طلبا یکجہتی مارچ : تعلیمی نظام میں بدلاؤ کی طرف پہلا قدم


میں ایک ماہرِ نفسیات ہوں اور حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے ہاسپٹل میں نوکری کر رہی ہوں۔ میں نے طلبا یکجہتی مارچ میں شرکت کا فیصلہ نوکری کے ان دو سالوں میں پیش آنے والی مشکلات کی بدولت کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر سائیکالوجی پڑھائے جانے کے طریقوں اور گریجوایشن اور پوسٹ گرایجوایشن کے سلیبس اور کورس کونٹنٹس کے بارے میں احتجاج کیا ہوتا یا آواز بلند کی ہوتی تو آج میرا اپنے مضمون کے بارے میں علم بہت بہتر ہوتا۔
لیکن اس زمانے میں نہ یہ تعلیمی و سیاسی شعور تھا اور نہ ہی کسی نے اس طرف توجہ دلائی۔ سائیکالوجی کے ضمن میں جو بھی پڑھایا جاتا تھا ہم پڑھ لیتے تھے اور ایک رات میں رٹے لگا کے امتحان دے آتے تھے۔ طالبعلمی کے زمانے میں میں نے طلبا سیاست میں بالکل حصہ نہیں لیا تھا۔ جس کی وجہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کے علاوہ کسی اور سیاسی پلیٹ فارم کا موجود نہ ہونا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبا ایک غنڈہ گرد جماعت کے طور پر مشہور تھی اور کیمپس میں جمیعت کے نظریات خاصے تنگ نظر اور قدامت پسند تھے جو میرے سوچ سے متصادم تھے۔
یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ہم سے ایک فارم پر کروایا گیا جو کہ کسی سیاسی سرگر می میں حصہ نہ لینے کا حلف نامہ تھا۔ یونیورسٹی کی پڑھائی ایسی تھی کہ نفسیات جیسے حساس مضمون کو پڑھائے جانے کے دوران ہماری اندر کریٹیکل تھنکنگ یا تنقیدی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔ بطور ماہرِ نفسیات میرا واسطہ مختلف عمروں اور شعبہ ہائے زندگی کے افراد سے پڑتا ہے۔ اور میرا کام ان کے مسائل کو سننا اور ان مسائل کا حل نکالنے میں ان افراد کی مدد کرنا ہے۔
اپنی زندگی کے اٹھارہ سال بہترین سکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور بطور ماہرِ نفسیات ٹریننگ حاصل کرنے کے باوجود جب میں نے پبلک سیکٹر میں کام کرنا شروع کیا تو مجھے کچھ نہایت بنیادی معاشرتی مسائل، انسانی مسائل، سیاسی مسائل کے بارے میں آگاہی نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ مجھے کتابیں پڑھنے کا بے انتہا شوق ہے، مجھے اس ضمن میں دشواری محسوس ہوئی کہ بددیسی مصنفین کی کتابوں میں پڑھے ہوئے نفسیات کے اصولوں کو کیسے اس خطے، ملک اور معاشرے کے انسان کے ذہنی مسائل سے جوڑا جائے۔
کیسے انگلش میں پڑھی ہوئی موٹی موٹی اصطلاحات کو لوگوں کو سمجھایا جائے۔ آیا نفسیات کا وہ علم جو میں نے سیکھا ہے کافی ہے لوگوں کی ذہنی پیچیدگیوں کو سمجھ پانے کے لیے؟ مجھے لگا کہ وہ کافی نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ مہنگائی، بے روزگاری، کم تنخواہ، مہنگی تعلیم، معاشی ناہمواریوں کے ستائے ہوئے لوگوں کو صرف یہ نہیں کہہ سکتی کہ ”یہ آپ کی سوچ کا قصور ہے“ یا ”اپنے سوچنے کے طریقوں کو بدلئے“۔ ایسا کرنا ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مذاق کرنا ہوگا۔
اپنے اٹھارہ سال کی تعلیم کو ضائع جاتے دیکھنا میرے لیے بہت پریشان کن اور فرسٹریٹنگ تھا۔ بھلا ہو کچھ دوستوں کا کہ انہوں نے ایسی کتابیں پڑھنے کو دیں اور ایسے مصنفین سے مجھے متعارف کروایا جو ماہرِ نفسیات تو نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے سائیکالوجی کے بارے میں لکھا تھا۔ تاہم ان کا کام انسانی زندگیوں کے بہت اہم پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ زندگی میں پہلی بار میں نے سوشیالوجی کو پڑھا، پولیٹیکل اکانومی کے بارے میں پڑھا، مارکس، گرامشی، ایڈورڈ سعید کو پڑھا۔
سوشلازم کیا ہوتا ہے، کلونیئل ازم یا نو آبادیاتی نظام کیا ہے، اوریئنٹل ازم کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور انسان کی نفسیات پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ برصغیر کے لوگوں کی تاریخ، ان کے معاشی اور سیاسی حالات کیا تھے اور ان کے ذہنوں پر نوآبادیاتی نظام کی چھاپ کے بارے میں پڑھا۔ اس بارے میں پڑھا کہ کس طرح میرے موجودہ علم اور معلومات کا راستہ نو آبادیاتی نظام کی تباہیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور کس طرح مغربی معاشرے کے انفرادیت پسندی پر مبنی انسانی نفسیات کے علم کو من و عن مشرقی اجتماعیت پسندمعاشرے کے لوگوں پر لاگو کرنا بہت شدید نا انصافی ہوگی۔
ان تمام امور کے ادراک نے میرے ذہن کو وسعت دی اور مجھے اس قابل بنا یا کہ میں زیادہ بہتر طریقے سے اپنے مریضوں کو سمجھ سکوں اور ان کی مدد کر سکوں۔ پچھلے اٹھارہ سالوں کی پڑھائی کسی کام کی نہ ہوتی اگر میں نے ان دو سالوں میں یہ سب کچھ پڑھ کر اپنے ذہن کو جگایا نہ ہوتا۔ اور سائیکالوجی کے علم کو سوشیالوجی، سیاسیات، تاریخ اور سیاسی معاشیات کے علوم کے ساتھ جوڑ کر نہ پڑھا ہوتا۔ اب طلبا یکجہتی مارچ کی صورت میں امید کی نئی کرن روشن ہوئی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ طلبا جب سیاسی، سماجی اور تعلیمی شعور سے ہمکنار ہوں گے اور ان کو تعلیمی پالیسیوں سے متعلق فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے گا تب وہ اپنی تعلیم سے متعلق بہتر انداز میں فیصلے کر سکیں گے۔