ندا ڈھلوں
ہمارے ہاں پیدل چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں۔ تاکہ پیدل چلنے والے لوگ بے ہنگم ٹریفک سے بچ کر اپنا سفر جاری رکھ سکیں، مگر میں اس سلسلے میں بھی مرد حضرات کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں۔ کیو نکہ وہ پیدل چلنے والی سہو لت سے بغیر کسی دقت کے استفادہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تو ہم لڑکیوں کے لئے پید ل چلنا دشوار ہوتا ہے۔ بلکہ دوسرے الفاظ میں مشکل ترین عمل ثابت ہوتاہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لڑ کیاں سکول، کالج، یا نو کری پر جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کے لئے زیادہ تر گھر کے مرد حضرات پر انحصار کرتیں ہیں۔
کبھی اگر گھر کے مرد حضرات مصروف ہوں یا وین والے انکل نہ آئے ہوں، تو پیدل چل کر رکشہ رو کنا یا پھر کسی بس پر بیٹھنا اتنا ہی مشکل لگتا ہے۔ جیسے کہ آسمان سے تارے توڑ کر لانا۔ جبکہ دوسری طرف لڑ کیوں کی بڑی تعداد پبلک ٹرانسپورٹ بھی استعمال کر تی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کے لئے ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک اگر لڑ کیوں کو پید ل چلنا پڑ ے تو یہ عمل قطعی طور پر آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے پیدل چلنے کے عمل کو شروع کر نے سے پہلے لڑ کیوں کو اپنی ہمت باندھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑوں کا مکمل جائزہ لینا ہوتا ہے، اگر شلوار قمیض پہنی ہے تو یہ سفر تھوڑا آسان معلوم ہوتا ہے۔
جبکہ اگر جینز یا ٹائٹس، کسی چھوٹی قمیض کے ساتھ پہنی ہو تو پھر پہلے سے ہی ذہنی طور پر خود کو تیار کر لیا جاتا ہے، کہ فقرے بازی کی جائے گی اور زیادہ تر نشانہ کپڑوں کو ہی بنایا جائے گا۔ اس لئے دل ہی دل میں کہا جاتا ہے کہ بس سر جھکا کا تیز تیز قدم اٹھا کر منزل کی طرف گامزن رہنا ہے۔ لباس کے جائزے کے بعد جیسے ہی قدم کسی بڑی یا چھوٹی سڑک پر رکھے جاتے ہیں تو کبھی کوئی سائیکل والا، موٹر سائیکل والا، اور گاڑی میں بیٹھا ہوا کسی بھی عمر کا کوئی بھی آدمی اپنی گاڑی آپ کے پاس لا کر رفتار کم کرے گا، اور کہے گا کہ ”کہاں جانا ہے“ ؟ اتنی دھوپ اور گرمی میں کیوں کالی ہو رہی ہو ”؟ یا پھر خود کو کیوں مشکل میں ڈالتی ہو“ ؟ ”آپ آجاؤ ہم چھوڑ دیتے ہیں“ ؟
اس سب کے باوجود بھی اگر آپ ڈھیٹ بن کر اپنا سفر شروع ر کھتے ہیں، تو پھر واقعی ہی آپ کو ایک بہادر لڑ کی کا ایوارڈ ملنا چاہیے۔ بات صرف جملے بازی تک نہیں ر ہتی صورت حال تب مزید گھمبیر ہوتی ہے، جب جملے کسنے کے بعد آپ کا پیچھا کیا جائے، اور اسی ڈر میں کہ کہیں یہ لوگ گھر تک نہ پہنچ جائیں آپ اپنے پیدل چلنے کے ایڈونچر، شوق یا مجبوری کو راستے میں ہی چھوڑتے ہیں اور کسی ر کشہ کو روک کر اپنے گھر پر پہنچنے کی کرتے ہیں۔ ایسے ہی میرا ذاتی تجر بہ ہے کہ میرا د فتر میرے گھر سے 5 منٹ کی مسافت پر ہے۔ ایک دن میں نے سو چا کہ کیوں نہ آج پید ل چل کر ہی گھر پہنچا جاے۔ ویسے بھی سارا دن آفس میں بیٹھ کر کام کیا جاتا ہے تو تھوڑی واک بھی ہو جائے گی۔ موسم نے بھی میری سوچ کا ساتھ دیا اور میں نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا۔
اس سب سے پہلے میں نے اپنے لباس کا جائزہ لیا اور سر پر دوپٹہ اُوڑھا اور نکل پڑی، مگر میں صرف چند ہی قدم اٹھاتے ہو ے مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے غلط فیصلہ کیا ہے۔ خیر اب تو فیصلہ لے لیا تھا تو اس کے لئے دل کو مضبوط کیا۔ میر ے پاس سے گزرنے والے موٹر سائیکل سواروں نے باقاعدہ گھورا اور ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ کیا ضرورت تھی اتنی مشکل اُٹھانے کی؟ مزید مجھے کسی مشکل کا سامنا کر نا پڑتا میں نے پہلے ہی ر کشے والے کی تلاش شروع کی اور مین سڑک پر پہنچتے ہی مجھے ر کشہ مل گیا، اور ایسے محسوس ہوا جیسے میری زندگی آسان ہو گئی ہے۔
مجھے لگا کہ اگر کوئی مرد میرے بھائی یا ابا میں سے کوئی میر ے ساتھ پید ل چل رہا ہو تا تو مجھے ان مشکلات کا سامنا نہ کر پڑتا۔ جبکہ دوسری طرف اُس دن کے بعد سے مجھے مردوں کی قسمت پر ر شک محسوس ہوا کہ ہم لڑ کیاں تو پیدل نہیں چل سکتیں، مگر ہاں مرد حضرات کس قدر آزاد ہیں۔ ان کے لئے آزادی اس قدر ہے کہ شہر میں پبلک واش روم ہو نے کے باوجود یہ کہیں پر بھی دیواروں کے ساتھ لگ کر کسی بھی خیال سے بے گانہ ہو کر ”“ واش روم کی سہو لت ”سے استعفادہ حاصل کر لیتے ہیں۔
یہ تو شہر کے بیچ واقع نہر میں کیسے بغیر شرٹ کے نہاتے ہیں۔ مرد حضرات ہیں گیلے کپڑوں میں گھو میں یا پھر بغیر شرٹ کے کو نسا کچھ غلط ہے اس کو ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مردوں کے لئے کو ئی ”ڈریسنگ کوڈ“ نہیں ہے۔ وہ مرد ہیں اور مرد کو اس معاشرے میں سب معاف ہے۔ یہ مادر پدر معاشرہ مردوں کے معاملے میں بہت آزاد خیال ہے، اور دوسری طرف ہم لڑ کیوں کو پید ل بھی نہیں چلنے دیا جاتا۔ ایک بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ مرد اور عورت کا ساتھ رب نے اول روز سے بنایا ہے۔
آدم کو بنایا تو آدم کے ساتھ حوا کوبھی بنایا۔ تاکہ وہ دونوں مل کر اس دنیا کو آباد کر سکیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ دنیا ہی ان دونوں کے گرد گھو متی ہے، مگر اس سب کے باوجود مرد عورت کے بارے میں ہمیشہ تجسس کا شکار ہی رہتا ہے۔ اور حقیقت میں یہی تجسس ہی مرد کو عورت کو بے جا تنگ کر نے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ عورت آزاد نہیں رہ سکتی اس کو ہر حال اور ہر صورت میں مرد پر انحصار کر نا ہے۔
بغیر مرد کے وہ تو پیدل بھی نہیں چل سکتی۔ ہمارے ہاں اگر مرد بھی عورت کو اپنے جیسی مخلوق تصور کر لے تو اس کے ساتھ ساتھ عورت کی زند گی بھی آسان ہو جائے گی۔ اس سارے سلسلے میں میرا کہنا یہی ہے کہ ہمارے ہاں لڑکی کو تعلیم کا حق، خود کو منوانے کا مو قع، اور جائیداد میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے کا حق بھی دینا چاہیے۔ تاکہ وہ بھی آزاد محسوس کر سکے۔