پہلے زمانے میں تجربہ کار بڑی بوڑھیاں حاملہ عورتوں کو خوش رہنے، مثبت سوچنے اور اچھی غذا کا مشورہ دیتی تھیں لیکن ان کی باتوں کی صداقت کی گواہی کے لیے عرصہ تک سائنسی تجربات نہیں ہوئے تھے۔ پچھلے چالیس پچاس سالوں میں علمی میدان میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔ اور ان میں ایک شعبہ نیورو سائنس کا بھی ہے جس کا ادراک ہرحاملہ عورت اور متعلقہ افراد کو ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ پڑھیں۔
مایا کی کہانی: جب مایا نے اپنے دو ننھے بچوں کے ساتھ پاکستان سے امریکہ نقل مکانی کی تو ایک ننھی روح اس کے بطن میں پروان چڑھ رہی تھی۔ اپنے وطن میں خود مختاری کی پراعتماد زندگی گزارنے والی مایا کے لیے امریکہ ایک قید خانے سے کم نہیں تھا۔ محبت سے بلانے اور ساتھ دینے کا وعدہ کر نے والے بھائی اور بھابی کا رویہ سوہانِ روح تھا۔ حاملیت کے دور میں یوں بھی جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ان حالات میں آنسوؤں کا ایک ریلا تھا جو امڈ پڑتا تھا کہ جس پر بند باندھنا مایا کے اختیار سے باہر تھا۔
مختلف ثقافت اور مشرقی طور طریقے سے ناواقف ڈاکٹر نے مایا کو بتایا۔ ”مجھے پریشانی ہے کیونکہ تمہارے بچے کا وزن بجائے بڑھنے کے کم ہو رہا ہے۔ تمہیں جلد از جلد ہسپتال میں داخل کرنا پڑے گا۔ اگلے تین دن کی تاریخ دے کر چلی گئی لیکن مایا جس کے بچے کی پیدائش میں ابھی پچیس دن باقی تھے سخت اسٹرس میں تھی۔ اور اگلی رات ہی غالبا ماں کی ذہنی حالت کی وجہ سے بچہ دنیا میں آ گیا۔ یہ بچہ کمزور اور چھوٹا سا تھا۔ شاید کچھ اور دن ماں کی گرمی میں پلتا تو صحتمند پیدا ہوتا۔ مایا جیسی اور بھی عورتیں نہ جانے کس قسم کے اذیت ناک حالات گزرتی، محبتوں کو روتی اور شدید اسٹریس سے گزرتی ہوں گی۔ لیکن ان کو بھلا کیا خبر کہ ان کے وجود میں پروان چڑھنے والا بچہ بھی کچھ کم تکلیف میں نہیں کہ یہ رشتہ معمولی نہیں آنول نال کا ہے۔
ماں کا اسٹرس بچے کی نشو نما پر:۔ شکم ِمادر میں بچے کی نشونما کاعمل انتہائی متحیر کن ہے۔ جو گویا ایک عمارت کی تعمیر سے مشابہہ ہے۔ ایک بیضہ سے متواتر اور سرعت رفتاری سے خلیوں کی تقسیم کا عمل جو بتدریج مختلف اعضا کی تفریق بھی کرتا چلا جاتا ہے کہ جس میں سب سے اہم دماغ ہے یعنی ہماراکنٹرول سینٹر۔ جو پیدائش سے قبل ہزاروں خلیے فی منٹ کے حساب سے بنا رہا ہوتا ہے۔ یہ خلیے بالآخر ایک دوسرے سے برقی مواصلاتی رشتہ قائم کرتے ہیں۔
اولاد کاماں سے رشتہ آنول نال سے ہوتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف غذا بلکہ بنیادی ہارمونز، پروٹین اور گروتھ فیکٹرز بھی بچے کو پہنچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس سمے شکم میں بچہ اس کا اپنا سہی لیکن ایک نیا وجود ہوتا ہے۔ ہمارا مدافعتی نظام نئے مادوں کے خلاف اینٹی باڈیز بناتا ہے۔ مگر زچگی کے وقت قدرت اس نظام کو کم موثر کر دیتی ہے۔
ماؤں کے اسٹرس ہارمونز کا خون میں اخراج جسم میں خون کا فشار، دل کی رفتار، سانسوں کی آمد و رفت کو تیز کر دیتا ہے اور سی ریکٹو پروٹین (P۔ R۔ C) کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے۔ ساتھ ہی سائیٹو کاینس میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب جسم میں سوزش پیدا کرتے ہیں۔ مستقل اسٹرس کے بھرپور اثرات بچے پر بھی پڑتے ہیں۔
حساس مشینیں مثلا الٹرا ساؤنڈ بتاتی ہیں کہ پیدائش سے دس ہفتہ پہلے ہی بچہ اپنے حواسوں کو اپنے اندر کی محفوظ دنیا میں استعمال کرتا ہے۔ وہ گردش کرتا ہے، ناچتا اور لاتیں مارتا ہے۔ ماں ہنستی ہے تو اس کے خوشی کے ہارمونز پہ بھی اثر پڑتا ہے۔ اگر ماں میں اسٹرس ہارمون مثلاً کوریسٹول اور ایڈریلین بڑھتے ہیں تو اثرات بچے پہ بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً
1۔ وقت سے پہلے بچہ کا پیدا ہو جانا۔ جو رحم میں (H۔ R۔ C) یعنی کورٹیکو پروٹروپک ریلیزنگ ہارمون کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
2۔ وزن میں کمی
2۔ وزن میں کمی
3۔ بچہ ہیجانی کیفیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
4۔ بچے میں ڈیپریشن، آٹزم اور سیکھنے میں کمی کے علاوہ اے ڈی ایچ ڈی (ADHD) اور اسکزوفینیا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
4۔ بچے میں ڈیپریشن، آٹزم اور سیکھنے میں کمی کے علاوہ اے ڈی ایچ ڈی (ADHD) اور اسکزوفینیا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
۔ 5۔ ایسے بچے روتے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور خود اپنی زندگی کے اسٹریس کو بھی منفی انداز میں لیتے ہیں۔
6۔ اسٹرس سے حمل کے ضائع ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں
6۔ اسٹرس سے حمل کے ضائع ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں
گو اس سلسلے میں تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ لیکن پوری دنیا میں اس پر انہماک اور سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے کہ ان بچوں کی ذہنی صحت کا تعلق ہماری سماجی ترقی اور روشن مستقبل سے ہے۔
اس سلسلے میں ایمسٹریڈم یونیورسٹی (Amsterdem) کی ڈاکٹر ٹیسا روبی بون (Tessa Robeboon) کی تحقیق کا ذکر ضروری ہے جو ایک لمبے دورانیے میں ان چوبیس سو افراد پہ کی گئی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈچ قحط (ہالینڈ 1944 ) میں اپنی ماؤں کے شکم میں تھے۔ اور ان کی تخلیق کا بیج قحط، بے بسی اور جنگی ہولناکی کے زمانے میں پڑا۔ بھوک اور غربت کے نتیجہ میں اسٹرس میں مبتلا ماؤں کے یہ بچے ادھیڑ عمر میں دل کی بیماریوں، کولیسٹرول کی زیادتی کا شکار ہونے کے علاوہ خود اپنی زندگی میں بھی اسٹرس سے منفی انداز میں نبرد آزما رہے ہیں۔ بہ نسبت ان افراد کے جو قحط سے پہلے پیدا ہوئے۔
ماؤں کے اسٹرس ہارمونز بچوں کے دماغی خلیوں اور ان کے درمیان برقی ربط پر اثر انداز ہو کر بحیثیت مجموعی اعصابی، جسمانی اور ذہنی صحت پہ اثر انداز ہوئے۔ جس کا دور رس اثر ان کے بڑھاپے تک رہا۔ اور بیماریوں کی مشکل میں ان ماؤں کے کرب کی یاد دلاتا رہا کہ جن سے ان کا آنول نال کا رشتہ تھا۔
اسٹرس کے دور رس اثرات سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم اپنے بچوں کو کیسا مستقبل دینا چاہتے ہیں۔ ایسا معاشرہ کہ جس میں طاقتور کمزوروں کی حق تلفی کر کے نا انصافی کی فضا میں اسٹرس کی آلودگی برقرار رکھیں۔ یا ایسا کہ جہاں انصاف، محبت، امن و آشتی اور فکر سے عاری خوش و خرم انسان بستے ہوں؟ لازم ہے کہ غیر انسانی قدروں کو رد کرتے ہوئے ایسے طریقہِ زندگی کو اپنائیں جو زندگی میں اسٹرس کم کرے اور ذہنی سکون بخشے۔