یوں تو مجھے ڈراموں یا فلموں سے کوئی خاص رغبت نہیں ہے مگر اگر کوئی بھتجی کسی اچھے یک روزہ ڈرامے یا فنی مووی کا لنک واٹس اپ کر دیتی ہے تو دیکھ لیتی ہوں۔ میری چھوٹی بھتجی میری فورسز سے دلی لگاؤ کے متعلق جانتی ہے۔ چند روز قبل اس نے مجھے ایک سلسلے وار ڈرامے کا لنک سینڈ کیا اور ساتھ لکھا، کاکا اس میں ایئر فورس لائف بھی ڈسکس کی گئی ہے۔ میں نے بڑے شوق سے لنک اوپن کیا تو پتہ چلا مسٹر سولجر بصارت کھونے کے سبب ایئر فورس چھوڑ چکے ہیں تاہم ذہنی طور پر آج بھی فلائٹ لفٹینٹ ہیں۔
بہرحال میرا شوق تو ایک قسط دیکھ کر فوت ہوگیا البتہ اس ڈرامے کی ایک بیمار سوچ کو دیکھ کر میرا دل کر رہا ہے میں اس ڈرامے کی فرسودہ سوچ پر کچھ لکھوں اور وہ فرسودہ سوچ ہے ایک ڈری، سہمی عورت جس کے شوہر نے دو شادیاں کی ہوتی ہیں موضوف چھوٹی والی کو بیوی جبکہ بڑی کو ملازمہ سمجھتے ہیں۔ اچھا چلیں مان لیا یہ ہے مرد کا بھیانک روپ۔ اب آتے ہیں اس خود ساختہ مظلوم خاتون کی جانب جن کا رونا ہی نہیں تھم رہا جو روتی بلکتی پورے گھر کا کام کرتی ہے، ساس، نند اور سوکن کی باتیں سنتی ہے شوہر کے طعنے برداشت کرتی ہے، اپنی جوان بیٹی کے منہ سے اپنے آپ کو ہی قصوروار سن کر سجدے میں اپنے رب کے حضور آنسو بہاتی ہے۔
سچ پوچھے تو مجھے تو ایسی صابرہ سمیت شاکرہ خاتون پر ذرا ترس نہیں بلکہ بہت غصہ آیا ساتھ اس عجیب کردار کے خالق رائٹر کی بھی کلاس لینے کو دل کرا، ان ڈرامہ نگاروں کی وجہ سے ہی پاکستان میں شریف عورت کا تصور ’ڈری سہمی خاتون‘ ہے۔ اس بے کار سوچ کی وجہ سے ہی آج ہر گھر کی خاتون خود ساختہ مظلوم ہے۔ ان فرسودہ ڈراموں کو دیکھ کر عورت اپنے آپ کو اسی کردار میں تلاش کرکے اپنے آپ پر ترس کھاتی ہے اور نتیجہ گھریلو ناچاقی کا نکالتا ہے۔
اس قسم کے زبردستی کے قابل رحم فرضی کرداروں کی عکاسی پاکستان کی خواتین کو نفسیا تی مریض بنا رہی ہے۔ میڈیا کا کام معاشرے کو تعلیمی یافتہ بنانے کا ہوتا ہے خود ترس نہیں۔ میں سختی سے مذمت کرتی ہوں ان ڈرامہ زدہ سمہی خواتین اور ان کرداروں کے تخلیق کارواں کی۔
عورت برابری سطحی کی انسان ہے۔ اس پر کوئی نہیں بلکہ وہ کسی پر بھی حکومت کرسکتی ہے۔ وہ نسل کو پروان چڑھانے کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹی سر کرسکتی ہے۔ وہ آنسو بہانے والی خود ساختہ مظلوم نہیں بلکہ درندہ صفت کی چیخیں نکال سکتی ہے۔ اللہ نے عورت کو ابلاغ کی نعمت سے نوازا ہے اس کی آواز و للکار ایک معنی رکھتی ہے۔ یہاں اگر مسافر بس کی مثال دی جائے تو غلط نہ ہوگی روٹ کی بس میں اگر ایک لڑکی کسی مر د کے نامناسب روئیے کی شکایت کرتی ہے تو مسافر خواتین سمیت مرد حضرات بھی اس کی داد رسی کرتے ہیں تو جناب واضح ہوا اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے اپنے ساتھ پیش آنے والے نا مناسب روئیوں کو آشکار کرکے اس مسلے کا حل بھی خود تلاش کرنا چاہیے۔
آنسو بہا کر یا اپنے تئیس معصوم بن کر کچھ نہیں ہوتا بلکہ جرات اظہار سے اپنا حق طلب کیا جاتا ہے اور اللہ نے عورت میں یہ طاقت رکھی ہے جو عورت مرد کو پیدا کرسکتی ہے وہ مردانہ معاشرے کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتی؟ میں یہ نہیں کہتی کہ ہر مرد برا ہے مگر یہ بھی نہیں کہونگی کہ ہر عورت معصوم و مظلوم ہے۔ اگر عورت پہلے ہی اپنے پر اٹھنے والا ہاتھ توڑ دے، اپنے پر ٹھہری غلیظ نگاہ نکال کر اسے کے ہاتھ پر رکھ دے تو اس مرد کی کیا مجال جس کی بھوک عورت کا جسم ہے، جس کے تحت وہ کبھی طیش میں آکر پیٹ دیتا ہے اور کبھی نفس کا بھیڑیا بن کر اپنے آپ کو تسکین دیتا ہے۔
ذرائع ابلاغ پر نشر یا شائع ہونے والے ڈرامے یا کہانیاں عورت کی کمزور بنانے کا ایک بکواس طریقہ کار ہیں جس کو وہ عورت ہی کامیاب بنا رہی ہے۔ جسے خود ساختہ مظلوم بنا پسند ہے یہ خواتین باہمت عورت کی موت ہیں جبکہ عورت زندگی ہے، رنگ ہے، ہمت ہے، جرات ہے، محبت ہے، وفا ہے۔ عورت کائنات کا وہ کردار ہے جس کے بنا حیات ممکن نہیں، عورت کنول کا وہ پھول ہے جو کبھی مرجھاتا نہیں ہے۔ عورت وہ عظیم ہستی ہے کہ عمر رواں کی ایک منزل پر پروردگار جنت بھی اس کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ عورت اگر اپنی اہمیت کو سمجھے تو وہ سب کرسکتی ہے کیونکہ عورت غلام نہیں ہے بلکہ وہ نسلوں کو پیدا کرنے، ان کی تربیت اور انہیں پروان چڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔