حالیہ دنوں کیچ، گوادر اور خاص کر پسنی میں آئے روز نوجوان درختوں اور پنکوں سے لٹک کر دارِ فانی سے بیزاری کی غمزدہ داستانیں رقم کررہے ہیں جس سے معاشرے میں تشویش کی ایک لہر دوڑ رہی ہے، کہ نہ جانے کب کس کی خبر ملے کہ اس نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی ہے۔ اس مہینے یہ پانچواں جبکہ اس سال یہ تعداد کم و بیش ایک درجن سے بھی سوا ہے۔ عمومی رائے تو اسے معاشی حالات کی خرابی اور بزدلی گردانتی ہے لیکن اگر ہم حالات کا بغور جائزہ لیں تو یہ تصویر ایک ہی رنگ سے نہیں بلکہ مختلف نوع کے رنگوں سے وجود میں آتی ہے۔
قومی سطع پہ خودکشی اب بھی جرم کی نوعیت کا عمل ہے جب کہ عالمی سطع پہ یہ نفسیاتی بیماری ہے۔ چنانچہ ہر بیماری کا سبب یا بیکٹریا یا وائرس ہوتے ہیں تو ہمیں ان جراثیم کی تلاش کرنی چاہیے جن سے ہمیں اس بیماری کی جڑ تک پہنچنے میں مدد ملے۔
عمومی رائے ہی کو لیتے ہیں اور معاشی زبوں حالی ہی کو اول درجہ پہ رکھتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دادا پردادا نے تو تین تین دن تک بھوک سہی ہے، بدن نے نئے کپڑے مدتوں بعد دیکھے ہیں لیکن خودکشی نہیں کی اب جب سہولیات اس وقت کی نسبت لاکھ بہتر ہیں تو خودکشی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے ؛ لہذا واضع امر یہ ہے کہ اس وقت بہترین آمدنی معاشرے میں عزت کا تنہا مظہر نہیں تھا جبکہ آج کل معاشرے میں یہ بنیادی اور تنہا مظہر ہے۔ معاشرہ آپ کو آپ کی امدنی کے مطابق حثیت دے گی۔ آپ کی اخلاقی اور علمی قدروں کی حثیت کسی امیر کے جوتے کی خاک کے برابر ہے نتیجاً ہر نوجوان بہترین آمدنی کی تگ دو میں ہے اور بے جا وسوسے ذہن میں بساتا ہے۔ جو ناکامی کی صورت میں ڈپریشن پھر خودکشی کے موجب ہوتے ہیں۔
اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بارِ کمائی مرد پہ ہے اس لیے خودکشی کا رجحان بھی مردوں میں زیادہ ہے جبکہ عورتوں میں مردوں کے نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خودکشی کرنے والے زیادہ تر مرد ہیں اور زیادہ تر نوجوان بھی ہے۔
خودکشی کے دوسرے وجوہات میں معاشرتی عدم مساوات اور رشتوں کے بارے میں معاشرے کی غلط رویے کی ہے۔ اول تو معاشرے میں شادی کے ذرائع کو ناقابل رسائی بنادیا گیا ہے جس سے انسانی جبلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خواہشات کو یا تو دبانا پڑتا ہے یا غلط روی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بقول فرائیڈ خواہشات کو دبانے کے نتیجے میں یہ متبادل رستے تلاش کرتی ہیں، مرتی نہیں۔
رشتوں کے بارے میں معاشرے کا دوسرا غلط رویہ عشق کے ضمن میں آتا ہے۔ ہزاروں خواہشات کے پجاریوں میں کہیں نہ کہیں کچھ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو عشق کے مرض لادوا میں مبتلا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کو ہمیشہ عشق سے نفرت رہی ہے۔ جبکہ حساس نوجوانوں میں یہ خودکشی کا ایک اہم وجہ رہا ہے۔
خودکشی کو ایک آسان اور نجات کا راہ ثابت کرنے میں جہاں تک دوسرے محرکات کارفرما ہیں وہی پہ بالی وڈ کی فلمیں، ہمارے گانے اور ہماری جاہلانہ روایات بھی ذمہ دار ہیں۔ جو نوجوانوں کو زندگی کے حالات سے لڑنے کے بجائے خودکشی کی طرف اکساتے ہیں۔ اور موت ہی میں انھیں کشش نظر آتی بقول شاعر ؎
موت کے درندے میں کچھ کشش تو ہے ثروت
ورنہ لوگ کیوں سوچیں خودکشی کے بارے میں
مزید براں ہماری حکومت کی نالائقی سے جنم لینی والی سفارش کلچر اور روزگار کے مسدود زرائع بھی خودکشی کے محرکات ہیں۔ ہر وہ شخص جو اس کارِبد میں کہیں نہ کہیں ملوث ہے وہ قاتل ہے۔
تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 325 کے مطابق خودکشی کرنے والا مجرم ہے۔ جسے چار ماہ قید اور جرمانہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کے علی الرغم خودکشی کی کوشش کرنے والے شخص کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے جیل کی نہیں۔
ہمارے دانشوروں، میڈیا اور حکمرانوں کو مثبت رویہ اختیار کرکے معاشرے میں منفی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ سب سے بڑھ کر خدا کے پیغام کی ایسی تعلیم ممکن بنانی ہے کہ ہر کسی کو پہنچے کیونکہ کلام اللہ سے زیادہ فائدہ مند چیز کائنات میں نہیں۔ اس کے پڑھنے والے پرامید ہی ہوتے ہیں۔