جب ضمیر پر بوجھ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا

عاطف توقیر


ایک شخص کسی علاقے میں گیا، تو وہاں ایک کوچوان نہایت مریل گھوڑے والے ٹانگے کے ساتھ کھڑا سواریاں گھیر رہا تھا۔ تب ٹانگے کا کرایہ دو روپے فی سواری ہوتا تھا، سو اس نے کوچوان کے ہاتھ میں دو روپے تھمائے اور ٹانگے پر بیٹھ گیا، گھوڑے کی لاغر ٹانگیں لڑکھڑائیں، تو ساتھ ہی کوچوان نے چھینکا گھوڑے کی پیٹھ پر ٹھوک دیا۔

مسافر گھوڑے کی خستہ حالی دیکھ کر کوچوان کو مخاطب کر کے بولا، تم گھوڑے کو کچھ کھانے کو نہیں دیتے؟

کوچوان نے ایک لمبہ قہقہہ لگایا اور بولا، ‘صاحب، میں انصاف پسند آدمی ہوں اور ضمیر کی آواز سنتا ہوں۔ انصاف کے خلاف کام کروں گا، تو ضمیر کہاں سونے دے گا۔ ہم دونوں (کوچوان اور گھوڑا) سارا دن محنت کرتے ہیں اور شام کو قرعہ ڈالتے ہیں، اگر قرعہ گھوڑے کے نام نکل آئے، تو میں کچھ نہیں کھاتا، سارے پیسوں کے پٹھے، چنے، پھل اور خشک پھل گھوڑے کے آگے ڈال دیتا ہوں، اگر قرعہ میرے نام نکل آئے، تو میں گھوڑے کو کچھ نہیں دیتا، میں بہترین کھانا کھاتا ہوں اور باقی پیسےکا دارو خرید لیتا ہوں۔ اب یہ میرا قصور تھوڑی ہے کہ ڈیڑھ ہفتے سے قرعہ میرے نام کا نکل رہا ہے۔‘‘


کہتے ہیں کہ ضمیر کسی انسان کو غلط کام سے روک تو نہیں سکتا، مگر گناہ کا لطف کرکرا کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی میدان میں ‘ضمیر‘ کا لفظ سب سے زیادہ مستعمل الفاظ میں سے ایک ہے۔ ضمیر کو بوجھ کبھی کسی کو سیاست میں کھینچ لاتا ہے، وعدے کرواتا ہے، عوام کی فکر میں بیدار راتوں کی کہانی سرخ اور سوجی آنکھوں کی صورت میں دکھاتا ہے، کبھی غریبوں کی بھوک کی فکر میں آنسو بن جاتا ہے اور کبھی ملکی مفادات کی خاطر اپنا سکون تج دینے کے بیان میں بدل جاتا ہے۔

اس سیاسی ضمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ جب تک اپوزیشن میں ہو، تب تک نہایت حساس اور بوجھل رہتا ہے اور جوں ہی حکومتی حلف اٹھا لے اچانک ہلکا ہو جاتا ہے اور اس کے خراٹوں کی آواز میں پھر نہ کوئی چیخ سنائی دیتی ہے نہ سسکی۔

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا ضمیر اتنا نازک مزاج واقع ہوا ہے کہ حکومتی چھینک سے بھی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ پریس کانفرنسوں میں چیخ چیخ کر اور بازو لہرا لہرا کر عوام کے دکھوں کا ماتم کرتا ہے اور اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کہ حکومتی ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔

مصطفیٰ کمال سن 2016ء میں کراچی پہنچے تو انہوں نے آبدیدہ آنکھوں سے بتایا کہ کس طرح ضمیر انہیں بیرون ملک کی آسودہ زندگی چھوڑ کر پاکستان میں غریبوں کے دکھوں کا مداورا کرنے والے مسیحا کا روپ دھارنے کے لیے اکساتا رہا۔

ان دنوں ن لیگ کے بہت سے رہنما پی ٹی آئی کی حکومت کے رہنماؤں کے سوتے ضمیر کی نشان دہی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی، تو اس کا تب کا حساس ضمیر کسی بھی سانحے، واقعے حتیٰ کے عمومی معاملے پر بھی اس حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا کہ اس شعبے کے حکومتی وزیر کا ضمیر کا بوجھ اتنا کیوں نہ بڑھ گیا کہ وہ اس بوجھ تلے دب کر استعفیٰ دے کر اپنا بوجھ ہلکا کر ڈالیں۔

عمران خان صاحب کی ماضی کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر ان دونوں خاصی مقبول ہے، جب وہ اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے اور ان کا ضمیر نہایت حساس واقع ہوا تھا۔ اس وقت ایک ریل حادثے کے بعد انہوں نے ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے غم سے مغلوب ہو کر تب کے وزیر ریلوے سعد رفیق سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ 

خان صاحب کا موقف تب یہ تھا کہ یورپ میں کسی چھوٹے سے واقعے پر بھی متعلقہ محکمے کے وزیر کا ضمیر اسے استعفیٰ پیش کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ تب اپوزیشن میں بیٹھے شیخ رشید صاحب بھی اپنے ضمیر ہی کی آواز پر اس وقت کے وزیر ریلوے کو حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جانے کا مشورہ دیتے رہے۔ ان کا وہ جملہ سوشل میڈیا پر خاصی لے دے کا باعث بنا، جس میں شیخ صاحب نے کہا تھا کہ وہ ضمیر کے قیدی ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں۔

عمران خان کا دور آیا، تو حادثات اسی تواتر سے ہوتے چلے گئے، تاہم ماضی کے رہنماؤں کی طرح ان کا ضمیر بھی اقتدار کی لہک میں بالکل ویسے ہی گیت گانے میں مصروف ہو گیا، جیسا پہلے ہوتا رہا۔ ابھی حال ہی میں ایک ٹرین حادثے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور سوشل میڈیا پر پھر سے ضمیر ضمیر کی گردان شروع ہوئی، تو شیخ صاحب نے فرمایا، ”میں ابھی ضمیر کا بوجھ محسوس نہیں کر رہا، بوجھ پڑا تو استعفیٰ دے دوں گا‘‘۔

DW