وقت ماضی، حال اور مستقبل میں منقسم ہے۔ ماضی ایک تجربہ ہے، جس سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ گزرا ہوا وقت دوبارہ پلٹ کر نہیں آتا۔ لیکن وہ یادوں کی صورت ذہن کے گوشے میں محفوظ رہتا ہے۔ ہم جس وقت چاہیں ماضی کے کسی بھی لمحے کو دوبارہ اپنے ذہن میں زندہ کر دیتے ہیں۔ حال وقت کی ایک اہم کڑی ہے۔ جو لمحے کا سچ ہے۔ جو سامنے ہے وہ حقیقت ہے۔ مستقبل کا پودا ہی حال میں پنپتا ہے۔ گویا کہ حال ماضی اور مستقبل سے کسی صورت علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن حال کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ حال کے لمحہ موجود میں زندگی رواں رہتی ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ہم حال میں رہتے ہوئے بھی غیر موجود رہتے ہیں۔ کبھی ہم ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے ہیں تو کبھی مستقبل کی منصوبہ بندی میں حال کو بھول جاتے ہیں۔
درحقیقت ہمارے خوف، پریشانیاں اور مسائل زیادہ تر ذہن کی پیداوار ہوتے ہیں جن کی بنیاد ماضی فراہم کرتا ہے۔ زیادہ تر سوچ قیاس آرائی پر مبنی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم۔ رویوں غیر حقیقی انداز سے تشریح کرتے ہیں۔ کسی بھی واقعے یا عمل کا جائزہ غیر جانبدار ہو کے نہیں لیا جاتا بلکہ اس معاملے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دن پر فریب خیال اور قیاس آرائی پر مبنی سوچ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ذہن منتشر اور خیال مبہم ہو تو وقت کے گزرنے کا اندازہ نہیں ہوتا۔ جیسے آج کل کہا جاتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان حال میں موجود نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات سے بھی کوسوں دور کھڑا ہے۔
حال میں موجود رہنے والوں کا وقت اچھا اور مزے سے گزرتا ہے۔ پرفریب خیال کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ iIlusion (واہمے ) جو حقائق کے بگاڑ کی صورت ہے۔ جو شخصی انتشار پیدا کرتا ہے اور وقت کو غیر منظم کر دیتا ہے۔ جیسے سراب کو پانی سمجھنا وغیرہ۔ واہمہ ایک پرفریب خیال ہے، جس کی اصل ہیئت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 2۔ پرفریب خیال کی دوسری قسم Delusion (مغالطے ) کی ہے۔ یہ بھی گمان کی ایک قسم ہے لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے جیسے اندھیرے میں درخت کو بھوت سمجھ لینا۔ یا رسی کو سانپ دکھائی دینا۔ یہ غلط تصور ہے جو چیزوں کی اصلی شناخت کے برعکس قائم کیا جاتا ہے۔
یہ دونوں رویے ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جن کی وجہ سے سوچ اور رویوں میں ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ قیاس آرائی اور مغالطے پر مبنی سوچ انسان کو حال سے دور لے کر جاتے ہیں۔ اور وہ شش و پنج کی کیفیت میں وقت سے کٹ جاتا ہے۔ خوف بھی ایک ایسی کیفیت ہے، جو وقت کے احساس کو ذہنوں سے محو کر دیتی ہے۔ خوف وقت کو منجمد کرتا ہے ماضی میں رہنے والے حال میں موجود ہوتے ہوئے بھی غیر حاضر دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی کے اچھے لمحے انسان کو تحرک عطا کرتے ہیں جب کہ برے تجربے ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خوشگوار لمحوں کو بھول جاتا ہے مگر منفی رویوں کو چاہنے کے باوجود بھی بھلا نہیں پاتا۔ یوگی و صوفی انسان کو حال میں جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں کیونکہ حال انا اور فریب کا خاتمہ ہے۔ رہبر یہ بھی کہتے ہیں کہ حال کے ہر لمحے کا لطف اٹھانا چاہیے۔ ان کی نظر میں تصور اور عمل کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ یعنی حال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے پوری طرح باخبر رہے۔ کام میں مگن بھی رہے اور موسم کو بھی محسوس کرتا رہے۔ اور انسان کی تمام تر حسّیں ان موجود لمحوں میں متحرک ہوں۔ حال کی خوبصورتی کو والٹ وٹمن کچھ اس طرح بیان کرتا ہے۔
”ہوا میں برف کی باس کے ساتھ چیڑ اور دیودار کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ دنیا کی ہر چیز کی الگ مہک ہے۔ برف کی اپنی باس ہے۔ دو گھڑیوں کی خوشبو بھی مختلف ہوتی ہے۔ دوپہر کی اپنی الگ خوشبو ہے۔ آدھی رات کی باس مختلف محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح سرما، گرما غرض ہر موسم کی الگ خوشبو ہو گی۔ آندھیوں کی ایک گھڑی کی بو باس بھی ایک سنسان لمحے کی بوباس سے بہت زیادہ مختلف ہو گی۔ “
یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی اپنی ایک مہک ہے، جو حال میں رہنے والے کو محسوس ہوتی ہے۔ جن کا احساس وقت کی گھڑی کے ساتھ دھڑکتا ہے اور موسموں میں پناہ لے کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ اگر زندگی کو فطری ردم کے ساتھ لے کر چلا جائے اور ہم دنوں، ہفتوں اور مہینوں کو ذہنی و جسمانی ہم آہنگی کے ساتھ بسر کرنے لگیں تو نہ صرف ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا بلکہ ذات کی آگہی منفی سوچوں و رویوں پر قابو پالے گی۔ جب ہم زندگی میں اپنی ذات کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تو خود سے جدا ہو جاتے ہیں۔
اپنی ذات سے دور کھڑا شخص زندگی سے انصاف نہیں کر سکتا اور نہ ہی رشتوں کے تقاضے نبھا سکتا ہے۔ جو اس وقت ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ مجھے بھی بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جیسے اردگرد کے لوگ کہیں کھو گئے ہیں۔ ایک عجیب افراتفری میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی بڑے مسئلے کا شکار نہیں ہیں۔ البتہ خود ساختہ مسائل کے جال میں بری طرح الجھے دکھائی دیتے ہیں۔
بس ہر وقت وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں جب کہ وقت کی ترتیب ذہن میں ہوتی ہے۔ ذہن اگر پرسکون اور انسان حال میں اپنی موجودگی کو محسوس کر رہا ہے تو اس کے لیے وقت آرام سے گزرے گا۔ اور وہ اطمینان سے اپنے کام کر لے گا۔ سکون ٹھہراؤ ہے۔ ٹھہراؤ انسان میں یکسوئی کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اور یکسوئی وقت کو فتح کرتی ہے۔ یہ وہ لمحے ہیں جب ہم رشتوں کو محسوس کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارتے ہیں۔ حقوق اور ذمے داریوں میں توازن قائم رکھتے ہیں۔
ہنستے، مسکراتے وقت کے ہر لمحے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کام کو بوجھ نہیں سمجھتے۔ اور وقت کا زیاں نہیں کرتے۔ موجودہ دور کی اگر بات کی جائے تو ایک انتشار کی کیفیت ہر سو دکھائی دیتی ہے۔ انتشار انسان کی ذات میں غفلت، سستی اور بے ترتیبی پیدا کر دیتا ہے۔ انتشار لمحہ موجود کا سکھ چھین لیتا ہے۔ اور ذہن میں ایک مستقل بے چینی بھر دیتا ہے۔ یہ احساس وقت کی ترتیب کو منتشر کر دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وقت پر لگا کے اڑتا ہے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ وقت ہماری دسترس میں کیوں نہیں آتا؟ درحقیقت وقت ہمارا تابع ہے۔ ہم جس طرح چاہیں وقت کو اپنے دائرہ اختیار میں لا سکتے ہیں کیونکہ وقت انسان کی ذہنی کیفیت سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کسی دلچسپ مشغلے میں مگن ہیں تو وقت گزرنے کا اندازہ نہیں ہو گا اور اگر بوریت محسوس ہو رہی ہے تو وقت کاٹنا محال ہو جاتا ہے۔ جسم کا درجہ حرارت اگر معمول سے زیادہ ہو تو بھی وقت نہیں گزرتا۔
یورپ میں آج کل Chronokinesis ٹیکنیک بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جس کی مشقیں کرنے کے بعد وقت کی رفتار ہمارے تابع ہو جاتی ہے۔ اس طریقہ کار میں ذہن کی طاقت سے وقت کو سست رفتار یا تیز تر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام تر مشقیں یکسوئی کی کیفیت کو قائم رکھنے کے لیے ہیں۔ مثال مراقبے کے دوران وقت تھم سا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں میڈیٹیشن سکھانے کے انسٹیٹیوٹ موجود ہیں۔ ایشیا کے بہت سارے ترقی یافتہ ملک اور یورپ میں لوگ مصروف ترین زندگی سے وقت نکال کر حال کے لمحوں میں واپس آتے ہیں۔ وہ اس لمحے کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ جب انھیں وقت ملتا ہے خودسے ہم کلام ہونے کا۔ وہ اپنے من پسند علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ تنہائی سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ فطرت سے محظوظ ہو کر دوبارہ تازہ دم ہو جاتے ہیں، بقول کارل یونگ کے کہ:
”جب تم اپنے دل کی طرف متوجہ ہو گے تو تمہارا تصور واضح ہوتا چلا جائے گا۔ جب باہر کے موسموں کی طرف دیکھو گے تو خواب دیکھنے لگو گے اور جب اپنے اندر کی دنیا کو محسوس کرو گے تو وہی لمحہ تمہیں بیدار کر دے گا“۔ یہ لمحہ موجود کی محسوسات ہیں جو انسان کو ذہنی و روحانی طور پر یکجا کرتی ہیں۔ وہ لمحہ موجود جو ہماری دسترس میں ہے، جو ہماری زندگی کا حاصل ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو ہماری منتظر ہیں۔ وہ رشتے جو قربتوں کے متلاشی ہیں وہ بھولے بسرے دوست جو رابطوں کو پکارتے ہیں۔ وہ موسم جنھیں ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ وہ یقین جو کھو گیا ہے اور مسکراہٹیں جو روٹھ گئی ہیں۔ آئیے ان کا دوبارہ ہاتھ تھام لیں۔