محمد حنیف بہتر تو یہ ہوتا کہ تم لوگ سر غفور کی بات مان لیتے جو انھوں نے بہت شائستہ لہجے میں کہی تھی کہ صحافی صرف چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کریں پھر دیکھیں پاکستان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔ تم میں سے اکثر مان گئے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو آزادی صحافت کا رونا روتے رہے۔ حامد میر کے پرانے پروگراموں سے کلپ نکال کر ماتم کرتے ہیں کہ نئے پاکستان کے بانی اور فاتحِ واشنگٹن ڈی سی نے تو خود کہا تھا حامد میں آزادی صحافت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہوں کیونکہ پی ٹی آئی تو بنی ہی میڈیا کی وجہ سے تھی اور جب دس بارہ سال تک قوم میری بات نہیں سنتی تھی تو صرف صحافی سنتے تھے۔ ت…
محمد حنیف زبان پہلے بے ادب ہوئی تھی اب گستاخ ہونے لگی ہے۔ جس دن ڈان اخبار نے یہ رپورٹ کیا کہ سویلین سیاستدانوں نے جنرلوں سے دبے لفظوں میں پوچھا کہ حافظ سعید کا کیا کرنا ہے۔ اسی دن حکمران جماعت کے ایک ایم این اے نے کہا کہ حافظ سعید ہمارے لیے کون سے انڈے دیتے ہیں کہ ہم پوری دنیا کو جواب دیتے پھریں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہمارا میڈیا اور ہمارے مقتدر ادارے اس گستاخی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، استعفے ہوئے، کمیشن بنے، کوئی مودی کا یار ٹہرا تو کوئی خاندانی غدار۔ اور اب ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پوری دنیا کے سامنے، کیمرے پر آ کر کہا کہ حافظ سعید پاکستان پر…
محمد حنیف جب بچہ بولنا سیکھتا ہے تو پہلے اس کو بڑوں کو سلام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ تھوڑی زباں رواں ہوتی ہے تو ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار ٹائپ کا نرسری گیت، یا مدینے کو جاؤں جی چاہتا ہے قسم کی نعت رٹوائی جاتی ہے جو بچے کو گھر آئے مہمانوں کے سامنے سنانی پڑتی ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں وہ ممنوعہ الفاظ بھی سیکھ لیتے ہیں اور انھیں اس میں ایک خاص قسم کا لطف آتا ہے لگتا ہے کہ وہ اب بڑے ہو گئے ہیں۔ بچہ جب پہلی دفعہ پشی اور پوٹی جیسے لفظ سیکھتا ہے تو انھیں موقع موقع استعمال کرتا ہے اور کھلکھلا کر ہنستا ہے۔ پھر بچہ بڑا ہو کر گلی محلے میں جاتا ہے اور اپنی …
سابق جنرل کی سوچ ہر طرف پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ نہ کہیں ماتمی جلسہ، نہ کوئی یادگاری ٹکٹ، نہ کسی بڑے چوک پر اس کا بت، نہ کسی پارٹی جھنڈے پر اُس کی تصویر، نہ اُسکے مزار پر پرستاروں کا ہجوم، نہ کسی کو یہ معلوم کہ مزار کے نیچے کیا دفن ہے۔ نہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اُسکے فرمودات، نہ ہر لحظ اُٹھتے سیاسی ہنگاموں میں اسکی بات۔ نہ بڑے لوگوں کے ڈرائنگ روموں میں اُسکے ساتھ کھنچوائی ہوئی کوئی تصویر، نہ کسی کتب خانے میں اُسکے کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر۔ نہ کوئی سیاستدان چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے میں اسکا مشن پورا کروں گا۔ نہ کوئی دعا کے لیے ہاتھ…
محمد حنیف کیا کہا کسی نے کہ سکول میں بچوں کو اقبالیات اور اسلامیات پڑھائی جائے؟ دل سے صدا نکلی ’نواں آیاں اے سوہنیا‘۔ پھر دماغ نے پوچھا کہ آپ لوگ کون سے سکولوں میں پڑھے ہو؟ ایچی سن کالج میں۔ آپ کے زمانے میں شاید یہ نہ پڑھاتے ہوں، اب تو پچھلے 30 سال سے ٹاٹ سکولوں سے لے کر سینٹرل ائیرکنڈیشن سکول میں بھی پڑھاتے آرہے ہیں۔ دل میں سوال آیا کہ ہمیں آپ نے اقبالیات اور اسلامیات کے علاوہ پڑھایا کیا ہے؟ سوال ہونٹوں پر اس لیے نہیں آیا کیونکہ اپنے ایم سی ہائی سکول میں اسلامیات کے استاد منشی اسلم کا پرنور چہرہ، چمکتی ہوئی کالی شیروانی اور ذری والے کھسے یاد …
محمد حنیف AFP عاصمہ جہانگیر پشین سے پشاور تک گھومتی تھیں اور جتنا بولتی تھیں اس سے کہیں زیادہ وہ سنتی تھی بچپن میں ہی یہ سبق پڑھا دیا گیا تھا کہ اگر قائداعظم پاکستان کے قیام کے فورا بعد اس جہان فانی سے کوچ نہ کرتے تو پاکستان ایک مختلف ملک ہوتا اور کچھ نہیں تو چھوٹی موٹی سپر پاور ہوتا۔ چولہوں میں گیس پوری آ رہی ہوتی، فوج سرحدوں پر جنگی مشقیں کر رہی ہوتی، عامر اور آصف پاؤنڈ لے کر نو بالیں نہ کرتے، عمران خان کو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر سے ملنے دبئی نہ جانا پڑتا بلکہ پاکستان اتنا پرسکون، خوشحال اور بورنگ سا ملک ہوتا کہ شاید عمران خان کو سیاست میں آ…
Social Plugin