(یہ تحریر چار سال پہلے عالمی یوم کتاب پر ایک ہندوستانی دوست کی فرمائش پر، خط کی صورت لکھی تھی۔ آج اسے اتفاقاً پڑھا تو مجھے لگا، اس میں لکھی گئی باتیں پرانی نہیں ہوئیں۔ آج عالمی یوم کتاب ہے۔ اس موقع پر کتابوں کے ذکر سے زیادہ اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ آخر میں ان کتابوں پر اختصار سے لکھ دیا ہے جو گزشتہ چار برس میں بہ طور خاص اچھی لگی ہیں۔ )
آپ نے لکھا ہے کہ میں عالمی یوم کتاب کے موقع پرعالمی تنقید کی چند ایسی کتابوں کا ذکر کروں، جن کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ انھیں زندگی میں کم ازکم ایک بار پڑھنا ضروری ہے۔ کتاب کے عالمی دن (23 اپریل) کو منانے کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کی بہترین کتابوں کا ذکر کیا جائے۔ آپ نے مجھے صرف تنقید کی چند کتابوں کے ذکر تک محدود رہنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے حساب نہیں لگایا کہ میں نے تنقید کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک یا چند کتابوں کا انتخاب، اس کڑے معیار کے تحت کرنا کہ انھیں زندگی میں ایک بار ضرور پڑھا جائے، بہت مشکل کام ہے۔ کم ازکم میرے لیے بہت مشکل ہے۔ کیا میں دوسروں کو یہ تجویز کرنے کا مجاز ہوں کہ وہ عالمی تنقید میں ارسطو، بھرت، جاحظ، رچرڈس، ولیم ایمپسن، ایذرا پائونڈ، ایلیٹ، ومساٹ، کلینتھ بروکس، ایم۔ ایچ ابرام، لارنس، سارتر، بارت، دریدا، فوکو، ایڈورڈ سعید، ہیر لڈ بلوم، گائیری چکرورتی، ژولیا کرسٹیوا، التھیوسے، ٹیری ایگلٹن میں سے کسی ایک یا چند کی کتابیں، حین حیات ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔ میں ان کی کتابوں کی فہرست، اور ان کے مطالب واضح کرنے کی کوشش کرسکتا ہوں، مگر میں دوسرے لوگوں کی ذات میں برپا اس بحران کا علم نہیں رکھتا، جسے پہچاننے، جس سے نکلنے، یا جسے قبول کرنے کی خاطر لوگ مخصوص کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
میں اس یقین کا اظہار کرسکتا ہوں کہ کتاب کے مطالعے کے بغیر خود کو اور دنیا کو سمجھنا خواب وخیال ہے، اور کتاب پڑھے بغیرمنظم غور وفکر کی وہ صلاحیت نمو نہیں پا سکتی، جو ایک معمولی شخصی مسئلے سے لے کر بڑے بڑے عالمی مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن کسی شخص کو کون سی کتاب اپنی زندگی میں لازماً پڑھنی چاہیے، اس کے بارے میں دوسرا شخص وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ یہ فیصلہ ہر شخص کو خود کرنا ہے۔
یہاں مجھے بدھ کی ایک بات یاد آرہی ہے۔ اس نے کہا کہ دکھ سے نجات کا کوئی واحد، مقتدرطریقہ نہیں ہے۔ ہر طریقہ عارضی یعنیTransient ہے۔ اس نے مزید کہا کہ ہماری مثال اس مسافر کی طرح ہے جو دریا پارکرنا چاہتا ہے، مگر دریا پر پل نہیں ہے۔ وہ خود ایک کشتی بناتا ہے۔ کشتی میں بیٹھتا ہے اور پار اتر جاتا ہے۔ کیا وہ کشتی وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا یا کشتی کو کاندھے پر لادے آگے کا سفر کرے گا کہ یہ کشتی اس کی تخلیق تھی؟ تو بھائی ہر شخص کو اپنی کشتی خود بنانی ہے، اور اسی کشتی کو کاندھے پر اٹھانے یا اس کا ملاح بننے کے بجائے، آگے بڑھنا ہے۔
کشتی بنانے کا عمل، کتاب کے انتخاب اور کتاب کی تخلیق دونوں کا استعارہ ہے۔ اسی تمثیل کی روشنی میں ، میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ایک نہیں، کئی کتابیں منتخب کی جانی چاہییں اور کئی کتابیں لکھی جانی چاہییں۔ ایک کتاب، ایک کشتی کی طرح ہے۔ چوں کہ آدمی کو کئی طرح کے دریائوں کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے اسے کئی کتابوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ہاں، اگر کسی شخص کی زندگی میں صرف ایک دریا آیا ہے توپھر وہ ایک کتاب کو ہمیشہ کے لیے سینے سے لگا سکتا ہے۔
کم ازکم رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کتابوں کا انتخاب، اتنا ہی اہم فیصلہ ہوتا ہے، جتنا یہ فیصلہ کہ آدمی کو زندہ رہنا ہے یا خود کشی کرنی ہے۔ زندہ رہنے کا فیصلہ ایک طویل راستے کا انتخاب ہے۔ اس راستے پر آدمی کو صرف چلنا نہیں ہوتا، یعنی صرف سانس لیتے رہنا، زندہ رہنے کی علامت نہیں، بلکہ بنیادی اور فوقی ضرورتوں کی طرح، بنیادی اور فوقی سوالات کے جوابات بھی تلاش کرنے ہوتے ہیں۔ (کچھ لوگ محض تفریحاً ادب پڑھتے ہیں۔ ان کے لیے ادب کی وہی حیثیت ہے جو کسی کھیل کی ہوتی ہے )۔ اپنے سوالات کے مطابق ہی کتابوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر کتابوں کے اپنی ہستی اور دوسرے لوگوں اور دنیا کے ساتھ اپنے تعلق کی سب گرہیں کھول لے گا تو وہ شخص خود کو قدیم اساطیری عہد میں تصور کرتا ہے، جب آدمی کو یقین تھا کہ دیوتا اس کی مدد کو آئیں گے۔ بڑی کتاب، انسانی ذہن کی اس اعلیٰ ترین سطح کی جدودجہد کی دستاویز ہے، جو محدود وسائل سے لامحدود نتائج اخذ کرنے کی خاطر کی جاتی ہے۔ لہٰذا کتاب سے مفر نہیں۔ تاہم میرے خیال میں کسی کتاب کے نتائج سے زیادہ، نتائج اخذ کرنے کی جدوجہد اور طریقے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کے نقش قدم پر چل کر اپنی منز ل تک پہنچ سکتے ہیں، نہ دوسروں کی کشتیوں میں بیٹھ کر دریا پار کر سکتے ہیں۔ دوسروں کے نقوشِ قدم یا کشتیاں، ہمیں اپنے نقش قدم ثبت کرنے اور اپنی کشتیاں بنانے کی انسپیریشن اور طریقوں سے آگا ہ کرسکتے ہیں۔
ایک اعتبار سے، تنقید کی کتابوں سے آدمی گمراہ ہوسکتا ہے کہ ان میں نتائج واضح اور کم بیش قطعی ہوتے ہیں۔ جب کہ آدمی کو خود اپنے اخذ کردہ نتائج درکار ہیں۔ تنقید کی کتابوں سے اخذ ِ نتائج کے طریقوں یا Approaches کا علم حاصل کرنا چاہیے۔ میں نے اس ضمن میں جن چند کتابوں سے یہ طریقے معلوم کیے ہیں، ان کی تعداد تو خاصی ہے، مگر جنھیں میں فوری طور پر یاد کرسکتا ہوں، ان میں ( قدیم یونانی، عہد وسطیٰ کی یورپی، سنسکرت اور فارسی کی کتابوں کے علاوہ) ولیم ایمپسن کی Seven Types of Ambiguity، ایذرا پائونڈ کے Literary Essays، ایلیٹ کی The Sacred Woodہیرلڈ بلوم کی Anxiety of Influence، ایم ایم باختن کی The Dialogical Imagination، لوکاچ کی Theory of Novel، بارت کیMythologies، اور Image Music Textدریدا کیActs of Literature، میثل فوکو ک,Archeology of Knowledge، Discipline and Punishالتھیوسے کی Ideology and Ideological State Apparatuses، فرانز فین کی The Wretched of the Earthایڈورڈ سعید کی Orientlaism، The World ,The Text and The Critic، Culture and Imperialism، ایمی سیزار کی ,Discourse on Colonialismہومی کے بھابھا کی Location of Cultureٹیری ایگلٹن کی How to Read a Poem، ادونس کی Sufism and Surrealismشامل ہیں۔
حال ہی ایڈورڈ سعید کی ایک اور کتابOn The Late Style دیکھنے کا موقع ملا ہے تو سوچنے کا ایک نیا زاویہ ملا ہے؛ آخری عمر میں ادیبوں کے سٹائل میں کیا تبدیلیاں، کن اسباب سے آتی ہیں، اور ان کا ادیبوں کے خیالات سے کیا تعلق ہوتا ہے۔ ان مصنفین کی میں نے ایک سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں، مگر یہاں ان کتابوں کے نام درج کیے ہیں، جو مجھے زیادہ پسند آئیں۔ کسی زمانے میں رلکے کے نوجوان شاعر کے نام خطوط پڑھے تھے۔ اسی طرح سقراط کی Apologyجسے افلاطون نے لکھا تھا۔ یہ دو کتابیں ایسی ہیں، جنھیں میں نے ایک سے زیادہ بار پڑھاہے، اور میرے حیرت وجستجو کم نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے، مذکورہ بالا کتابوں میں سے سب یا چند ایک بعض کے لیے بالکل بیکار ہوں، اور بعض کے لیے حد درجہ اہم ہوں کہ انھیں پڑھے بغیر ہم ان طریقوں سے آشنا نہیں ہوسکتے جو ادبی متون کے کثیر زایوں سے مطالعے کے لیے ناگزیرہیں۔
تنقید کی وہ کتابیں مجھے زیادہ اچھی لگی ہیں جن میں ادبی متن کی ایک سے زیادہ تہوں کو نہ صرف دریافت کیا جاتاہے، اور مسرت محسوس کی جاتی ہے۔ ۔ ۔ بلکہ ان تہوں کی تعبیر تاریخ، ثقافت، سیاست، انسانی نفسیات کے تناظر میں کی جاتی ہے، اور بصیرت اخذ کی جاتی ہے۔ ۔ ۔ یوں ادبی متن کو انسانی ہستی کے فوقی سوالات اور سماج کے حقیقی مادی مسائل کو سمجھنے کا ایک تخیلی میدان تصور کیا جاتا ہے۔ ادب کے مطالعے کے دیگر یعنی محض ہیئتی، یا محض نفسیاتی، یا محض عمرانی طریقوں میں یقین رکھنے والوں کے لیے تنقید کی دوسری کتابیں موجود ہیں!
پس نوشت:
ہم سب کو کسی نہ کسی جبر کا سامنا رہتا ہے۔ جبر کی سیاسی، معاشی اور نفسیاتی صورتیں تو سامنے کی ہیں۔ ” جیسا دوسرے چاہتے ہیں ویسا بن جانا”جبر کی سب سے شدید صورت ہے۔ یہ آپ کے مزاج میں ایجاد پسندی پر حملہ کرتی ہے اور دنیا کو انفرادی نگاہ سے دیکھنے کی صلاحیت کا قلع قمع کرتی ہے۔ صرف کتابیں ہی اس جبر کا سامنا کرنے کی ہمت دلاتی اور اس سے نجات کی صورت سے آشنا کرا سکتی ہیں۔ اس لیے جب تک سانس ہے اپنی پسند کی کتابوں کا مطالعہ جاری رہنا چاہیے۔
میں نےگزشتہ چار سال میں کئی کتابیں پڑھی ہیں۔ لیکن میں یہاں چار ایسی کتابوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے میرے ذہن کو جھنجھوڑا؛ مجھے ادب، فن اور دنیا کے بارے میں اپنے تصورات کو نئے سرے سے دیکھنے کی ترغیب دی اور مجھے روشنی اور شیرینی (آرنلڈ یاد آ گئے) کا احساس دلایا۔ ان میں سرفہرست بورخیس کی Conversationsکی پہلی جلد ہے۔ یہ بورخیس کے انٹرویو پر مشتمل ہے۔ یہ انٹرویوبورخیس کے ہم وطن اوسولدو فراری(Osvaldo Ferrari) نے کیے ہیں اور بالکل غیر رسمی انداز میں۔ اس کتاب میں بورخیس نے ارجنٹائنی شناخت، وقت، تاریخ، فن، اپنے لکھنے کے عمل، سیاست، یونانی فلسفیوں، کافکا، ہنری جیمس، دانتے، محبت، مزاح، جاسوسی ادب، اخلاقیات اور اپنے اسفار پر خیالات ظاہر کیے ہیں۔
افسانے میں حقیقت، تاریخ، تسلسل اور معمول کے تصورات کی شکست آشنا کرنے والے بورخیس اس کتاب میں ایک ایسے عالم کے طور پر نظر آتے ہیں جو خود کو کسی ایک ثقافت اور روایت تک محدود نہیں کرتے۔ ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں “روایت کی بندشوں سے آزاد ہو کر ہمیں وسیع ورثہ حاصل ہوتا ہے”۔ اس ایک جملے پر پورا مضمون باندھا جا سکتا ہے۔ خاص طور ہمیں اس امکان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ روایت سے آزادی کس قسم کے (وسیع انسانی) ورثے سے آشنا کرا سکتی ہے۔
دوسری کتاب امبرتو ایکو کی Inventing the Enemy ہے۔ اس کا اہم ترین مضمون تو پہلا ہی ہے، یعنی قوم پرستی ہم سے کیسے دشمن ایجاد کراتی ہے۔ کیوں قوم پرستی دشمن کے بغیر نوالہ نہیں توڑ سکتی۔ اطالوی مفکر، ناول نگار ایکو نے اس کتاب میں خزانوں کی علامتی تلاش کا مفہوم کیا ہے، فردوس میں جنین ہوں گے یا نہیں، آگ کی جمالیات، وکی لیکس پر خیالات اور دیگر موضوعات پر مضامین شامل کیے ہیں۔ آگ کی جمالیات والا مضمون غیر معمولی مطالعے اور بصیرت کا حامل ہے۔
باقی دو کتابیں نئے مصنفین کی ہیں۔ پہلی کتاب سارا بلیک ول کی At the Existentialist Cafe; Freedom, Being and Apricot Cocktailsہے۔ 2017 میں شایع ہونے والی یہ کتاب گزشتہ صدی کی سب سے اہم علمی وادبی تحریک وجودیت کا جائزہ لیتی ہے۔ جس طرح وجودیت روزمرہ کے تجربے سے فلسفہ کشید کرتی تھی اسی طرح یہ کتاب روزمرہ کے، کہانی کے اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ سارتر، سیموں دی بوا، ہائیڈگر، ہسرل، کارل جیسپر، پونٹی اور دوسرے وجودی مفکروں کے تصورات کا عمدہ جائزہ ہے۔
دوسری کتاب مارٹن پشنر کی The Written Word ہے۔ یہ بھی 2017 میں چھپی۔ اس میں ان ادبی کتابوں اور مصنفوں کا ذکر ہے جنھوں نے تاریخ کی تشکیل کی۔ گل گامش کی کہانی، بدھ، کنفیوشس، سقراط، گوٹن برگ، لوتھر، گوئٹے، مارکس، لینن، مائو، سولزے نتسن، ڈیرک والکوٹ کے خیالات، الف لیلہ ولیلہ، ڈان کیہوٹے کا ذکر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جے پور لٹریچر فیسٹول کا ذکر بھی ہے۔ اگرچہ اس میں کئی اہم کتابوں اور مصنفوں کا ذکر موجود نہیں(جیسے کالی داس، رومی، شیکسپئر، ملٹن، غالب، ٹالسٹائی اور دوسرے) تاہم ا س اعتبار سے اہم ہے کہ یہ دنیا کی تشکیل میں ادب کے کردار کا جائزہ لیتی ہے۔ ادب انقلاب لاتا ہے یا نہیں، یہ ایک متنازع موضوع ہے، لیکن ادب دنیا کی تشکیل میں باقاعدہ اور مسلسل حصہ لیتا ہے، یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ کاش اردو میں بھی اس نوع کی کتاب لکھی جائے کہ ہماری جنوبی ایشیائی دنیا کی تشکیل میں کن ادبی کتابوں نے، کس طور حصہ لیا!