بہتر تو یہ ہوتا کہ تم لوگ سر غفور کی بات مان لیتے جو انھوں نے بہت شائستہ لہجے میں کہی تھی کہ صحافی صرف چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کریں پھر دیکھیں پاکستان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔
تم میں سے اکثر مان گئے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو آزادی صحافت کا رونا روتے رہے۔
حامد میر کے پرانے پروگراموں سے کلپ نکال کر ماتم کرتے ہیں کہ نئے پاکستان کے بانی اور فاتحِ واشنگٹن ڈی سی نے تو خود کہا تھا حامد میں آزادی صحافت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہوں کیونکہ پی ٹی آئی تو بنی ہی میڈیا کی وجہ سے تھی اور جب دس بارہ سال تک قوم میری بات نہیں سنتی تھی تو صرف صحافی سنتے تھے۔
تو صحافیو تم لوگوں کو یہ زعم ہے کہ پی ٹی آئی تم نے بنوائی تو سنو، سب کے سب سنو، دائیں بازو والے صحافیو اور بائیں بازو والے صحافیو، اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے کاٹ کر بیرونی ہاتھ ڈھونڈتے صحافیو، لفافہ صحافیو، بریف کیس صحافیو، اپنی تنخواہوں میں چالیس فیصد کٹوتی کرانے والے صحافیو، چالیس فیصد کٹی ہوئی تنخواہ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے صحافیو، نئی موٹر سائیکل کی خواہش کرنے والے صحافیو، اپنا ذاتی جہاز رکھنے والے صحافیو، بےروزگار صحافیو، بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے صحافیو،
ججوں کے ویڈیو پر ویڈیو بنانے والو، بڑے پیروں کے گھروں میں سالم بکرے کھانے والو، پریس کلبوں میں بیٹھ کر سرکاری چیک وصول کرنے والو، صحافت کے نام پر پلاٹ مانگنے والو، وٹس ایپ سے ٹِکر چلانے والو، آدھی رات کو سیٹھ کے حکم پر ہیڈ لائن بنانے والو، انگریزی والو، سندھی والو، اردو والو، کراچی کے ساحل پر مرنے والے کچھوں کی کہانیاں کہنے والے صحافیو، ریکوڈک کے سونے میں مزدوروں کے شب و روز کی کہانیاں ڈھونڈنے والے صحافیو،
گوادر میں پانی کے ٹینکر کی قیمت کا حساب رکھنے والے صحافیو، ملک ریاض کی سلطنت کے نقشے کھوجتے صحافیو، پاکستان سے چین جانے والی دلہنوں کے دکھ سناتے صحافیو، خضدار میں مرنے والے صحافیو، تربت میں اجتماعی قبریں ڈھونڈتے صحافیو، منظور پشتین کے ساتھ فوٹو بنوانے والے صحافیو، قومی رازوں کو فرنٹ پیج پر چھاپ کر غیر ملکی این جی اوز سے ہیرو ٹائپ ایوارڈ لینے والے صحافیو،
صحافت کو مشن سمجھنے والے صحافیو، صحافت کو دھندہ ہے پر گندا ہے سمجھ کر کرنے والے صحافیو، یوٹیوپ پر اپنے چینل بنا کر سیٹھوں سے مقابلہ کرنے کے خواب دیکھنے والے صحافیو، ٹوئٹر پر صبح شام علاقہ گیری کرتے صحافیو، صحافیوں نے کوڑے کھائے تھے کی گردان کرنے والے صحافیو،
منیر نیازی کے شعروں سے قوم کے مستقبل کی فال نکالنے والے صحافیو، ناول گاڈ فادر کو تاریخی دستاویز سمجھنے والے صحافیو، جونیئر، سینیئر اور تجزیہ نگاری کی نرسری میں پل رہے صحافیو، فحاشی کی کمائی کھا کر فحاشی کے خلاف جہاد کرنے والے صحافیو، سر باجوہ کے لیے ایکسٹینشن کا مطالبہ کرتے صحافیو، ایک حدیث سے شروع کر کے غالب کے شعر پر کالم ختم کرنے والے صحافیو، اوئے سب ایڈیٹرو، اخبار کا پیج بنانے والو، ٹکر ٹائپ کرنے والو، ٹیلی ویژن کی ڈی ایس این جی وین پر جنریٹر چلانے والو، قمیض کے اندر سے ہاتھ ڈال کر مائیک لگانے والو اور ان سب کے مالکو، شکیلو، لاکھانیو، ہارونو، حاجیو اور قاضیوں سب سن لو۔
تم صحیح کہتے ہو۔
ہمارا (بلکہ اب امریکہ کا بھی) لیڈر صحبح کہتا ہے کہ پی ٹی آئی میڈیا نے بنائی تھی۔ اب ہم آپ کو ایک نئی پی ٹی آئی کیوں بنانے دیں گے اور اگر سچ بولنے کا اتنا ہی شوق ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ کیا واقعی اس ملک کو ایک اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے؟