اقبالیات اور غلاموں کا دیس

محمد حنیف

کیا کہا کسی نے کہ سکول میں بچوں کو اقبالیات اور اسلامیات پڑھائی جائے؟

دل سے صدا نکلی ’نواں آیاں اے سوہنیا‘۔

پھر دماغ نے پوچھا کہ آپ لوگ کون سے سکولوں میں پڑھے ہو؟

ایچی سن کالج میں۔

آپ کے زمانے میں شاید یہ نہ پڑھاتے ہوں، اب تو پچھلے 30 سال سے ٹاٹ سکولوں سے لے کر سینٹرل ائیرکنڈیشن سکول میں بھی پڑھاتے آرہے ہیں۔

دل میں سوال آیا کہ ہمیں آپ نے اقبالیات اور اسلامیات کے علاوہ پڑھایا کیا ہے؟

سوال ہونٹوں پر اس لیے نہیں آیا کیونکہ اپنے ایم سی ہائی سکول میں اسلامیات کے استاد منشی اسلم کا پرنور چہرہ، چمکتی ہوئی کالی شیروانی اور ذری والے کھسے یاد آگئے۔

ہندو بچے

وہ ہر سبق کا آغاز اسی بات سے کرتے تھے کہ یہ بات لاریب ہے۔ اور ہر سوال کا ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ’منشی تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہے۔‘

ایم سی ہائی سکول ظاہر ہے ایچی سن کالج نہیں تھا، لیکن ستر کی دہائی کے سرکاری سکولوں کی طرح کشادہ تھا۔

لائبریری تھی، لیبارٹریاں تھیں، فٹ بال کا بڑا گراؤنڈ تھا، پانی کے لیے مٹی کے گھڑے بھی تھے۔

اسلامیات کو اس وقت دینیات کہتے تھے، لیکن مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی اور دین کی بات ہوئی کیونکہ وہ ظاہر ہے سب کافر تھے اور تمام اچھے مسلمانوں کی طرح منشی صاحب کافروں کو پسند نہیں کرتے تھے۔

سکول

منشی صاحب سے سوال پوچھنے سے اس لیے بھی ڈر لگتا تھا کیونکہ جب وہ میز پر ٹیک لگانے کے لیے اپنی شیروانی کا نیچے والا بٹن کھولتے تھے تو ان کی کمر کے گرد لگے ہوئے چمڑے کے ہولسٹر میں ان کے ریوالور کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ انھوں نے شروع میں ہی تسلی کرادی تھی کہ ریوالور کلاس کے لیے نہیں پہنتے بلکہ اس لیے کہ دشمن دار آدمی تھے اور عادی مقدمے باز۔ پیریئڈ ختم کر کے اپنی سائیکل پر بیٹھ کر سیدھے ضلع کچہری پہنچ جاتے تھے۔

منشی صاحب نے اسلامیات اتنی دلچسپی سے پڑھائی کہ میرے دل میں ہر بات لاریب ہوگئی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ لاریب کا مطلب سکول ختم کرنے کے کئی سال بعد سمجھ آیا۔

اُن کی کلاس میں ہمیشہ ٹاپ کیا۔ ایچی سن کالج میں پتا نہیں کس طرح کے انعمات ملتے تھے، میں نے اسلامیات میں ٹاپ کیا تو مجھے مولانا مودودی کی تفہیم القران کی پہلی جِلد ملی تھی۔ اگر میرے ایمان میں کوئی کمزوری تھی تو وہ اس نے پوری کردی۔

اور اقبالیات شاید ایچی سن کالج میں نہ پڑھاتے ہوں ایم سی ہائی سکول میں اتنی پڑھی اور علامہ اقبال کو اتنا رٹا لگایا کہ میں اپنے آپ کو بھی چھوٹا موٹا علامہ سمجھنے لگا تھا۔ کبھی کبھی تو ڈیسک پر اُن کی طرح سر پر ہاتھ رکھ کر ان کا پاکستان کا خواب دیکھنے والا پوز بھی بنا لیتا تھا۔

ان لوگوں پر رشک آتا ہے جن کو شعر یاد رہتے ہیں۔ جن کو غالب کی پوری غزلیں یاد رہیں، جو ہیر وارث شاہ کے حافظ ہیں۔

مجھے شعر بالکل یاد نہیں رہتے، لیکن ایم سی ہائی سکول نے اقبالیات میرے اندر اتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ اب بھی ان کی طویل نظمیں بھی زبانی یاد ہیں۔

میں اور میرا ایک کلاس فیلو دوسرے سکولوں میں جا کر مکالمہ ابلیس و جبریل کو ڈرامائی انداز میں پڑھتے تھے اور انعام میں بانگ درا پاتے تھے۔ کبھی وہ جبریل، کبھی میں ابلیس اور کبھی وہ ابلیس اور میں جبریل۔

اس عمر میں بھی جب انکل بھی ہمیں انکل کہنے لگے ہیں کبھی ’اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے‘ پوری یاد ہے۔

موڈ میں آکر ’خودی کا سِر نہاں لا الہ اللہ‘ پوری گنگنا لیتا ہوں۔ ویسے ایم سی ہائی سکول میں کیمسٹری بھی پڑھی تھی۔ پانی کے علاوہ کوئی فارمولا یاد نہیں۔ فزکس بھی پڑھی تھی مگر نیوٹن اور سیب کے درخت کے علاوہ کچھ یاد نہیں آتا۔ الجبرا تو بعد میں بھی پڑھا لیکن اب پرائمری سکول کے بچے کو ہوم ورک بھی نہیں کروا سکتا۔

عبدالسلام

مرحوم ڈاکٹر عبد السلام نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں میتھ میٹکس کا شعبہ ایک سو سال سے زائد عرصے سے قائم ہے لیکن ہم بھی پی ایچ ڈی پیدا نہیں کرسکے۔ شائد اُنھیں یہ علم نہیں تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی لوگوں نے علامہ اقبال پر کی ہے۔

مجھے تو شک ہے کہ پوری قوم ہی اقبالیات پڑھ پڑھ کر اپنے آپکو علامہ سمجھنے لگی ہے۔

ہوسکتا ہے وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کے لوگوں سے بات کر کے احساس ہوا ہو کہ ہمیں اور اقبالیات کی ضرورت ہے۔ اسد عمر صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ وہ اپنے قومی جذبے کو مہمیز لگانے کے لیے صبح اٹھ کر سٹرنگز بینڈ کے گانے سنتے ہیں۔

خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اسد عمر سے کہیں کہ وہ روز صبح اٹھ کر کبھی ’اے نوجواں مسلم‘ گایا کریں۔ اور کبھی اپنے وزیر تعلیم بلا کر یہ پوچھیں کہ وہ کروڑوں بچے جنھوں نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی ان کی خودی کو کیسے بلند کرنا ہے۔