مغربی افریقی تعلیمی اداروں میں اچھے نمبروں کے لیے طالبات کا جنسی استحصال اور بلیک میلنگ

رپورٹر کی کی مورڈی
بی بی سی کی خفیہ تحقیقات میں مغربی افریقہ کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ہاتھوں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
کئی مہینوں کی تحقیق کے دوران طالبات نے بتایا کہ جنسی استحصال ادارے میں کسی متعدی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے ہیں، لیکن ابھی تک انھیں ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اہم تعلیمی اداروں میں اچھے گریڈ یا نمبروں کے لیے طالبات کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔
بی بی سی ’افریقہ آئی‘ پروگرام نے درجنوں طالبات سے شواہد جمع کرنے کے بعد اپنی انڈرکور صحافیوں کو یونیورسٹی آف لاگوس اور یونیورسٹی آف گھانا میں طالبات کے طور پر روانہ کیا جنھوں نے ان یونیورسٹیوں میں داخلے کی خواہش کا اظہار کیا۔
ان انڈرکور صحافیوں نے خفیہ کیمروں کے ساتھ ان یونیورسٹیوں میں اہم عہدوں پر فائز لوگوں سے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ملاقات کی جہاں انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا اور ان پر دباؤ ڈالا گیا۔
رپورٹر کی کی مورڈی نے، جنھیں براہ راست جنسی استحصال کے تباہ کن اثرات کا تجربہ ہے، بتایا کہ اس خطے کی بعض باوقار یونیورسٹیوں میں بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ‘یہ کسی متعدی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے اور ہر ایک ڈپارٹمنٹ میں ہو رہا ہے اور ہر ایک طالب علم کے پاس کہنے کے لیے کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔’
ہماری رپورٹر نے بتایا کہ جب وہ یونیورسٹی میں تھیں تو جنسی طور پر انھیں ہراساں کیا گیا تھا۔ ‘اور میں اکیلی نہیں۔ یہ مغربی افریقہ کی یونیورسٹی میں دہائیوں سے جاری ہے۔’
ایک طالبہ نے بتایا: ‘کوئی بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ یہ پاگل پن ہے۔ میں جانتی ہوں بہت سی لڑکیوں کا استحصال ہوا ہے اور کوئی بھی کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔’
بی بی سی کی ٹیم نے پہلی بار ان یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ہاتھوں جنسی استحصال کو کیمرے میں قید کیا۔

رپورٹر کی کی مورڈی
BBC
رپورٹر کی کی مورڈی

لاگوس کی یونیورسٹی میں نو ماہ تک وہاں پڑھنے والے اور سابق طلبہ و طالبات سے انٹرویو کیے گئے جس کے نتیجے میں فیکلٹی آف آرٹس میں ایک سینیئر لیکچرر کا نام سامنے آیا جو کہ سابق نائب ڈین اور مقامی فور سکوائر گوسپل چرچ کے ہیڈ پاسٹر (پادری) نکلے۔ ان کا نام ڈاکٹر بونی فیس اگبینیو ہے۔
جب بہت سے طالب علموں نے بتایا کہ ڈاکٹر بونی فیس نے ان کا استحصال کیا ہے تو بی بی سی نے ایک خاتون صحافی کو ایک طالبہ کے روپ میں ان کے پاس بھیجا۔ انھوں نے خود کو 17 سال کی سیکنڈری سکول سے پاس طالبہ بتایا اور لاگوس یونیورسٹی (عرف عام میں اسے یونی لیگ کہا جاتا ہے) میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔
خیال رہے کہ لاگوس میں بالغ افراد کی عمر سے یہ عمر کم ہے لیکن ڈاکٹر بونی فیس نے انڈر کور صحافی کو مختلف قسم کے ٹیوٹوریئلز کے نام پر کئی بار اپنے دفتر بلایا۔ جب بھی وہ ان کے ساتھ کمرے میں ہوتیں ان کے پاس خطرناک صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ایک بٹن تھا جس کے دبتے ہی اس کمرے آس پاس موجود بی بی سی کی ٹیم ان کو بچانے کے لیے پہنچ جاتی۔
کیمرے میں قید گفتگو میں ڈاکٹر بونی فیس طالبہ کی عمر پوچھتے ہیں۔ جب وہ 17 سال بتاتی ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ‘تم اس سے بڑی لگتی ہو؟’ ان کی بات چیت کی ابتدا کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ لڑکی کی شکل و صورت پر تبصرہ کرنے لگتے ہیں۔ ‘تمہیں پتہ نہیں کہ تم کتنی خوبصورت ہو؟ تمہیں پتہ ہے ناں؟ تم خوبصورت نہیں بلکہ بہت خوبصورت ہو، بہت ہی خوبصورت لڑکی ہو۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں پاسٹر (پادری) ہوں؟’
لڑکی کہتی ہے کہ اسے معلوم ہے۔ پھر ڈاکٹر بونی فیس کہتے ہیں کہ ‘تہمیں پتہ ہے کہ میں 50 کے پیٹے میں ہوں۔ اور تمیں جو چیز صدمہ پہنچائے گی وہ یہ ہے کہ اس عمر میں بھی میں اگر میں تمہاری جیسی کسی 17 سال کی لڑکی کو چاہوں تو مجھے صرف اس کے لیے اپنی زبان میٹھی رکھنی ہوگی اور اس کے ہاتھ میں کچھ پیسے رکھنے ہوں گے اور وہ مجھے حاصل ہو جائے گی۔’
چند دنوں بعد ڈاکٹر بونی فیس نے انڈر کور صحافی کو دوسری ملاقات کے لیے بلایا اور اسے اپنے ساتھ عبادت کرنے یا دعا مانگنے کے لیے کہا۔ لیکن یہ عبادت عام نہیں تھی یہ پریشان کن تھی۔

بعض لڑکیوں کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے
BBC
بعض لڑکیوں کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے

دعا میں ڈاکٹر بونی فیس لڑکی کو اپنے ساتھ شامل کر کے بولتے رہے: ‘لارڈ عیسی مسیح کو اپنا مالک اور محافظ سمجھ کر ان کے سامنے اقرار کرو کہ آپ میرے آقا ہو، میرے خدا ہو۔’
لڑکی نے اس پر حامی بھری پھر ڈاکٹر بونی فیس عجیب انداز میں بیٹھ کر کہنے لگے: ‘سچائی پر میری رہنمائی کریں۔ شکریہ مسیح۔’
شکریہ ادا کرنے کے بعد دونوں نے ہاتھ ملائے اور پھر ڈاکٹر بونی فیس نے کہا: ‘اپنے داخلے کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ میں اس کے لیے کام کروں گا۔’
اس کے بعد وہ لڑکی سے اس کی جنسی زندگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے جیسے کہ ‘کس عمر میں تم نے مردوں کو جاننا شروع کیا؟’ جس پر لڑکی نے سوال کیا کہ ‘مردوں کو جاننے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟’ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر بونی فیس نے پوچھا کہ ‘کس عمر میں تم نے سیکس کرنا شروع کیا؟’
لڑکی کے بے چین ہونے پر ڈاکٹر بونی فیس نے کہا: ‘ہم لوگ جو باتیں کر رہے ہیں اس کا تمہاری ماں کو پتا نہیں چلے گا (لڑکی۔اوکے)۔۔۔ ہمارے تمارے درمیان جو بھی ہوگا اس کا کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ تم سمجھتی ہو؟’ (اوکے) اس لیے آزاد محسوس کرو۔’
جب نائیجیریا میں تحقیقات کی جار ہی تھیں تو بی بی سی کی ٹیم گھانا یونیورسٹی پر بھی نظر رکھ رہی تھی۔ ہفتوں کے انٹرویو کے بعد کالج آف ایجوکیشن کے ڈاکٹر پال کوامے بوٹاکو کا نام سامنے آیا۔
ان کے پاس بی بی سی نے ایک دوسری انڈرکور صحافی کو بھیجا جس نے خود کو فائنل ایئر کی طالبہ بتایا جو کہ ماسٹرز میں داخلے کی خواہاں تھی۔ ڈاکٹر بوٹاکر نے دوسری ہی ملاقات میں داخلے کی طالب طالبہ کو ملاقات کے لیے تنہائی میں بلایا اور پوچھا: ‘کتنے لوگوں نے تہمیں بتایا ہے کہ آج تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو؟’
انھوں نے بار بار پوچھا کہ کیا وہ اسے اپنا ‘سائڈ گائے’ بنانے کو تیار ہیں جس کی وضاحت انھوں نے سیکنڈ بواے فرینڈ کے طور پر کی۔ ‘مجھے اپنا سائڈ بوائے، سائڈ گائے بننے دو؟ تم میری سائڈ بنو اور میں تمہاری سائڈ۔ کیونکہ میں شادی شدہ ہوں اور میری بیوی اس ملک میں نہیں ہے۔’

ایک طالبہ
BBC
ایک طالبہ نے بتایا کہ انھوں نے چار بار خودکشی کی کوشش کی

یونیورسٹی کی پالیسی اپنے اساتذہ کو طلبہ کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور وہ بھی ایسی صورت میں جب وہ اس کی تعلیم یا کیریئر کو متاثر کر سکتے ہوں جبکہ فلرٹ کو بدسلوکی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر بوٹاکو نے اپنے شعبے میں اس لڑکی کو ایک ملازمت کی پیشکش کی یہاں تک کہ اس نے کہا کہ درخواست جمع کروانے کی تاریخ نکل گئی ہے تاہم وہ اسے رکھ لیں گے۔
انھوں نے طالبہ سے مزید کہا کہ ‘تمہارا فوکس اپنے کریئر پر ہونا چاہیے۔ اور پھر تمہارا سائیڈ اس بات کا خیال رکھے گا کہ وہ تمہارے کريئر میں کتنی مدد کر سکتا ہے تاکہ تمہیں بہتر انسان بنا سکے۔ تم مجھے اپنا سائیڈ بنا لو۔ اوکے؟ میں تمہیں پریشانی میں نہیں ڈالوں گا۔ سنجیدگی کے ساتھ میں تمہیں پریشان نہیں کروں گا۔ میں تمہاری زندگی میں انتشار کی وجہ نہیں بنوں گا۔ مجھے اپنا سائڈ گائی بننے دو۔’
ڈاکٹر بوٹاکو سے جب بی بی سی نے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے تمام الزامات کو شدت کے ساتھ مسترد کر دیا کہ انھوں نے صحافی یا کسی طالبہ کے ساتھ کوئی عشقیہ بات نہیں کی۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ وہ جنسی ہراس اور بدسلوکی کے متعلق یونیورسٹی کے ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کا اس لڑکی کے ساتھ کسی دیٹنگ کا ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اسے سیکس کے جواب میں کوئی ملازمت دینے والے تھے۔
گھانا یونیورسٹی نے کہا کہ ڈاکٹر بوٹاکو پر لگائے جانے والے بدسلوکی کے الزامات بہت پریشان کن ہیں اور یہ کہ یونیورسٹی جنسی ہراس پر پرو-ایکٹو پالیسی پرعمل کرتی ہے اور وہ اس قسم کے مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کی پابند ہے۔
ڈاکٹر نوبی فیس ایک مقامی چرچ کے ہیڈ پادری بھی ہیں
دوسری جانب لاگوس میں بہت سی طالبات نے ڈاکٹر بونی فیس کے ہاتھوں ہراس کی بات کہی ہے۔ ان لڑکیوں کی شناخت نہیں ظاہر کی گئی ہے۔
ان میں سے ایک نے کہا: ‘وہ آپ کو اپنے آفس آنے کے لیے کہیں گے۔ وہ دروازہ بند کر دیں گے۔ بعض اوقات وہ آپ کو چھونے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی پشت پر ہاتھ رکھ دیں گے۔ وہ پریشانی میں گھری طالبات کو چنتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ وہ کمزور ہوتی ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔
ایک دوسری خاتون نے بتایا کہ انھوں نے چار بار خودکشی کی کوشش کی کیونکہ ڈاکٹر بونی فیس نے بار بار ان کے ساتھ زیادتی کی۔
انھوں نے بتایا: ‘میں نے کبھی ایک بار بھی اپنی حامی نہیں بھری۔ ایک بار وہ بائبل کے مطالعے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ مجھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور مذہبی آیات لکھ رہا تھا۔’
جب بی بی سی کی انڈر کور صحافی نے ان سے دوسری بار ان کے دفتر میں ملاقات کی تو انھوں نے ایک خفیہ جگہ کی بات بتائی جہاں لیکچرر طالبات کو بلاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا: ‘سٹاف کلب کے اوپر ایک حصہ ہے۔ جہاں لیکچرر انھیں بلاتے ہیں ان کے ساتھ بوس و کنار کرتے ہیں، ان کے ساتھ رومانس کرتے ہیں۔۔۔ وہ ان کو چومتے ہیں، ان کے پستان چھوتے ہیں، ان کے جسم کو چھوتے ہیں۔ یہ کلب ہے۔۔۔ اس لیے وہ اسے ‘دی کولڈ روم’ (سرد خانہ) کہتے ہیں۔ اور یہ سٹاف کلب کے اندر ہے۔’
انھوں نے بتایا کہ کس طرح طالبات اور یونیلیگ کے اساتذہ کے درمیان رشتہ چلتا ہے اور گریڈ یا مارکس کے لیے سیکس ہوتا ہے۔
انڈر کور کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ‘کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے فوائد نہ ہوں۔’
لڑکی نے کہا: ‘لیکن یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔’ جس کے جواب میں ڈاکٹر بونی فیس نے کہا: ‘کیا ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ اسے اچھی طرح سے پاس کر دیں گے۔’
لڑکی نے کہا: ‘یہ تو ٹھیک نہیں۔ جنھوں نے پڑھا ہے ان کا کیا ہوگا۔ لڑکوں کا کیا ہوگا جو ڈیٹ نہیں کر سکتے؟’
ڈاکٹر بونی فیس: ‘لڑکیوں کے لیے بھی مفت نہیں ہے۔ کیا وہ اس کے لیے ادا نہیں کر رہی ہے۔۔۔ کوئی بھی چیز مفت نہیں ہے۔ اپنے جسم کے ساتھ وہ ادا کر رہی ہے۔’
خیال رہے کہ یونیورسٹی کی پالیسی اس قسم کے سلوک کی سخت مخالف ہے اور طلبہ و پروفیسر کے درمیان اس قسم کے کسی رشتے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
ڈاکٹر بونی فیس کے ساتھ آخری ملاقات میں ان کا رویہ مزید خراب ہو گیا۔ انھوں نے بغیر الکوحل والی شراب لڑکی کو پیش کی۔ اور پھر اس سے کہا کہ اگر یونیلیگ میں داخلہ چاہیے تو اسے فرمانبردار ہونا ہوگا۔
انھوں نے کہا: ‘میں تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ تم فرمانبردار ہوگی تب ہی تم اپنا مقصد حاصل کر سکوگی۔ داخلہ لینے کا مقصد۔’
اس کا سلوک زیادہ سے زیادہ نازیبا ہوتا گیا اور اس نے لڑکی کو چومنے کی بات کہی۔ لڑکی نے انھیں صاف طور پر منع کیا۔ لیکن وہ کہتے رہے: ‘اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں چوموں تو روشنی گل کر دو اور دروازہ بند کر دو۔ میں تمہیں ایک منٹ تک چوموں گا۔ یہی وہ کولڈ روم میں کرتے ہیں۔’
اس کے بعد ڈاکٹر بونا فیس باتھ روم میں چلے گئے اور پھر واپسی پر انھوں نے روشنی بند کی اور دروازہ بند کیا۔ لڑکی کو قریب مزید قریب بیٹھنے کے لیے کہا یہاں تک کہ اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کہا کہ ‘میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔’ لڑکی کو اسی وقت چھوڑا جب اس نے باتھ روم جانے کا بہانہ کیا۔ اور پھر کہا: ‘تو یہ رہا تمہارا کولڈ روم کا تجربہ۔’
پھر ڈاکٹر بونی فیس نے اسے دھمکایا کہ اگر وہ اس سے بار بار ملنے نہیں آئی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ ‘میں تمہیں کسی دن بھی بلا سکتا ہوں۔ اگر تم نہیں آتی تو میں سمجھوں گا تم جا چکی ہو۔ پھر میں تمہاری ماں کو بتا دوں گا کہ تم نے میری نافرمانی کی ہے۔’
بی بی سی نے ڈاکٹر بونی فیس سے اس کے متعلق بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے اپنے متعلق لگائے گئے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے جبکہ یونیورسٹی نے کہا کہ وہ ڈاکٹر بونی فیس کے مبینہ برتاؤ سے خود کو علیحدہ رکھتی ہے۔ اس کی جنسی ہراسگی پر صفر برداشت کی پالیسی ہے لیکن یونیورسٹی نے مبینہ ‘کولڈ روم’ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
رپورٹر کی کی مورڈی کا کہنا ہے کہ ‘یہ سب دہائیوں سے جاری ہے اور اب اسے یہیں ختم ہونا چاہیے۔ میں نے ان لڑکیوں کی حمایت میں کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان چہروں کو بے نقاب کیا جا سکے جو ان لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں۔’