اب یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ ہمارے کالم نویس ایاز امیر بھی کیا دبنگ آدمی ہیں۔ پاکستانی جیسے منافقت سے بھرے معاشرے میں جودرست سمجھتے ہیں اُسے ڈنکے کی چوٹ پر کرنے اور برملا کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ چند دن پہلے میں رؤف کلاسراکا کالم پڑھ رہی تھی جس میں اُنھوں نے اسمبلی کے اُس سیشن کا ذکر کیا جس میں تمام اسمبلی نے یک آواز ہو کر طالبان سے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس اسمبلی میں اس معاہدے کے خلاف اُٹھنے والی واحد آواز جناب ایاز امیر کی تھی۔ مت بھولئے کہ اُس وقت طالبان کے خوف کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جفادری اُن کا نام زبان پہ لانے سے ڈرتے تھے۔ لیکن آفرین ہے جناب ایاز امیر پر کہ اُنھوں نے بوقت قیام سجدے میں جانے کی بجائے کھڑے ہوکر دلیری سے اپنا موقف بیان کیا۔
اب پس پردہ کیا مصلحتیں تھیں، کیا عزائم تھے، کیا خوف اور ڈر تھے۔ کِس کِس بات کا رونا رویا جائے اور حقائق کو کہاں تک تجزیوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔
اب اگر غیر جانبداری سے بات کریں تو ہمارے مقتدروں نے اس طالبان نامی عفریت کو کِس کِس طرح پھلنے پھولنے دیا۔ اُن سے امن معاہدے کیے۔ مگر وہ شتر بے مہار کی طرح پھیلتے ہی چلے گئے اور بعد ازاں حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ ہمارے اعلیٰ سرکاری عہدیداران کی پشاور کا نام سن کر ہی جان نکل جاتی تھی۔
جنرل راحیل شریف کے بارے میں کچھ بھی کہیں لیکن ایک بات کا کریڈٹ انہیں دینا پڑے گا کہ جب ہمارے تمام لیڈران طالبان سے مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ اس اللہ کے بندے نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا اور اس عفریت کا قلع قمع کیا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی جنرل راحیل کو ایک ایسے شخص کے طور پہ یاد رکھا جائے گا جس نے پاکستان کی سمت تبدیل کی۔
سچی بات مجھے ایکٹنشن سے بے حد چڑ ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میاں صاحب نے جنرل صاحب کو ایکٹنشن نہ دے کر اپنے اور ملک دونوں کے ساتھ بے حد زیادتی کی۔ دلاوروں کی قدر نہ کی۔ کیسے کیسے لوگ اِس منحوس جنگ میں اپنوں کی ہی مسلط کردہ بلاؤں اور عفریتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ماسوائے فوج کے کیا کبھی سول سوسائٹی نے اُن کو خراج تحسین پیش کرنے کی زحمت بھی کی۔ چوہدری اسلم، عفت اللہ غیور اور بے شمار ماؤں کے لال جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ابدیت حاصل کرگئے۔
کیا کبھی کہیں اُن کا ذکر ہے۔ اُن کی قربانیوں کا کوئی مول ہے؟ کوئی قیمت دے سکتا ہے۔ ممکن نہیں۔ مگر ہم پر اتنا قرض تو واجب ہے کہ اُن کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔ حکومتی سطح پر پذیرائی کریں۔ اُن کے خاندانوں کی ذمہ داری اٹھائیں۔ اگر ریاست خود کو اِس طرح ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں نظر آتی ہے تو آخر کچھ فرائض ہم لوگوں کے بھی تو ہیں۔ ہم جو عوام ہیں۔ ہم میں سے ہی کچھ کی نام نہاد فلاحی تنظیموں اور این جی اوز کے بھی لمبے چوڑے سلسلے ہیں۔ مگر کیسے لوگ ہیں ہم جنہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔ میڈیا کو بھی کیا پڑی ہے۔ اس کے ہاں تو ریٹنگ کی دوڑیں ہیں۔ اب تو ویسے بھی میڈیا کے حالات کافی نازک ہیں۔
آہ ہم نے کیا کیا اپنے ہاتھوں سے برباد کیا۔ میری عمر کے لوگ جب اپنے ماضی میں جھانکتے ہیں تو انہیں اپنا بچپن، اپنی جوانی کس قدر رنگینیوں سے بھری نظر آتی ہے۔ میلہ شالامار کاشاید کچھ لوگوں کی یادوں میں ہو۔ گاؤں سے تعلق والے لوگوں کو میلے ٹھیلوں کا بہت تجربہ ہوگا۔ گھروں کے سامنے کشادہ میدانوں میں راتوں کو لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے کھیلنا کتنی عام سی بات تھی۔ فلم اورمیوزک پروگرام دیکھنے کے لیے سہیلیوں کے ساتھ پروگرام بناتے اور گھروں میں میلاد پر جارہے ہیں جیسے بہانے گھڑے جاتے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم نے غربت میں بھی بہت امیر بچپن گزارا جہاں نہ فرقہ بندی تھی، نہ مسلکی اختلاف اور نہ ہی لسانی و صوبائی تعصبات۔ ہمارے گھر کے نچلے حصّے میں بنگالی کرایہ دار تھے۔ ایرفورس کے نان کمیشنڈ فوجی۔ مجھے یاد ہے میری مرحومہ ماں اُن کا بے حد خیال کرتی تھیں۔ ہمارے بچوں کا بھی بچپن بھی بہتر تھا۔ ہاں ایک بہت اہم تہوار ہوتا تھا بسنت نامی ہفتوں کیا جس کے لیے مہینوں تیاریاں ہوتی تھیں۔ سارے سریز میں ایک ترنگ ایک امنگ رقصاں رہتی۔ آسمان کی چھتیں نیلے پیلے رنگوں سے سج جاتیں۔ ایک بہت دلچسپ سا واقعہ بھی سُن لیجئیے۔
بسنت کی صُبح تھی۔ میں نماز کے لیے اٹھی۔ میں نے دیکھا میرا بڑا بیٹا جو اس وقت کوئی آٹھ نو سال کا تھا بیڈ پر نہیں تھا۔ سوچا شاید باتھ روم میں ہو۔ کوئی پون گھنٹے کے بعد جب میں واپس بیڈ روم میں آئی تو اُسے نہ پاکر پریشان ہواٹھی۔ اب پورے گھر میں ڈھونڈنے کے بعد بھائی کے گھر بھی پتہ کروا لیا۔ کہاں گیا آخر؟ والدین کی بے کلی عروج پر تھی۔ اِدھر اُدھر پتہ کروا لیا۔ گھر کے سامنے مسجد تھی۔ بچہ جمعہ پڑھنے ضرور مسجد جاتا تھا۔ وہاں ہونے کا کوئی امکان تو نہیں تھا۔ مگر پاگلوں جیسی کیفیت میں دیور کو دوڑایا۔ پتہ چلا کہ کونے میں بیٹھا دعائیں مانگ رہا تھا۔ میں نے اپنے بہتے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے پوچھا۔
” کیا مانگ رہے تھے میری جان۔ “
”امّاں اللہ میاں سے کہا تھا کہ آج ہوائیں پورب سے پچھم کی طرف چلیں اور ہم بہت گڈیاں لوٹیں۔ یہ بھی کہا تھا کہ اللہ میاں جی آج ابو ہمیں شام تک کچھ نہ کہیں۔ “
آپ اس افتصارے بھری کہانی سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے تو اُس کو بھی خون کا کھیل بنا ڈالا۔ لوگوں کا اتنا خون بہا کہ حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی لگا کر اپنی جان چھڑائی۔ آپ سٹیج ڈراموں کا حال دیکھ لیں۔ بہیودگی اور لچر پن کی وہ گرواٹ ہے کہ خدا کی پناہ۔
دل اس وقت پارہ پارہ ہوتا ہے جب مختلف ملکوں میں ہونے والے تہوار دیکھتی ہوں تو حسرت ہوتی ہے کہ یہ کِس قسم کے ٹوٹے پجے تہوار ہیں لیکن انہیں منانے میں اُن کی انتظامیہ اپنے بہترین نظم و ضبط، نفاست اور سلیقے طریقے سے ایسی بھرپور جان ڈال دیتی ہیں کہ رشک آتاہے۔ ہمارے تہوار کس قدرحسین اور اوریجنل تھے۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اُن سب کا ناس مار ڈالا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہم خوشیوں کے لیے کتنی ترسی ہوئی قوم ہیں۔
مجھے تو افسوس اپنی نئی نسل کا ہے۔ اپنے پوتوں کو دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اِن بے چاروں نے زندگی میں دیکھا کیا ہے؟ دم بھر کو گھر سے قدم نہیں نکال سکتے۔ نتیجتاً مبائل فونوں سے چمٹ کر رہ گئے ہیں۔ قومیں جب زوال پر آتی ہیں تو زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ کیا کرکٹ، کیا ہاکی، کیا سکواش کیا رہ گیا ہے ہمارے پاس فخر کرنے کے لیے۔