھی“ ہم میں ) ۔ بہت ہی شرارتی بھی تھے بچپن میں، ویسے تو ابھی تک بچپن ہی ہے ہمارا بقول ہمارے میاں کے۔
کب بچپن گزرا، کب ہم نے لڑکپن کی دہلیز بھی عبور کرکے جوانی میں قدم رکھ لیا۔ کچھ پتا ہی نہیں چلا وقت کا، وقت جیسے پر لگا کے اڑ گیا۔ اور جیسے ہی ہم نے گریجویشن مکمل کی تو گویا رشتوں کی لائن لگ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آنٹیاں، پھوپھیاں، خالائیں اور چاچیاں وغیرہ سب اس انتظار میں تھیں کہ کب ہم گریجویئشن ختم کریں اور وہ ہمارے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیں۔ آب ایسا بھی نہیں تھا کہ ہم بہت خوبصورت ہیں یا کہانیوں کی کوئی شہزادی کی طرح بہت جاذب نظر ہوں، بس اللہ کا شکر ہے قبول صورت ہیں۔ لیکن بھئی ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بھلے ہی لڑکی پسند کرنی ہو یا نہیں اس کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ لڑکی نہ ہوگئی کوئی نیا برینڈ کا کپڑا ہوگیا کہ جیسے ہی پتا چلا کہ بازار میں آگیا ہے تو فوراً ونڈو شاپنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔ آب چاہے خریدنے کی حیثیت ہو یا نہیں۔
اس سب ڈرالمے کے بعد یہ ہوا کہ آخرکار ہماری ساس کو ہم پسند آگئے (اصل میں ہم اس زمانے کے ہیں جب ساسو ماں ہی اپنی بہو لاتی تھیں ) ۔ جوں ہی رشتہ طے ہوا ہم تو جیسے آسمانوں میں اڑنے لگے اور اپنے آپ کو بہت توپ چیز سمجھنے لگے۔ خوابوں کی ایک الگ ہی دنیا بسالی جہاں ہم شہزادی اور ہمارے وہ شہزادے۔
آب آپ لوگ یہ نہ سوچ بیٹھئے گا کہ لڑکی نے تو ابھی سے الگ گھر کا اور بیٹے پر قبضہ جمانے کا سوچ لیا ہے۔ نہیں جناب بلکہ یہ سب ہم نے جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے ہی کرنے کا سوچا تھا۔ ایک مثالی گھرانہ بنانے کا سوچا تھا جہاں ہر کسی کو اس کی اہمیت ملتی۔ مگر وہ کیا کہتے ہیں نا ”دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں“ یا ”قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے“ تو بس ایسا ہی کچھ ہوا ہمارے ساتھ۔ جب ہم نے سسرال میں ودم رکھا اور اپنے خوابوں کو ہقیقت کا روپ دینا چاہا تو جناب قدم قدم پر احساس ہوا کہ کچھ خوابوں کی تعبیر پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ سب بہت برے تھے یا ہمارے لئے ان کے دلوں میں گنجائش نہیں ہے بلکہ بات صرف صرف اتنی تھی کہ ہم نے ان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلیں تھیں۔ یہ ہماری ہی نہیں بلکہ اکثر لڑکیوں کی غلطی ہوتی ہے۔ اور جب وہ امیدیں پوری نہ ہوں تو دل کھٹا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم اکثر اوقات یہی سوچنے لگے کہ میکہ ہی سب سے اچھا تھا اور ہمارا تو یہاں کوئی قدردان ہی نہیں ہے۔ ایسا لگا کہ ہم کو سب کمتر اور اپنے آپ کو عقل مند یا برتر سمجھتے ہیں۔
بس یہی وہ وقت تھا جب ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہمارے شوخ و چنچل مزاج کی وجہ سے کوئی ہمیں سنجیدہ نہیں لیتا تو کیوں نہ مزاج بدل کے دیکھا جائے۔ پھر ہم اپنی شخصیت کو مدبرانہ بنانے کی کوشش کرنے لگے مگر انسان اپنی عادت تو بدل سکتا ہے مگر شاید اپنی فطرت نہیں بدل سکتا۔ اور سنجیدگی کی دھاک بٹھانے کے لئے ہم نے اپنے علم و دانش کا سہارا لینے کی کوشش کی تو جناب پتہ یہ چلا کہ یہان تو ایک سے بڑھ کے ایک عالم فاضل اور قابل ہے۔
لیکن آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ اس بات کا شعور ایا کہ رشتے نہ ہی قابلیت کی بناء پر نبھائے جاتے ہیں اور نہ ہی ہر وقت ہنسی مذاق میں۔ بلکہ رشتے تو خلاص سے اور تھوڑی سمجھداری سے نبھائے اور بنائے جاتے ہیں۔ اور جیسے ہم کسی کے لئے بدلنا پسند نہیں کرتے ان کی سب توقعات پر پورا نہیں اترتے بالکل اسی طرح کوئی بھی شخص ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا۔ ایک مشہور انگریزی کا قول ہے :
”The less you expect the more you are happy“
بالکل بجا ہے مگر ہم کچھ ایسا سمجھتے ہیں :
”The less you expect the more you grow“
بس جب سے یہ بات سمجھ میں آئی تب سے سارے گلے شکوے دور ہو گئے۔
خود اپنے بارے میں ہمیں پہ بھیانک انکشاف ہوا کہ جناب ہم جو اپنے آپ کو ابھی تک لڑکی تصور کرتے تھے اور مانتے تھے آب خاتون بن ہی گئے (بھئی سمجھداری جو آگئی) ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ لڑکیاں سمجھدار نہیں ہوتیں، ہوتی ہیں مگر کچھ اسباق انسان تجربے سے ہی سیکھتا ہے (یعنی خاتون بننے کے بعد ہی) ۔