اسالیب (کراچی) کے شمارہ دوم میں جناب مبین مرزا کا مضمون” عہدِ جدید اور فحاشی کا مسئلہ“ شایع ہوا ہے۔ یہ مضمون کئی اعتبار سے اہم ہے ۔ ایک یہ کہ اس میں فحاشی کے مسئلے کو ادب، فلم اور سائبر دنیا کے تناظر میں دیکھا گیا ہے؛ دو یہ کہ فحاشی کے سوال کو تہذیبی اقدار سے منسلک کر کے اس کی تفہیم اور اس پر بحث و جرح کے لیے ایک وسیع سیاق مہیا کیا گیا ہے۔ اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں فحاشی کے ثقافتی پس منظر کے سلسلے میں ایک واضح مﺅقف اختیار کیا گیا ہے جو قاری کو فحاشی کے تصورپر بعض نئے زاویوں سے غورو فکر کی تحریک دیتا ہے ۔ اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ اسالیب کے شمارہ سوممیں جناب زبیر رضوی نے اس پر ایک خیال انگیز مکالمہ قائم کیا ہے۔ زبیر رضوی نے مبین مرزا کے کچھ بنیادی نکات سے اصولی اختلاف کیا ہے اور اس طرح ایک اور زاویے سے فحاشی کے سوال کی تفہیم کا سامان کیا ہے۔ زیرِ نظر تحریر فحاشی کے تصور اور مسئلے کی اس بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے، جسے مبین مرزا اور زبیر رضوی نے آغاز کیا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ راقم نے فحاشی کے سوال کو ثقافت، ادب ا ور فن تک محدود رکھا ہے، سائبر دنیا میں اس کی صورتِ حال پر بحث کو کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا ہے۔
دیگر بہت سے سماجی اور ثقافتی تصورات کی طرح فحاشی کی تعریف کرنا آسان نہیں۔ قصّہ یہ ہے کہ ثقافت کا ہر عمل اور تصور ”اقدار سے لبریز“ ہوتا ہے؛ یعنی بلند و پست، کم ترو برتر، مفید و غیر مفید، افضل و اسفل کے ان تصورات میں لپٹا ہوتا ہے جو منطقی کم، رواجی اور اعتقادی زیادہ ہوتے ہیں۔ چناں چہ فحاشی سمیت کسی بھی ثقافتی تصورکی ٹھیک ٹھیک تعریف مشکل ہے، تاہم اس پر ایک ایسی بحث ضرور کی جا سکتی ہے، جو اس سے وابستہ اقدار کے سیاق میں کی گئی ہو۔ مبین مرزا نے یہی کوشش کی ہے۔ اس قسم کی بحث مشکل تو ہے ہی، خاصی نازک بھی ہے۔ چوں کہ تمام اقدار رواجی اور اعتقادی ہوتی ہیں، اور یہ ثقافت کی جڑوں میں اتری ہوتی ہیں، اس لیے ان کی روشنی میں فحاشی پر بحث ایک طرف بعض پختہ اعتقادات کے جائزے کی صورت اختیار کر جاتی ہے اور دوسری طرف ثقافت کے بنیادی ڈھانچے کو کھدیڑنے کے مترادف ہو جاتی ہے۔ یہ بات اس بحث کو صرف مشکل بناتی ہے، جو چیز اسے نازک بناتی ہے وہ اور ہے: افضل و اسفل کے تصورات یعنی اقدار اپنی متعلقہ ثقافتوں میں اپنے محافظ خود پیدا کر لیتی ہیں؛ کبھی کوئی سماجی گروہ اور کبھی ریاست محافظ ہو سکتی ہے اور کبھی دونوں ۔ ایک عجیب و غریب مگر بے حداہم بات یہ ہے کہ محافظ طبقہ اپنی سماجی شناخت ہی ان اقدار کی حفاظت کے عمل میں قائم کرنے لگتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا یہ عمل بے لوث نہیں ہوتا؛ وہ اقدار کی محافظت کے صلے میں کئی طرح کے مفادات کی فصل کاٹتا ہے ۔ لہٰذا کوئی محافظ طبقہ پسند نہیں کرتا کہ وہ جن اقدار کے تحفظ کو اپنا دین ایمان سمجھتا ہے، ان پر سوال قائم کیے جائیں۔ اسے اپنی شناخت اور اس سے وابستہ مفادات خطرے میں نظرآنے لگتے ہیں۔ چناں چہ ثقافتی اقدار پر مباحثہ، بعض طبقات کو مشتعل کرتا ہے تو یہ قابلِ فہم ہے۔
فحاشی ایک ثقافتی تصور ہے۔ چوں کہ ہر ثقافت میں افضل و اسفل کے معیارات الگ الگ ہوتے ہیں، اس لیے ہر ثقافت میں فحاشی کا مفہوم بھی جدا ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں متضاد ہوتا ہے۔ کسی ثقافت میں ایک پورے خاندان کا ننگا ہونا، فحش نہیں سمجھا جاتا تو کسی دوسری ثقافت میں محض سر (خاص طور پر عورت کے سر کا) کا ننگا ہونا ہی فحش قرار پا سکتا ہے۔ لہٰذا بجا طور پر مبین مرزا نے مغرب اور مسلم معاشرے میں فحاشی کے مختلف تصورات پر روشنی ڈالی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک ثقافتی تصور کے طور پر فحاشی اب ہر ثقافت میں وجود رکھتی ہے، ان معاشروں میں بھی جہاں لوگ اپنے جسم کو عریاں رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا فحاشی کا تصور ہم سے بہت مختلف ہے۔ تاہم واضح رہے کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ فحاشی کا تصور ثقافت کے ساتھ ہی پیدا نہیں ہو گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی تصور ہے جو بعض سماجی تبدیلیوں کے ساتھ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ۔ قدیم انسانی ثقافتوں میں انسانی جنسی اعضا کو عریاں رکھنے یاکھلے عام جنسی اعمال سرانجام دینے کو فحش نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر لیری فالس نے اپنی کتاب \”جب جنس مذہب تھا\” میں لکھا ہے کہ” بعض قدیم افریقی قبائل کو جب خاص خاص مواقع پر لباس پہننا پڑتا توان سے تقاضا کیا جاتا کہ وہ لباس پر مصنوعی جنسی اعضا لٹکائیں۔ “گویا ان کے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ انسانی جسم اپنا اظہار جنسی اعضا کے بغیر کر سکتا ہے۔ ان کے لیے نہ تو جنسی اعضا کا نظارہ جنس کے شدید جذبے کو تحریک دینے کا باعث تھا اور نہ جنسی جذبہ خوف ناک اور گناہ سے آلودہ تھا ۔ مگر جب امتناعات نے اخلاقی اور سماجی نظاموں کی صورت اختیار کی تو جنسی اعضا اور ان کے اخراج و تولید کے وظائف کے کھلے عام انجام دیے جانے یا ان کی تصویری و تحریری نمایندگی کو فحاشی قرار دیا جانے لگا۔ اس کے باوجود یہ بات نزاعی رہی کہ کس درجہ کی نمایندگی فحش ہے؟
بہ ظاہر یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ فحاشی کا تصور، ثقافت کے ٹھیک اسی مرکز میں موجود ہوتا ہے جواس کے بلند اخلاقی اور تہذیبی آدرش کا مقام بھی ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ فحاشی سے ابتذال، رکاکت اور بے ہودگی کے جو تلازمات وابستہ ہوتے ہیں، وہ دراصل خطرات ہیں جو کسی ثقافت کو اپنے ارفع اخلاقی آدرش کے حصول میں لاحق ہو سکتے ہیں۔ قدیم معاشروں میں ٹوٹم اور ٹیبو کے تصورات ایک دوسرے سے جدا نہیں تھے۔ فحاشی کے تصور میں کہیں نہ کہیں ٹیبو کا قدیم اساطیری تصور مضمر ہے؛ خاص طور پر جنس کو ٹیبو سمجھنے کا تصور۔ رابرٹ سمتھ کی ٹیبو کے سلسلے میں درج ذیل توضیح، فحاشی کی تفہیم میں معاون ہو سکتی ہے:
مقدس اور آلودہ اشیا میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں آدمی پر یہ پابندی عائد کرتے ہیں کہ آدمی ان کے قریب نہ پھٹکے۔ ان پابندیوں کو توڑنے میں مافوق الفطرت خطرات ہوتے ہیں۔ دونوں میں فرق اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کا روزمرہ زندگی سے کیا رشتہ ہے بلکہ اس میں کہ دونوں کا دیوتا سے کیا رشتہ ہے؟ مقدس اشیا آدمی کے لیے نہیں، وہ دیوتاﺅں سے متعلق ہیں۔ آلودگی سے احتراز کیا جاتا ہے کہ یہ دیوتاﺅں کے لیے قابلِ نفرت ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ دیوتاﺅ ں سے وابستہ تقدس نے اشیا ومظاہرکی اعلیٰ و اسفل کی جو درجہ بندی قائم کی، وہ تمام معاشروں میں اس وقت سے موجود رہی ہے جس وقت سے ان میں طاقت کا کوئی نہ کوئی مرکز موجود رہا ہے۔ بس دیوتا تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ غیر مذہبی معاشروں (اگرچہ کوئی معاشرہ مکمل غیر مذہبی نہیں ہوتا) میں بھی طاقت کا ایک ایسا مرکز موجود ہوتا ہے، جو علویت و سفلیت میں امتیاز کرتا ہے۔ جدید معاشروں میں ریاست کا کردار عموماً دیوتا کا ہوتا ہے اور وہی یہ بات طے کرتی ہے کہ لوگوں کے لیے کیا جائز اور کیا ممنوع ہے۔ اسی امتیاز کے ذریعے ریاست لوگوں پر غیر معمولی اختیار و قدرت حاصل کر لیتی ہے۔ یہ خاصے اچنبھے کی بات ہے کہ دنیا بھر میں آج بھی ریاست فحاشی کے تعین کا اختیار رکھتی ہے۔
یہ ایک غور طلب بات ہے کہ فحاشی ایک ثقافتی تصور کے طور پرخاصی پرانی ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ جدید عہد ہی میں ایک مسئلہ بنی؟ تصور اور مسئلے کا فرق پیشِ نظر رہے ۔ قبل جدید عہد میں عریاں تصاویر، ننگے مجسمے، کھلی ڈلی شاعری موجود تھی، مگر انھیں فحش نہیں سمجھا گیا تھا۔ مغرب میں روشن خیالی کے زمانے میں اور ہمارے یہاں نو آبادیاتی عہد میں انیسویں صدی کے اواخر میں فحاشی ایک مسئلہ بنی۔ مبین مرزا نے کہا ہے کہ ہمارے یہاں جعفرزٹلی کے بعد بیسویں صدی کے تیسرے اورچوتھے دہے میں فحاشی ایک مسئلہ بنی، جو درست نہیں ۔ فحاشی کا سوال 1857ء کے بعد پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا، جب نصابی اور اخلاقی ضرورتوں کے تحت اردو اور فارسی کے کلاسیکی ادب کا جائزہ لیا جانے لگا اور نیا ادب پیدا کیا جانے لگا تھا۔ ۔ ۔ ایک مسئلے کے طور پر فحاشی کا تعلق ” نمایندگی کی مختلف صورتوں“یعنی آرٹ سے ہے۔ یہ ایک دل چسپ تاریخی واقعہ ہے کہ جب تک آرٹ ایک محدود باذوق اشرافیہ طبقے تک محدود رہا، اس میں عریانیت کے مظاہر کے باوجودان کے فحش ہونے کا مسئلہ سامنے نہ آیا؛ عریاں کو فحش اورمبتذل قرار نہیں دیا گیا مگر جوں ہی آرٹ تک ہر عام و خاص کو رسائی حاصل ہو ئی تو اس کے جزوی یا کلی طور پر فحش ہونے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نشر و اشاعت کے جدید ذرائع فحاشی کے مسئلے کی آفرینش کے ذمے دار ہیں، مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے فحاشی کے مسئلے کو فروغ ملا ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ ابتدا میں فحاشی کی جو وضاحت کی گئی وہ آرٹ کے نئے بلاروک ٹوک ترسیلی کردار کے تناظر ہی میں کی گئی۔ 1864ء میں برطانوی لارڈ جسٹس سر الیگزینڈر کوکبم نے فحاشی کی تعریف میں لکھا کہ ” میرے خیال میں فحاشی کی آزمائش یہ ہے کہ آیا وہ مواد جس پر فحاشی کا الزام لگایا گیاہے، اس میں ان ذہنوں کو گمراہ اور بے راہ رو کر نے کا میلان ہے جو اس قسم کے غیر اخلاقی اثرات کی زد پر ہیں اور جن کے ہاتھ اس قسم کی تحریریں لگ سکتی ہیں۔ “آگے چل کر فحاشی کی جتنی تعریفیں، قانون یا سماجی اخلاقیات کے محافظوں نے کیں ان میں آرٹ کی ہر کہ و مہ تک باآسانی رسائی ہی کو بنیاد بنایا گیا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں نذیر احمد کے نصوح نے کلیم کا کتب خانہ جلانے کا فیصلہ جس بنیاد پر کیا، اس کی تفہیم ہمیں فحاشی کے مسئلے کے پیدا ہونے کی اصل رمز سے آشنا کراتی ہے۔ ”کیا اردو کیا فارسی سب کی سب کچھ ایک ہی طرح کی تھیں۔ جھوٹے قصے، بے ہودہ باتیں، فحش مطلب، لچے مضمون، اخلاق سے بعید، حیا سے دورمعنی ومطلب کے اعتبار سے ہر جلد سوختنی اور دریدنی تھی آخر کار یہی رائے قرار پائی کہ ان کا جلا دینا ہی بہتر ہے۔ “اس آگ میں کلیاتِ آتش، دیوانِ شرر، فسانہ عجائب، قصہ گل بکاﺅلی، آرائشِ محفل، مثنوی میر حسن، مضحکاتِ نعمت خان عالی، منتخب غزلیاتِ چرکین، ہزلیاتِ جعفر زٹلی، قصائد ہجویہ مرزا رفیع سودا، دیوان جان صاحب، بہاردانش، اندرسبھا، دریاے لطافت، کلیاتِ رند اور نظیر اکبر آبادی کی کتابیں جل کر راکھ ہوتی ہیں۔ اس کا ایک سبب تو خود نصوح اپنی بیوی فہمیدہ سے بیان کرتا ہے، جب وہ اس لرزا دینے والے فعل کا سبب دریافت کرتی ہے: ”جن کتابوں کو میں نے جلایا، ان کے مضامین شرک اور کفر اور بے دینی اور بے حیائی اور فحش اور بدگوئی اور جھوٹ سے بھرے ہوئے تھے۔ “نیز ] گلستاں کی فہمیدہ کو تدریس کے دوران میں [بھلا تم کو یہ بھی یاد ہے کہ میں تمھارے سبق کے آگے سطروں کی سطروں پر سیاہی پھیر دیتا تھا بڑی مشکل یہ تھی کہ میں ان واہی اور فحش باتوں کو تمھارے روبرو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ پھر یہ اس کتاب کا حال ہے جو پند واخلاق میں ہے اور تصنیف بھی ایسے بزرگ کی ہے کہ کوئی مسلمان کم تر ایسا نکلے گا کہ ان کا نام لے اور شروع میں حضرت اور آخر میں رحمتہ اللہ یا قدس سرہ العزیز نہ کہے۔“
اردو اور فارسی کی کتابوں پر بے حیائی، فحاشی اور بد گوئی کا الزام لگانے اور پھر خود ہی ایک قاہرانہ فیصلہ سنانے کا دوسرا سبب وہ نیا نظامِ اخلاق ہے جس کی تعلیم مقصود ہے اور جسے ماضی کے ادب کے لیے ایک مقیاس بنا لیا گیا ہے۔ گویا یہاں ادب کو ایک تعلیمی مقصد کی نظر سے دیکھا گیا ہے جو اجتماعی زاویہء نظر کی حامل ہونے کی مدعی ہوتی مگر حقیقتاً فقط ایک طبقے یعنی نوخیزذہنوں کی قیادت کرنے کے نقطہء نظر کی علم بردار ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت ادب اور آرٹ کو اخلاق کی تعلیم کا وسیلہ خیال کیا جانے لگتا ہے تو اسی وقت اس کے فحش ہونے کا مسئلہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ اسی حقیقت میں ایک گہری رمز یہ بھی چھپی ہے کہ ادب کو تعلیمِ اخلاق کا وسیلہ بنا کر ریاست یا مقتدر سماجی ادارے نہ صرف اخلاق سازی کے لسانی و فکری وسائل پر اجارہ حاصل کر لیتے ہیں بلکہ لوگوں کی ذہنی دنیا پر حاکمانہ اقتدار بھی حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے کہ کہاں فحاشی ایک حقیقی اخلاقی تصور ہے اور کہاں مقتدر اداروں کی لوگوں کے ذہنوں پر اجارے کی ایک چال ہے ۔ دوسری طرف ادب جب تک باذوق قارئین کی ایک خاص جماعت تک محدود رہتا ہے، اس کے مخربِ اخلاق ہونے کا کہیں سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ قارئین ِادب کی مخصوص جماعت اخلاقی اقدار سے بے گانہ ہوتی ہے نہ ادب کی اثر اندازی کی صلاحیت سے بے خبر ۔ اصل یہ ہے کہ وہ ادب اور اخلاق کے منطقوں کی جداگانہ سرحدوں میں یقین رکھتی ہے اور اسی بنا پر وہ ادب کے اثر کو اس کے منطقے کی سرحدوں ہی میں کارفرما دیکھتی ہے۔ دوسری طرف جب ادب کو تعلیمی مقصد کے لیے بروے کار لایا جانے لگتا ہے تو ادب اور اخلاق کی جدا گانہ سرحدوں کا تصور فسخ کر دیا جاتا ہے؛ ادب سے بنیادی مطالبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اخلاق کی تعلیم کا وسیلہ بنے۔ دوسرے لفظوں میں ادب کے جداگانہ جمالیاتی منطقے ہی کا سرے سے خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا زبیر رضوی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ” کل بھی اور آج بھی عریانی اور فحاشی کے نام پرادب اور فنون کے نمونوں کو دل آزار اور مخربِ اخلاق ہونے کے جرم میں عدالت سے سزا کا مطالبہ کرنے والے وہی لوگ تھے اور ہیں جو ادب اور فنون کی جمالیات سے قطعاً نا بلد ہیں۔ “چوں کہ اخلاقی تعلیم میں بنیادی زور ان برائیوں کے انسداد پر ہے جن کا میلان عام انسانی فطرت میں موجود ہے یا جو حقیقی طور سماج میں دندناتی پھر رہی ہیں، اس لیے ادب میں ان برائیوں کا ذکر فقط اس صورت میں گوارا ہوتا ہے کہ ان کا انسداد ہوتا دکھایا گیا ہو، اس کے علاوہ برائی کے کسی بھی طرح کے بیان کو فحش سمجھا جاتا ہے۔ برائی کے بیان کو برائی کے فروغ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مبین مرزا کا بنیادی تھیسس یہ ہے کہ ” فحاشی کا تصور ہر معاشرے میں الگ ہوتا ہے اور اس کا تعین وہ ضابطہ اخلاق کرتا ہے جسے اس معاشرے کی تہذیبی اقدار مرتب کرتی ہیں۔ “ اور ”کسی قوم یا تہذیب کا نظامِ اقدار کس اصول کے تحت تشکیل پاتا ہے؟ یہ تشکیل پاتا ہے اس کے تصورِ حیات کے تحت۔“ چناں چہ جب تصور ِحیات میں تبدیلی آتی ہے تو تہذیبی اقدار بھی بدلتی ہیں اوراس کے نتیجے میں فحاشی کا تصور بھی تغیر کی زد پر آتا ہے۔ اپنے تھیسس کومزید واضح کرتے ہوئے مرزاصاحب کہتے ہیں کہ” ویسے تو ہمارے یہاں وہ نظامِ اقدار جو معاشرے کو اکائی کی صورت جوڑ کر رکھتا ہے اور اس کے نظامِ اقدار کو قائم اور موثر رکھتا ہے، وہ لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے ٹوٹ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے بہت دنوں تک، اس نظامِ اقدار کو کسی نہ کسی درجے میں اپنے طرزِ احساس میں شامل رکھا“ لیکن اب ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو مذہبی اور روایتی اخلاقیات سے نہ صرف عاری ہے بلکہ اسے مسترد بھی کرتی ہے، لہٰذا اب فحاشی ہمارے لیے مسئلہ نہیں۔ مرزا صاحب کا یہ تھیسس (جو بڑی حد تک عسکری، سلیم احمد، سراج منیر اور جمال پانی پتی کی فکر سے مستنیر ہوا ہے)بعض اہم تاریخی واقعات کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثلاً پہلا تو یہی کہ مرزا صاحب 1857ء سے پہلے کے جس ادب کو مذہبی اور روایتی اخلاقیات سے عبارت تصور کائنات کی پیداوار قرار دے رہے ہیں، 1857ء کے بعد اسی پر فحاشی کا ڈسکورس قائم ہوا۔ نصوح نے جن کتب کونذرِ آتش کیا تھا، ان میں وہ سب عناصر موجود ہیں، جنھیں ”روایتی اخلاقیات “کا کوئی بھی علم بردار آج بھی فحش قرار دے گا اور انھیں داخلِ نصاب کرنے میں ہچکچائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم پاکستانیوں کی اکثریت مذہبی اور روایتی اخلاقیات سے عبارت تصورِ کائنات ہی کی حامل ہے، اور اس اکثریت میں ہمارے دانش ور اور ادیب بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ ہماری عمومی تنقیدی فکر میں ادیب کا تصورآج بھی آتھر گاڈ کے طور پر کیا جاتا ہے اور ادبی متن کے پروٹو ٹائپ کو مذہبی متن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے معانی کی افزائش اورتعین میں مصنف کے منشا ہی کو مقتدر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ رائے اختلافی ہے کہ اب ہم ایک غیر مذہبی تصورِ کائنات کے حامل ہوگئے ہیں۔ اگرمغرب کی طرح ہم بھی اس بشر مرکز تصورِ کائنات کے حامل ہوتے تو اس کو اپنی فکر کا راہ نما بنا کر حسی و عقلی ذرائع کی مدد سے انسانی علوم کی تخلیق کر رہے ہوتے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی علوم کی روایت میں گزشتہ چار صدیوں سے ہمارا حصّہ صفر ہے۔ جہاں تک فحاشی کے مظاہر کے باوجود فحاشی پر سوالیہ نشان قائم نہ کرنے کا تعلق ہے تو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ فحاشی کے مظاہر کہاں ہیں؟ انٹر نیٹ اور کیبل ٹی وی پر ہیں(جن پر اس وقت بحث مطلوب نہیں)، ادب میں تو نہیں ہیں۔ کیا معاصر ادب میں منٹو، عصمت، احمد علی، سجاد ظہیر کی طرح معاصر اخلاقیات کو چیلنج کرنے والے لوگ موجود ہیں؟ آج کا پاکستانی اردو ادیب، معاصرصورتِ حال پر یعنی پاکستانی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے کھیل، جسے بنیاد پرستی اور طالبانائزیشن کا نام ملا ہے اور جس نے زندہ انسانوں اور آزاد انہ فکر پر خود کش حملوں کا لامتناہی سلسلہ پید اکیا ہے، اس پر اس بے باکی سے لکھ رہا ہے جس کا مظاہر نو آبادیاتی دور میں ہمارے ادیبوں نے کیا؟ جن ادب پاروں پرفحاشی کے مقدمات قائم ہوئے، ان میں فقط رائج جنسی اخلاقیات کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا، بلکہ سماجی طاقت پر کسی ایک یا زیادہ طبقات کی اجارہ داری کے تصور سے بھی انکار کیا گیا تھا۔ آج ہم مجموعی طور پر ریاست کی نظر سے دنیا اور زندگی کو دیکھتے اور جیتے ہیں۔ مطابقت پذیری بیش از بیش اور انحراف عنقا ہے۔
اصل یہ ہے کہ فحاشی ایک خاص تاریخی صورتِ حال ہی میں ایک مسئلے کے طور پر سامنے آتی ہے، اور اسی بنا پر اس میں وہ عناصر از خود ظہور کرتے ہیں جو اس تاریخی صورتِ حال کا لازمہ ہیں۔ مثلاً اردو ادب میں فحاشی، ایک مسئلے کی صورت اس وقت رونما ہوئی جب برصغیر نو آبادیاتی استبداد کا شکار تھا۔ استعماری حکم ران برصغیرکے باسیوں کو تہذیب و شائستگی سے عاری، ان کی تاریخ کو ڈسپاٹک، زبانوں کو ورنیکلر یعنی غلاموں کی زبانیں، ادب کومبالغے سے لبریزاور غیر اخلاقی قصوں کی جاگیر قرار دے رہے تھے؛ اور انھی اسباب سے اور ان کے انسداد کی ہمہ گیر کوششوں کے تحت یہاں شائستگی یعنی سولائزیشن کے فروغ کی مساعی کر رہے تھے۔ لہٰذا اردو ادب میں فحاشی کی تشخیص اس استعماری استبداد نے کی جوبرصغیر کو تہذیب و شائستگی سے عاری قرار دے رہا تھا، تا کہ وہ وکٹوریائی تہذیبی و اخلاقی تصورات کی یہاں ترویج کر سکے۔ گویا ایک نیا نظامِ اخلاق متعارف کرایا گیا، جس کے علم بردار وہی لوگ تھے جو اردو ادب میں اصلاح کی تحریک چلا رہے تھے، یعنی سر سید، محمد حسین آزاد، مولانا حالی، نذیر احمد، ذکاءاللہ، اور لطف کی بات یہ ہے کہ اردوادب میں فحاشی کے نو بہ نو مظاہر کی دریافت بھی انھی بزرگوں کا کارنامہ ہے۔ اس تناظر میں ہمیں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ جن بزرگوں کی کتابوں پر فحاشی و بد گوئی کا الزام رکھ کر سپردِ آتش کیا گیا، وہ اور ان کے پڑھنے والے کیوں ان کے فحش ہونے سے آگاہ نہیں تھے؟ جواب بے حد سادہ ہے:ان کے لیے زندگی کے حقیقی مظاہر کی ادب میں ترجمانی خلافِ شائستگی نہیں تھی۔ عطار کے لونڈے کا ذکر ہو یا ازاربند کا، یہ سب زندگی کا حصہ تھا ۔ تاہم وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ زندگی میں شامل سب کچھ، ایک درجے کا نہیں ہوتا۔ تذکروں میں جن اشعار کا انتخاب پیش کیا جاتا تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی نظر میں اشعار میں کہی گئی سب باتیں ایک درجے کی نہیں ہیں؛ کچھ اعلیٰ، کچھ معمولی، کچھ سوقیانہ ہیں، مگر زندگی ان سب سے عبارت ہے۔
کلیم کے کتب خانے کا جلایا جانا، ہمیں نئے نظامِ اخلاق کے علم برداروں کی اس نفسیات اور حکمتِ عملی سے بھی آگاہ کرتا ہے، فحاشی کے انسداد کے ضمن میں جسے عموماً اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ نفسیات، طاقت کی ہے اور حکمتِ عملی، طاقت کے اندھے استعمال کی۔ طاقت کے اندھے استعمال کا نشانہ متن اور مصنف دونوں بنتے ہیں ۔ اندھی طاقت کا بہیمانہ استعمال ہر اس متن کو خاکسترکردینے یا ضبط کر لینے میں یقین رکھتا ہے جو فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح ان کے مصنفین کو جیل میں ڈالنے یا جلا وطنی پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ یہ طاقت ہمیشہ ادارہ جاتی ہوتی ہے :فحاشی کے ضمن میں مذہب اور ریاست اپنی اس طاقت کا بے رحمانہ استعمال کرتے ہیں جو بہ طور اد ارہ انھیں سماجی طور پر حا صل ہوتی ہے اور جس کے خلاف بغاوت کا مطلب پورے سماج سے ٹکر لینا ہوتا ہے۔
(جاری ہے)