اسوقت بلوچستان کئ حوالوں سے سب سے آگے ہوتا جارہا ہے۔ پسماندگی، غربت اور بے روزگاری کی اعلی مثالیں ملتی ہیں۔ بلوچستان میں شعوری علم پھیلانے اور آزادی اظہار پہ تو مدتوں سے قدغن لگی ہوئی ہے۔ نہ تو ادیب اور شاعر کھل کے معاشرے کے اصل چہرے کو بیاں کرسکتا ہے اور نہ ہی روشن خیال ترقی پسند ادب یا ادیب کے لیے کوئی گراونڈ موجود ہے۔ سیاست اور صحافت میں تو اظہار رائے پہ روز اول سے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مگر دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک انوکھی خبر وائرل ہوئی ہے کہ ( لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل ( لوامز) اوتھل میں شعبہ …
میں ایک ماہرِ نفسیات ہوں اور حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے ہاسپٹل میں نوکری کر رہی ہوں۔ میں نے طلبا یکجہتی مارچ میں شرکت کا فیصلہ نوکری کے ان دو سالوں میں پیش آنے والی مشکلات کی بدولت کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر سائیکالوجی پڑھائے جانے کے طریقوں اور گریجوایشن اور پوسٹ گرایجوایشن کے سلیبس اور کورس کونٹنٹس کے بارے میں احتجاج کیا ہوتا یا آواز بلند کی ہوتی تو آج میرا اپنے مضمون کے بارے میں علم بہت بہتر ہوتا۔ لیکن اس زمانے میں نہ یہ تعلیمی و سیاسی شعور تھا اور نہ ہی کسی نے اس طرف توجہ دلائی۔ سائیکالوجی کے ضمن میں جو بھی پڑھایا…
ہر ذی شعور انسان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے۔ مگر جس خطے میں تعلیم کا نظام بیٹھ گیا ہو۔ وہاں تبدیلی کے بجائے معاشرتی بحران جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے اور ہم سب بچپن سے اس بحران کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں ایک پالیسی کے تحت آواران کو تعلیمی حوالے سے پسماندہ رکھا گیا اور حال میں جان بوجھ کرتعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بنائی گئی پالیسیوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ جس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیمی نظام پر پڑ رہا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ زندگی انسان کو دو مواقع دیتی ہے اچھائی …
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے بلاگ کا گروپ جوائن کریں۔
ٹورنٹو کے مضافات کے ایک خوشحال علاقے میں ایک چرچ کے کرائے پر حاصل کیے گئے کمرے میں حسینہ لقمان سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس کو تیزی سے کھنگال رہی تھیں۔ وہ سٹاک مارکیٹ کی ایک اصطلاح ’والیوم‘ کے بارے میں پوچھتے ہوئے بازارِ حصص کی ایک اور تکینکی اصطلاح ’مارکیٹ کیپٹلائزیشن‘ کو بیان کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن یہ کسی سکول کا کمرۂ جماعت یا کسی مقامی کالج کا لیکچر ہال بھی نہیں۔ حسینہ لقمان ’کیمپ ملینیئر‘ یا کروڑ پتیوں کے کیمپ کی پراجیکٹ مینیجر ہیں۔ انھوں نے اس کی بنیاد بھی رکھی تھی اور ان کے ایک درجن شاگردوں میں تمام طالب علم 10 سے 14 برس کی عمر…
Social Plugin